عوامی مینڈیٹ کی توقیر
یہ وطن عزیز کی بدنصیبی ہے کہ بیشتر حکومتوں نے عوام کو بڑے منصوبے نہیں دیے
یہ کتنی بد نصیبی کی بات ہے کہ پاکستان میں کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور سازشی ٹولے نے ہمیشہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کی اور عوام کے ووٹ کا تقدس پامال کیا۔ محمد نوازشریف کے خلاف بھی ایسا ہی کٹھ پتلی تماشا شروع کیا گیا۔
دنیا حیران ہے کہ پاکستان کا ایک ایسا وزیر اعظم جس نے دہشتگردی کا خاتمہ کرکے ملک میں امن قائم کیا، زبوں حال معیشت کی بحالی کے لیے محنت کی اور معیشت کو دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل کیا جانے لگا۔ جسے خزانہ خالی ملا تھا مگر اس نے زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیے۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے راستے ہموارکردیے۔ موٹرویز اور شاہراہوں کا جال بچھایا، توانائی بحران کے خاتمے کے لیے پے درپے منصوبے شروع کیے جس کی وجہ سے عوام بجلی کے بحران سے کسی حد تک باہر نکل آئے اور جلد ہی نئے منصوبے مکمل ہونے کے بعد بجلی کا بحران مکمل ختم ہو جائے گا۔
یہ وطن عزیز کی بدنصیبی ہے کہ بیشتر حکومتوں نے عوام کو بڑے منصوبے نہیں دیے مگر سابق وزیراعظم نے گیم چینجر منصوبہ سی پیک قوم کو دیا۔ کراچی کی رونقیں بحال کیں، خوف کی فضا ختم کی اورکسی بھی بڑی طاقت سے مرعوب ہوئے بغیر پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا۔
دنیا حیران ہے کہ ایسے وزیر اعظم کے خلاف سازشی ٹولے نے اپنی کٹھ پتلیوں عمران، قادری، شیخ رشید اور دیگر کے ذریعے محمد نوازشریف کو نا اہل قرار دلوا دیا۔ قارئین! آپ کو یاد ہو گا کہ سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے یہ بات بتا دی تھی اپنی پریس کانفرنس میں کہ عمران خان نے ان سے کہا تھا کہ اس بار مارشل لا نہیں آئے گا بلکہ نوازشریف کو عدالت کے ذریعے ہٹایا جائے گا۔
موجودہ حالات میں جاوید ہاشمی کی بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیر اعظم بھی مسلسل یہ بیانات دیتے رہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور نا اہلی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔ انھوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے یہ بات واضح کر دی ہے کہ عمران خان کی حیثیت اسٹیبلشمنٹ کے مہرے سے زیادہ کچھ نہیں اور عمران کو انھوں نے اپنے سیاسی تجربے کی بدولت ایک متنازع شخصیت بنا دیا ہے۔ ان کا یہ سوال بھی دعوت فکر دیتا ہے کہ کوئی ایسا جج موجود ہے جو مشرف کا احتساب کرے اور اسے سزا دے۔
پرویز مشرف کو عدالت نے اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔ عدلیہ نے ان کے خلاف جو بھی فیصلہ دیا اس سے قطع نظر یہ نوازشریف ہی تھے جنہوں نے عدلیہ کی بحالی کے لیے لانگ مارچ شروع کیا تھا اور اب ابھی انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کیا ہے البتہ اختلاف رائے ہر شخص کا جمہوری حق ہے لیکن ان کے مخالفین یہ پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ وہ سپریم کورٹ پر حملہ کر دیں گے یا انھوں نے اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنا رکھی ہے یا پھر یہ کہ وہ اداروں کو باہم متصادم دیکھنا چاہتے ہیں یا اداروں پر دباؤ ڈال رہے ہیں مگر انھوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کر کے اور پر امن سیاسی جدوجہد کا آغاز کر کے مخالفین کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیے ہیں۔
