اسلامی تہذیب کی خصوصیات
اسلامی تہذیب پانچ بنیادی عقائد پر مبنی ہے جو اجزائے ایمان بھی کہلاتے ہیں۔
تہذیب کے معنی اصلاح و ہدایت کے ہیں ۔ تہذیب کا مفہوم اصلاح کرنا ، عیوب سے پاک کرنا، بہتر بنانا، درست کرنا ، تعلیم وتربیت دینا اورخوش اخلاق بنانا ہے۔ ہر باشعور انسان کا عمل کسی نہ کسی سوچ یا نظریے کے تابع ہوتا ہے ۔ ہوش مند انسان کا عمل سوچنے کی بنیاد پر ہے جب کہ حواس باختہ انسان کا ذہن سوچنے سمجھنے سے عاری ہوتا ہے ۔ اس لیے اس کا ہر عمل غلط اور بے مقصد ہوتا ہے ۔جب ہم تہذیب کے معنی اصلاح اور درستگی کے لیتے ہیں تو یہ اصلاح اور درستگی کسی نہ کسی سوچ اور فکرکا نتیجہ ہوتی ہے ۔
اس تناظر میں تہذیب کسی سوچ اور نظریے کا نام ہے ۔ جس کے زیر اثرکوئی اصلاح ظہور پذیر ہوتی ہے ۔ اس طرح درست اور غلط ( سوچ یا نظریہ ) عملی شکل میں ظاہر ہو جاتی ہے اور انھی عقائد و نظریے کے زیر اثر کسی معاشرے میں عملی زندگی کے تمام عناصر پروان چڑھتے ہیں ۔ اس لیے کسی قوم کی تہذیب کو پرکھنے کے لیے اس قوم کے نظریات و عقائد پرکھے جاتے ہیں ۔اس ضمن میں عوامل وہ قوتیں اور تحریکیں ہیں جو اپنے ماننے والوں کے فکر و عمل کی راہیں متعین کرتے ہوئے انھیں اپنے مخصوص راستے پرگامزن کردیتی ہے ۔
اسلامی تہذیب پانچ بنیادی عقائد پر مبنی ہے جو اجزائے ایمان بھی کہلاتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی اور اصولی تعلیم ہے جو ہر زمانے کے نبی اپنے پیرو کاروں کو دیتے رہے ہیں ۔ اسلامی عقائد میں ایک خدا کو ماننا ، اس کے فرشتوں اور رسولوں ، آسمانی کتابوں اور آخرت کی زندگی پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ اسلامی زندگی میں جوکام بھی بطور فرائض ( حکم ربی ، ہدایت رسول ﷺ) کیے جاتے ہیں وہ سب اسلامی تہذیب کے عنصر ہیں ۔ لہٰذ ا دین اسلام پر ایمان لانے والے شخص کی فکر اسلامی تعلیمات کے تابع ہوتی ہے اور یہی نظریات اس کی عملی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اسلامی تہذیب کی بنیادی اور اہم خصوصیات درج ذیل ہیں جو اسلامی معاشرے میں روح کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
( الف ) ایک خالق کی عبادت اسلامی ذہن کی پہلی خصوصیت ہے ۔ یہ عقیدہ انسان میں جرات اور شجاع پیدا کرتا ہے ۔ ایک خدا کی عبادت کرنے والا ماسوائے اللہ کے کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کو شریک خدا کرتا ہے۔ اس کا یقین اور بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر نتیجہ خدا پر چھوڑتا ہے ۔کبھی مایوس نہیں ہوتا خواہ بظاہر ناکام ہی کیوں نہ ہوجائے ہمیشہ اللہ کی رضا پر مشکور رہتا ہے ۔
( ب) مسلمان کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیائے کرام دنیا میں اللہ نے بھیجے سب ایک خدا کی عبادت کی تعلیم دیتے رہے ۔ تمام انبیائے کرام ایک ہی مقصد اور ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں تھیں ۔ اگرچہ زمانے کی ضرورتوں کے لحاظ سے انبیائے کرام کی شریعتوں ( قوانین زندگی ) میں فرق تھا مگر بنیادی تعلیم سب کی ایک تھی ۔ مسلمان کسی نبی کو جھٹلانا کفر سمجھتا ہے ۔ تمام انبیائے کرام کی عزت و تکریم اسلامی معاشرے کی خصوصیت ہے ۔
