مسلم لیگ ن کی قیادت میں سوچ کا اختلاف
مسلم لیگ (ن) میں سوچ اور نظریہ کا اختلاف کوئی نیا نہیں ہے، یہ پہلے دن سے موجود ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے اندر کوئی مفاد کی جنگ نہیں ہورہی۔ لیڈرآپس میں شراکت اقتدار پر نہیں لڑ رہے۔ وزارتوں کی بندر بانٹ پر کوئی لڑائی نہیں ہے۔ سوچ اور نظریہ کی لڑائی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سینئر لیڈر شپ میں سوچ اور نظریہ کا اختلاف بڑھ گیا ہے۔ ایک طرف مفاہمت کی سوچ اور دوسری طرف مزاحمت کا نظریہ ہے۔ مزاحمت والے مفاہمت والوں کی بات سننے کو تیار نہیں اور مفاہمت والے مزاحمت والوں کے ساتھ ایک قدم بھی چلنے کو تیار نہیں۔ دونوں طرف سے ایک ہی بات ہے کہ بس بہت ہو گئی۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں کوئی پلیٹ فارم نہیں جہاں سوچ اور نظریہ کے اس اختلاف کو طے کیا جا سکے۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور لیڈر سب پریشان و غلطاں ہیں۔ کہنے کو تو لڑائی پرویز رشید اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان شروع ہوئی ۔ لیکن بات اتنی سادہ نہیں معاملہ تو شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان ویسا ہی ہے جیسا پرویز رشید اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ہے۔
اگر پرویز رشید سول بالادستی کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہیں تو چوہدری نثار علی خان اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مکمل شراکت اقتدار کے حامی ہیں ۔ اسی طرح اس وقت نواز شریف بھی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مکمل مزاحمت کے موڈ میں نظرآرہے ہیں جب کہ شہباز شریف نے اس حوالہ سے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے مفاہمت کا پرچم بلند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ پہلی دفعہ ہے کہ شہباز شریف نے پارٹی میں کسی اہم معاملہ پر اتنی پرزور اور واضح لائن لی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے وہ اپنے بھائی کے ساتھ بند دروازوں میں تو اختلاف کرتے تھے لیکن ویسے چپ رہتے تھے۔ دونوں بھائیوں کی انڈر اسٹینڈنگ کی تو مثالیں دی جاتی تھیں۔ کیونکہ مقابلہ میں بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ ایسی کوئی مثال سامنے نہیں رکھ سکے تھے۔ لیکن شاید اب نظریہ کا اختلاف اس قدر شدید ہو گیا ہے کہ خاموشی موت ہے ۔
مسلم لیگ (ن) میں سوچ اور نظریہ کا اختلاف کوئی نیا نہیں ہے، یہ پہلے دن سے موجود ہے۔ اس سے پہلے نواز شریف دونوں سوچ اور نظریوں کے درمیان ایک بیلنس رکھتے تھے۔ ہر معاملہ پر درمیانہ راستہ نکالا جاتا۔ جس سے دونوں سوچ کے علمبرداروں کو لگتا کہ نہیں ان کی بات بھی مانی جا رہی ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف ایک طرف ہو گئے ہیں۔ جس سے سارا بیلنس ختم ہو گیا ہے۔ لیکن یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ 1999 میں بھی ایسا ہی ہواتھا کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ نواز شریف پرویز مشرف کو ہٹانے جا رہے ہیں۔ اور سانحہ ہو گیا۔ لیکن دلچسپ بات یہی ہے کہ تب بھی شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کو پرویز مشرف کو ہٹانے کا علم نہیں تھا۔
قارئین جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہونگے تو اس وقت تک چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس کر دی ہوگی۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف اکٹھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں اکٹھے نہیں ہیں۔ چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ (ن) میں تنہا ہیں۔ ان کا کوئی سپورٹ کیمپ نہیں ہے۔ ان کے ساتھ کوئی نہیں ہے۔ ویسے تو پرویز رشید بھی اکیلے ہیں۔ ان کا بھی کوئی سپورٹ کیمپ نہیں ہے۔ دونوں فرد واحد ہیں۔ دونوں جائیں گے بھی تو اکیلے ہی جائیں گے اور اگر رہیں گے تو بھی اکیلے ہی رہیں گے۔ تاہم شہباز شریف اکیلے نہیں ہیں۔