مخالفین نے یہ بھی پروپیگنڈا کیا تھا کہ ان کی اقتدار سے محرومی کے بعد مسلم لیگ (ن) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی اور دھڑے بندی میں تقسیم ہو جائے گی مگر یہ بھی ان کی کرشماتی شخصیت کا کمال ہے کہ مسلم لیگ آج بھی اسی طرح متحد ہے جس طرح پہلے تھی۔ انھوں نے نئے وزیر اعظم خاقان عباسی کے حلف اٹھانے تک مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب حکومت معمول کے مطابق اپنا کام کر رہی ہے۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم کا ایجنڈا یہ ہے کہ وہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور عوامی مینڈیٹ کی توقیر بحال کرنے کا مشن لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد سابق وزیراعظم نے اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد اسلام آباد سے لاہور تک تاریخی ریلی نکال کر یہ ثابت کردیا کہ وہ ہی اصل میں عوام کے محبوب قائد ہیں۔ انھوں نے لاہور تک ریلی نکالنے کے لیے موٹروے کے بجائے جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ فیصلہ بدلنے کے لیے ان پر دباؤ بھی ڈالا گیا مگر انھوں نے کسی بھی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا۔
قارئین! ان کی شخصیت کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ وہ دلیر اور جرأت مند سیاست دان ہیں۔ جب وہ کوئی فیصلہ کرلیتے ہیں تو وہ نتائج کی پروا کیے بغیر اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ لہٰذا پنجاب ہاؤس سے جی ٹی روڈ کے لیے ریلی نکالے جانے کا فیصلہ حتمی تھا۔ حکومت جانے کے بعد ان کا یہ قافلہ جب پنجاب ہاؤس سے روانہ ہوا تو راقم الحروف بھی اس میں شریک تھا۔ میاں محمد نوازشریف کا اسلام آباد، راولپنڈی، روات، گوجر خان، جہلم، گجرات، گوجرانوالہ اور لاہور میں جس طرح تاریخی اور فقیہ المثال استقبال کیا گیا اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کا اقتدار سے محرومی کے فوری بعد عوامی سطح پر اتنا عظیم الشان استقبال کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوامی عدالت میں سرخرو ہوگئے۔ ریلی کے تمام راستے میں، میں نے مشاہدہ کیا کہ شدید گرمی اور دھوپ میں خواتین، بچے اور بوڑھے اپنے محبوب قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب تھے۔
خاص طور پر نوجوانوں کی بڑی تعداد میں موجودگی بڑی حوصلہ افزا تھی جو نوازشریف پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کررہے تھے اور پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔ میرے لیے یہ بات نہایت خوشگوار تھی کہ جہلم سے لاہور تک ریلی میں لاکھوں افراد نے شرکت کرکے ان کی مقبولیت پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی۔ بعدازاں سابق وزیر اعظم نے مزار اقبال پر بھی حاضری دی۔ اس دوران اجتماعات، اجلاسوں اور میڈیا سے خطاب کیا۔ مجھے ان کے سیاسی خیالات جاننے اور ان کے سیاسی ویژن سے آگاہی کا بھی بھرپور موقع ملا۔ قارئین پنجاب کے عوام نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔
توقع ہے کہ محمد نواز شریف ملک بھر کا دورہ کریں گے۔ چاروں صوبوں کے عوام تک اپنا نکتہ نظر پہنچائیں گے۔ سندھ کے عوام اور کارکن بھی ان کے دورے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں ہر مشکل وقت میں سندھ کے عوام خصوصاً اقلیتوں کی مدد کی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ سابق وزیر اعظم جہاں بھی جائیں گے وہاں ان کا استقبال ایسا ہی ہوگا جیسے پنجاب کے عوام نے کیا ہے۔ عوامی عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور جو قوتیں نوازشریف کو سیاست سے باہر کرنا چاہتی ہیں ان کے لیے عوامی عدالت کا فیصلہ یقینا مایوس کن ہے مگر عوام کا فیصلہ ہی حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