جو سچ بولے یہاں غدار ہے وہ
اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے کہ ’’کیا ہو رہا ہے‘‘ اور پاکستان کہاں پہنچا دیا گیا ہے۔
ساری جماعتیں سب کچھ جانتے بوجھتے بھی جھوٹ ہی جھوٹ پر چلے جا رہی ہیں۔ سیاسی جماعت کے سربراہ کا کیا کردار ہے، اس جماعت کے اوپر کے لوگ خصوصاً سب کچھ جانتے ہیں، مگر پھر بھی اپنے قائد کو سچا ثابت کرنے کے لیے بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔ آئین کی دفعات 62 اور 63 کا آج کل بڑا چرچا ہے۔ اور یہ جھوٹ بولنے والے، کہاں کے صادق اور امین ہیں! ذرا دیکھ لیں۔
اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے کہ ''کیا ہو رہا ہے'' اور پاکستان کہاں پہنچا دیا گیا ہے۔ کروڑوں اربوں کھربوں لوٹ کر بھی ''مجرم'' آزاد گھوم پھر رہے ہیں۔ ان کی تمام تر آزادیاں (بلکہ آزادیوں سے بھی بہت آگے کے معاملات) بحال ہیں۔ آج کے دور کی ایک اور اصطلاح بہت مشہور ہے ''فرنٹ مین''، یہ سارے فرنٹ مین ہوا کا رخ دیکھ کر ادھر ادھر کر دیے جاتے ہیں اور ''اصلی مین'' اکڑ اکڑ کر چلتے پھرتے بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔ مقدمات عدالتوں میں ہیں، مگر فیصلوں میں بڑا وقت لگ رہا ہے۔ اور لوٹ مار جاری ہے۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں مصروف ہیں۔
مقدمات میں جہاں تیزی ہے۔ وہاں تیزی ہے، باقی سست رفتاری ہے۔ ''لٹیرے'' ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ پھر اشارہ ملتے ہی واپس آجاتے ہیں، ضمانتیں کرواتے ہیں اور باقی اللہ اللہ خیر صلا۔ لوٹ مار کے پکے ثبوت موجود ہیں، مگر ''وہ'' کہتے ہیں، ہم نے کچھ نہیں کیا۔ اب کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے، یہ ایک ''گھمن گھیری'' ہے، جس میں پوری قوم کو ڈالا ہوا ہے۔ عوام گھمن گھیری میں چکر کھا رہے ہیں، گر رہے ہیں، مر رہے ہیں، اور ''یہ'' گھمن گھیری میں گرتے، مرتے عوام کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
''یہ'' گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے، انھوں نے ''الف'' سے لے کر ''یے'' تک کوئی مسلم لیگ نہیں چھوڑی۔ دیگر جماعتوں کے چکر بھی ''یہ'' لگاتے رہتے ہیں۔ یہی ''چکر بازیاں'' ان کا نظریہ ہے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہو چکی ہے۔ جب ملک ٹوٹا تھا، تب علیحدہ ہونے کا حصہ ملا کر آبادی دس کروڑ تھی۔ تب بھی جلسے جلوس بڑے ہوتے تھے۔ آج بھی بڑے ہوتے ہیں، مگر وقت بدلنے کے ساتھ نوعیتیں بھی بدل گئی ہیں۔ تب خالص نظریے کی بنیاد پر سیاست ہوتی تھی، اب شخصیت پرستی غالب آ چکی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ وقت نے بہت کچھ اور بھی بدل ڈالا ہے۔
ابھی چار روز ہوئے آزادی کا 70 سالہ جشن منایا گیا۔ ایک بزرگ ''پنڈت لارڈ ماؤنٹ بیٹن'' کہہ کر وائسرائے ہند کو یاد کر رہے تھے۔ یعنی تقسیم ہند میں انگریز حکومت بذریعہ اپنے وائسرائے سازشی انداز میں شامل تھی۔ 70 سال میں ملک کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک آج دنیا چلا رہے ہیں۔ چین اس کی مثال ہے۔ مگر آزادی دیتے ہوئے پنڈت لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہمارے ساتھ ہاتھ کرگئے، کشمیر ہندوستان کو دے گئے۔
کشمیر ایک انسانی مسئلہ ہے۔ کشمیر آزاد ہونا چاہیے۔ آزادی یوں ہی نہیں ملتی، سو کشمیری آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پاکستان اس جنگ کا لازمی حصہ ہے۔ ایک قوم، ایک ملک کی آزادی کے لیے ہم پاکستانی قابض ہندوستان سے لڑ رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر ہمارے لیے بہت بڑی ذمے داری تھی اور ہے مگر اس ذمے داری کو ہمارے حکمرانوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔
پاکستان قائم ہوا تو ہمارے بہت سے قائدین زندہ تھے، ان قائدین میں وہ نام شامل ہیں جنھوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور چند نام وہ بھی تھے کہ جنھوں نے تقسیم ہند کی مخالفت کی تھی، مگر پاکستان بننے کے بعد ان مخالفین نے بھی پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ ان مخالفین میں بہت بڑا نام خان عبدالغفار خان کا تھا۔ یہ شخصیت ایسی تھی کہ جو استحکام پاکستان کے لیے بہت کچھ کرسکتی تھی۔ مگر مفاد پرست ٹولے نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
پہلی دستور ساز اسمبلی میں باچا خان نے بطور ممبر اسمبلی پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا اور قائداعظم سے کہا ''آؤ اب مل کر استحکام پاکستان کا کام کریں'' مگر ایسا کبھی نہ ہوسکا، قائداعظم جلد ہی انتقال کرگئے اور مفاد پرست ٹولے نے خان عبدالغفار خان کو غدار قرار دے کر فارغ کردیا۔ ایسا نہ ہوتا تو خان صاحب اتنی بڑی حیثیت کے حامل انسان تھے، جو ہندوستان سے ہر مسئلے پر بات چیت کرسکتے تھے۔
مفاد پرست ٹولے نے باچا خان تک ہی خود کو محدود نہیں کیا بلکہ انھوں نے لاہور کے منٹو پارک میں قرارداد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال اے کے فضل حق کو بھی نہیں چھوڑا اور انھیں بھی غدار قرار دیا اور چل سو چل تحریک پاکستان میں قائداعظم کے شانہ بہ شانہ کام کرنے والے سنہرے انسانوں کی تذلیل کی گئی۔ یہ سنہرے لوگ، کاسہ لیس نہیں بن سکتے تھے۔ یہ سچ بولتے ہیں۔ یہ اپنے وطن کی تباہی و بربادی پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ لہٰذا مفاد پرست ٹولے نے ان کو چلنے نہیں دیا۔
دراصل یہی وہ سنہرے لوگ تھے جو پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے بہت آگے تک لے جا سکتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے پاکستان کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیا تھا، نام پڑھتے جائیے اور سوچتے جائیے کہ پاکستان کو اس تباہی و بربادی تک پہنچانے میں کیسے کیسے ہیرے لوگ گنوا دیے گئے۔ بنگال کے خواجہ ناظم الدین جنھیں محض چند دنوں کے لیے ضرورتاً وزیراعظم بنایا گیا۔ بنگال ہی کے حسین شہید سہروردی، انھیں بھی چند دنوں کے لیے وزیراعظم بنایا گیا۔
جنرل ایوب خان نے ایبڈو کے تحت سہروردی صاحب کو سیاست کے تحت نااہل قرار دیا۔ چوہدری خلیق الزماں جنرل ایوب کے ساتھ مل گئے، سو وہ معتبر کہلائے اور سچ بولنے والے حسین شہید سہروردی غدار کہلائے۔ اور بیروت کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ ان کی بیٹی بیگم اختر سلیمان بھی یہی کہتی تھیں کہ انھیں مارا گیا۔ غرض کہ جس جس نے تحریک پاکستان میں آگے بڑھ کر کام کیا تھا قیام پاکستان کے بعد ان سے استحکام پاکستان کے لیے کام نہ لیا گیا، اور ان تمام لوگوں کو غدار کہہ کر علیحدہ کردیا گیا۔
غداروں کی اس فہرست میں اور بھی نام آتے ہیں خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، ارباب سکندر خان خلیل، میر غوث بخش بزنجو، جی ایم سید، عبدالصمد اچکزئی، خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل، گل خان نصیر، اکبر خان بگٹی، میاں افتخار الدین، محمود الحق عثمانی، انیس ہاشمی، سجاد ظہیر، میجر اسحاق، محمد حسین عطا، فیض احمد فیض۔ اس راولپنڈی سازش کیس کے ایک غدار سے برسوں میری ملاقات ہوئی، کیپٹن ظفر اللہ پوشنی، بقول ان کے وہ 91 سال کے ہوگئے ہیں مگر فٹ فاٹ ہیں۔ غداروں کی فہرست میں ایک نام حبیب جالب کا بھی ہے انھی کے چار مصرعے لکھ رہا ہوں:
خوشامد کا صلہ تمغۂ خدمت
خوشامد سے ملے سفلوں کو عزت
خوشامد جو کرے فنکار ہے وہ
جو سچ بولے یہاں غدار ہے وہ
ارے یہاں تو قائداعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی معتوب ٹھہریں۔ یہی غدار تھے کہ جنھیں موقع ملتا تو یہ پاکستان کی سمت درست کرسکتے تھے اور آج ہمارے ملک کے ادارے اپنی حدود میں رہتے اور لوٹ مار کا بازار بھی نہ ہوتا، لٹیرے ڈاکو اور قابضین بھی نہ ہوتے۔ اور رہا انقلاب! تو اس کے لیے گھر کو آگ لگانا شرط ہے۔ بقول مجروح سلطان پوری:
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے، ہمارے ساتھ چلے