سوشلسٹ کوریا پراقتصادی پابندی
ایک سوشلسٹ کوریا ہی نہیں بلکہ دنیا بھرکے عوام اپنی خود مختاری اور خود انحصاریت کی جنگ لڑرہے ہیں
لاہور:
دنیا کا کوئی بھی ملک اقتصادی اورسیاسی طور پر اگر خود مختار رہنا چاہتا ہے تو عالمی سامراج اس کی انحصاریت کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔ آج کل دنیا کے زیادہ ترملکوں پر امریکی سامراج کا غلبہ ہے۔ اس وقت خلیجی ممالک سعودی عرب،اسرائیل، متحدہ عرب امارات،کویت، اردن اور مصر میں امریکی فوجی اڈے ہیں ۔ یورپ اور ایشیا میں اوکیناوا، جاپان، گوام اور جنوبی کوریا میں بھی امریکی فوجی اڈے ہیں۔
آج کل امریکا کی زیادہ جارحیت یوکرائن ، شام، یمن، ایران اورسوشلسٹ کوریاکے خلاف ہے۔ یوکرائن سے توکریمیا ، روس کی مدد سے الگ ہوکر رشین فیڈریشن کا حصہ بن گیا ۔ چیچنیا میں امریکی جارحیت ناکام ہوگئی ۔ شام میں بشار الاسد حکو مت کوگرانے میں امریکا کو شکست ہوئی، یمن میں امریکی جارحیت ناکام تو نہیں ہو پائی مگر شکست سے دوچار ہے۔ اب امریکی سامراج وینزویلا اور سوشلسٹ کوریا کے خلاف مسلسل سازشیں کرنے میں مصروف ہے۔
حال ہی میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا کہ ''عالمی تجربے نے ثابت کیا کہ ناجائز اورغیرمنطقی مطالبات کو منوانے کے لیے خود مختار ممالک پر دباؤ ڈالنے اور فوجی دھمکی کے استعمال کا زمانہ اب گذرگیا ۔ انھوں نے تہران میں اپنے خطاب میں کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے وینزویلا کے سلسلے میں بہت سے آپشن کی موجودگی کی بات کی ہے جن میں فوجی آپشن بھی شامل ہے۔
ایران وینزویلا کے داخلی مسائل میں امریکی صدر ٹرمپ کے اشتعال انگیز اور مداخلت پسندانہ بیانات کی مذمت کرتا ہے، بہرام قاسمی نے وینزویلا کے داخلی امور میں ہر طرح کی مداخلت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی قوانین کی بنیاد پر ہر ملک کی خود مختاری کا احترام بہت ضروری ہے'' ادھر امریکی سامراج، سوشلسٹ کوریا کے خلاف مسلسل جارحانہ بیانات دے رہا ہے، فوجی مشقیں کررہا ہے اور اس کا جنگی بحری بیڑا بھی سمندر میں لنگر انداز ہے اور شور یہ کر رہا ہے کہ سوشلسٹ کوریا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
جب 1950-53 امریکا نے کوریا میں براہ راست فوجی مداخلت کی تھی توکمیونسٹ گوریلاؤں نے دنیا بھر سے کوریا آ کر امریکی جارحیت کا مقابلہ کیا تھا اور 1953میں شمالی اور جنوبی کوریاؤں میں یہ معاہدہ طے پایا تھاکہ جنوب سے امریکی افواج اور شمال سے کمیونسٹ گوریلا واپس چلے جائیں گے ۔ اس معاہدے کے بعد دنیا بھر سے آئے ہوئے کمیونسٹ گوریلے واپس چلے گئے لیکن جنوبی کوریا میں اب بھی امریکی فوجی اڈہ موجود ہے۔
اس وقت امریکا کے پاس تیس ہزار ایٹمی وارہیڈ موجود ہیں جن کے ذریعے اتنے ہی ایٹم بموں کو پھینکا جاسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کرہ ارض کو تین سو بار تباہ کیا جاسکتا ہے جب کہ سوشلسٹ کوریا کے پاس کل نو ایٹم بم ہیں،کسی بھی ملک میں فوجی اڈہ ہے اور نہ کوئی جنگی بحری بیڑا۔ امریکا اور اس کے اتحادی شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں پہلے سے ہی لگا رکھی تھی، اب اس میں چین بھی شامل ہوگیا ہے ۔ چین نے اقوام متحدہ کی جانب سے نئی پابندی عائدکیے جانے کے بعد شمالی کوریا سے لوہے، خام لوہے اور سمندری غذا کی درآمد روک دی ہے۔ اس سے شمالی کوریا کو سالانہ ایک ارب ڈالرکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کے بعد برطانوی حزب اختلاف ( لیبر پارٹی) کے سوشلسٹ لیڈر جیمری کوربین نے حکومت پر امریکی صدرکی اندھی حمایت کا الزام عائد کرتے ہو ئے کہا کہ برطانیہ جزیرہ نما کوریا میں امریکا کے ساتھ مشترکہ جنگ میں شریک نہ ہو۔
انھوں نے مزید کہا کہ امریکا کی جنگ پسندی اورغیر مستقل مزاج حکومت کی اندھی وفاداری کے سلسلے میں کوئی سوال باقی نہیں رہ گیا اور حکومت برطانیہ کوکسی بھی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے ۔ انھوں نے یوکرائن کو بھی خبردار کیا کہ وہ اس ممکنہ جنگ میں امریکا کا ساتھ نہ دے۔ شمالی کوریا کے صدرکم جون ان نے کہا کہ ہم گوام پر حملہ نہیں کررہے ہیں بشرطیکہ امریکا جنوبی کوریا کے ساتھ ہمارے سمندرکے پاس فوجی مشقیں بندکردے ، جنوبی کوریا سے امریکی فوجی اڈہ ختم کردیا جائے تو بات چیت ہوسکتی ہے۔
فلپائن میں کیوں امریکی فوجی اڈے تھے ، ڈیگوگارشیا میں کیوں امریکی اور برطانوی فوجی اڈے ہیں ، 1962میں جنر ل سوہارتو کے ذریعے امریکی سی آئی اے نے کیوں پندرہ لاکھ کمیونسٹوں کو قتل کیا ، چلی اور افغانستان میں کیوں بائیں بازوکی حکومتوں کو سی آئی اے نے ختم کیا ۔ چلی میں بائیں بازوکی حکومت کا تختہ الٹنے کی امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ نے اعتراف بھی کیا ۔ عراق میں مداخلت پر امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں نے خود کہا کہ ہمیں غلط رپورٹنگ کی گئی تھی۔
یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ سوشلسٹ کوریا خود مختار رہنا چاہتا ہے ، وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے نہیں لیتا ، وہاں جاگیرداری اور سرمایہ داری نہیں ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مداخلت مکمل بند ہے ۔ خواندگی سو فیصد ہے ،کوئی گداگر ہے اور نہ کوئی ارب پتی،عصمت فروشی ہے اور نہ بے روزگاری ۔ یہ واحد ملک ہے جو امریکی سامراج کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتا ہے اورخود انحصاریت پر ڈٹا ہوا ہے ۔ اس لیے عالمی سامراج سوشلسٹ کوریا کے خلاف سازشیں کرکے اور الزامات لگا کر اس پرحملہ کرنا چاہتا ہے جس میں وہ اپنی خودمختاری اور خود انحصاری سے دستبردار ہوجائے ۔
ایک سوشلسٹ کوریا ہی نہیں بلکہ دنیا بھرکے عوام اپنی خود مختاری اور خود انحصاریت کی جنگ لڑرہے ہیں،کیٹا لونیا اسپین میں خود مختار ی پر دوسری بار وہاں کے عوام ریفرنڈم کروانے جارہے ہیں، کیریلا ، ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوچکی ہے ۔ امریکا کا سوشلسٹ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز تھا، یہ ساری تبدیلیاں عالمی سامراج کو للکار رہی ہیں ۔ جہاں طبقات ہوں گے وہاں استحصال بھی ہوگا اور استحصال کے خلاف طبقاتی لڑائی بھی ہوگی۔ کم ال سنگ کا یہ نعرہ درست ثابت ہورہا ہے کہsocialism will not be crushed یعنی سوشلزم کوتباہ نہیں کیا جا سکتا ۔