اسحاق ڈار نے بھی پاناما فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کردی
سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہیں لہذا 28 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، درخواست میں موقف
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی پاناما فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائرکردی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسحاق ڈار کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی نظر ثانی درخواست 9 صفحات پر مشتمل ہے، درخواست وفاقی وزیر کے وکیل شاہد حامد اور ڈاکٹر طارق حسن نے دائر کی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : نیب کا شریف خاندان اوراسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میرے خلاف نام نہاد اعترافی بیان کا الزام لگایا گیا، درخواست گزار کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام نہیں لگایا گیا تھا، جے آئی ٹی کی رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں، اپنا تمام مالیاتی ریکارڈ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو دے چکا ہوں۔ 1983 سے 2016 تک کا مکمل انکم اور ویلتھ ٹیکس ریکارڈ فراہم کیا گیا اور ٹیکس اتھارٹیز نے میرے گوشواروں کو قبول کیا۔ بطوروزیر خزانہ اثاثوں میں 544 ملین کی کمی ہوئی جب کہ اثاثوں میں اضافہ-09 2008 میں ہوا جس کی وجہ 6 سالہ غیر ملکی آمدن تھی۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو اثاثوں کی تحقیقات کا حکم نہیں دیا تھا، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف ہمارے اعتراضات کو زیرغور نہیں لایا گیا،عدالت نے بھی مینڈیٹ سے تجاوز رپورٹ پر ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سماعت 3 ججز اور فیصلہ 5 ججز نے سنایا، جن 2 ججز نے سنا نہیں وہ فیصلے میں کیسے شامل ہو گئے جب کہ نگراں جج کے تقرر سے عدالت بظاہر شکایت کنندہ بن گئی اور نگراں جج کی تعیناتی ٹرائل پر اثر انداز ہو گی، نگراں جج کی تعیناتی اور 28 جولائی کا حکم آرٹیکل 175 اور 203 کی خلاف ورزی ہے لہذا 28 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : شریف خاندان کا نیب کے سامنے پیش نہ ہونے کا فیصلہ
واضح رہے سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز سمیت ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسحاق ڈار کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی نظر ثانی درخواست 9 صفحات پر مشتمل ہے، درخواست وفاقی وزیر کے وکیل شاہد حامد اور ڈاکٹر طارق حسن نے دائر کی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : نیب کا شریف خاندان اوراسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میرے خلاف نام نہاد اعترافی بیان کا الزام لگایا گیا، درخواست گزار کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام نہیں لگایا گیا تھا، جے آئی ٹی کی رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں، اپنا تمام مالیاتی ریکارڈ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو دے چکا ہوں۔ 1983 سے 2016 تک کا مکمل انکم اور ویلتھ ٹیکس ریکارڈ فراہم کیا گیا اور ٹیکس اتھارٹیز نے میرے گوشواروں کو قبول کیا۔ بطوروزیر خزانہ اثاثوں میں 544 ملین کی کمی ہوئی جب کہ اثاثوں میں اضافہ-09 2008 میں ہوا جس کی وجہ 6 سالہ غیر ملکی آمدن تھی۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو اثاثوں کی تحقیقات کا حکم نہیں دیا تھا، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف ہمارے اعتراضات کو زیرغور نہیں لایا گیا،عدالت نے بھی مینڈیٹ سے تجاوز رپورٹ پر ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سماعت 3 ججز اور فیصلہ 5 ججز نے سنایا، جن 2 ججز نے سنا نہیں وہ فیصلے میں کیسے شامل ہو گئے جب کہ نگراں جج کے تقرر سے عدالت بظاہر شکایت کنندہ بن گئی اور نگراں جج کی تعیناتی ٹرائل پر اثر انداز ہو گی، نگراں جج کی تعیناتی اور 28 جولائی کا حکم آرٹیکل 175 اور 203 کی خلاف ورزی ہے لہذا 28 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : شریف خاندان کا نیب کے سامنے پیش نہ ہونے کا فیصلہ
واضح رہے سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز سمیت ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