خود میاں نواز شریف نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جب انھوں نے ارکان اسمبلی سے بات کی کہ کس کو وزیر اعظم بنایا جائے تو ارکان اسمبلی کی اکثریت نے شہباز شریف کا نام دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی اور کارکنان کی اکثریت نواز شریف کے بعد شہباز شریف کو ہی اپنے لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جب کہ چوہدری نثار علی خان کی ایسی کوئی پوزیشن نہیں ہے، وہ اکیلے ہیں، ان کا کوئی سپورٹ کیمپ نہیں ہے۔ شہباز شریف کی مقبولیت کے بارے میں سروے سامنے آچکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سوچ اور نظریہ کا یہ اختلاف کس حد تک جائے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ شہباز شریف نے اس بار تصادم کو ہر حال میں روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ 1999ء کی طرح اس بار نہ تو خاموش تماشائی بنے رہنا چاہتے ہیں اور نہ ہی سوئے رہنے کے موڈ میں ہیں۔ اسی لیے پہلے مرحلہ میں انھوں نے اپنی جماعت کے خیر خواہوں سے اپیل کی ہے کہ وہ قومی اداروں کے خلاف متنازعہ بیان بازی سے پرہیز کریں۔ جہاں انھیں پرویز رشید کی ایک ادارہ کے بارے میں گفتگو پسند نہیں آئی وہاں انھیں اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے بارے میں اسپیکر کے ریفرنس پر بھی اختلاف ہے، وہ اس کے بھی حامی نظر نہیں آرہے۔
شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان سوچ کا یہ اختلاف گزشتہ کئی ماہ سے موجود ہے۔ شہباز شریف پانامہ کے سامنے آنے کے بعد نواز شریف کے استعفیٰ کے حامی تھے۔ ان کے خیال میں استعفیٰ سے معاملات بگڑنے کے بجائے سنبھل جاتے۔ وہ تو جب نواز شریف بیمار ہو کر لندن گئے تھے تب ہی نواز شریف کے مستعفیٰ ہونے کے حامی تھے۔ راوی بتاتے ہیں کہ ایک طرف وہ نواز شریف کو قائل کرتے تھے اور دوسری طرف بعض قریبی افراد فیصلہ بدل دیتے تھے۔ اس طرح جے آئی ٹی کے بعد بھی شہباز شریف اس بات کے حامی تھے کہ نواز شریف بطور وزیر اعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہوں۔ لیکن تب بھی شہباز شریف کی نہیں مانی گئی۔
میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف تب بھی صحیح بات ہی کر رہے تھے ۔ آج نواز شریف نیب کے سامنے جس طرح ڈٹے ہیں بطور وزیر اعظم وہ ممکن نہیں تھا۔ اگر نواز شریف جے آئی ٹی کے ساتھ بھی بطور عام آدمی نبٹتے تو شاید بات نا اہلی تک نہ پہنچتی۔سوچ اور نظریہ کے اسی اختلاف کی وجہ سے شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے سے معذرت کی ہے کیونکہ وہ اداروں کی محاذ آرائی کی پالیسی کو لے کر نہیں چلنا چاہتے تھے۔
سوچ اور نظریہ کے اسی اختلاف کی وجہ سے نواز شریف نے شہباز شریف کو پارٹی صدر بنانے کا اعلان کر کے واپس لے لیا ہے۔ یہی اختلاف حمزہ شہباز کو پیچھے کر رہا ہے۔ شاید نواز شریف خاندان کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ حمزہ شہباز بھی مزاحمت کے بجائے مفاہمت کے حامی ہیں۔ حمزہ شہباز جو ہمیشہ اپنے تایا کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، اب باپ کے ساتھ کھڑے ہیں، اسی لیے نزلہ ان پر بھی گر رہا ہے۔ شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس اگلے الیکشن میں بیچنے کے لیے صرف پنجاب میں شہباز شریف کے کام ہیں۔
شہباز شریف کے بجلی کے منصوبے ہیں۔ شہباز شریف کے ترقیاتی کام ہیں۔ شہباز شریف کی گڈ گورننس ہے۔اگر شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی پٹاری میں سے نکال دیا جائے تو باقی پانامہ اور نااہلی رہ جاتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ صرف پانامہ اور نااہلی کو لے کر مسلم لیگ (ن) الیکشن میں جا سکتی ہے۔ شہباز شریف کے کام ہی واحد سہارا ہیں۔