( ج) قرآن کی روشنی میں مسلمان کا ایمان ہے کہ اسلام ہی کو دین کا درجہ حاصل ہے ۔ ملاحظہ ہو سورہ ٔ آل عمران آیت 19اور 85۔ اس عقیدے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے انبیائے کرام کے پیروکاروں نے اسلام کے نئے نام رکھ لیے ۔ جس میں دیگر مذاہب کے ناموں کا ذکر آتا ہے ۔
( د) مسلمان کے نزدیک دنیاوی زندگی محض امتحان اور آزمائش ہے اور انسان دنیا میں ایک مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے ۔ مسلمان اللہ کی ہدایت پر چلتے ہوئے ہر نقصان اور تکلیف کو اس لیے برداشت کرتا ہے تاکہ امتحان میں کامیابی ہو اور آخرت کی زندگی میں نتیجتاً راحتیں ملیں ۔ آخرت کی زندگی ابدی ہے جب کہ دنیا فانی ہے ۔ اس لیے ایک مسلمان ناکامیوں پر مایوس نہیں ہوتا بلکہ تکالیف میں بھی سکون قلب محسوس کرتا ہے ۔
( ہ) اللہ نے قرآن مجید میں تکمیل دین و رسالت ﷺ کا اعلان فرمایا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ آیت 3اور سورۂ احزاب آیت 40) ۔ چونکہ پہلے انبیائے کرام کی تعلیمات اور کتب الٰہیہ میں ان کے پیرو کاروں نے تحریف کردی ہے لہٰذا وہ ناقابل عمل ہو گئیں۔ قرآن حکیم کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تبارک تعالیٰ نے اٹھا رکھا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورۂ حجر آیت 9) ۔ قرآن میں اللہ کی اطاعت کے لیے اس کے رسولﷺ کی اطاعت اختیار کرنے کا حکم ہے یعنی حضرت محمدﷺ کی اتباع کی ہدایت ہے ۔ اس لیے مسلمان اپنی زندگی کے ہر شعبے میں رسول محمدﷺ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور سیرت النبیﷺ کو اسوۂ حسنہ ( بہترین عملی نمونہ ) سمجھتے ہیں ۔ سیرت النبیﷺ اسلامی تہذیب کی اہم ترین خصوصیت ہے ۔
( و) اسلامی تہذیب کی عالمگیر اخوت مسلم معاشرے کو عالمگیر وسعت بخشتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک برادری میں منسلک کردیا ہے ۔ قرآن مجید کی سورۂ حجرات کی دسویں آیت میں ارشاد ربانی ہے ، ترجمہ ( مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں ) ۔ اس لیے مسلمان ایک دوسرے کے غم و خوشی کو اپنا سمجھتے ہیں ۔ اس ضمن میں حج عالمگیر اخوت کا عملی مظاہرہ ہے ۔
( ز) دین اسلام ایک مسلمان کو مسلمان سے نیک سلوک کرنے کے حکم کے ساتھ اسے احترام انسانیت کی تہذیب بھی سکھاتا ہے کہ کسی انسان پر ظلم نہ کیا جائے ، بھوک سے نڈھال غیر مسلم کو کھانا کھلائے، اگر وہ بیمار ہوتو ایک مسلمان معالج اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کرے ، اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہے تو اسے نجات دلانے کی کوشش کرے ۔ دین اسلام کی تبلیغ صرف سمجھانے تک محدود ہے ۔ کسی سے زبردستی کا حکم نہیں ہے ۔ ہر اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کریں ۔ ان کے جان و مال کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے ۔ دین اسلام یہ ہے کہ ایک غیر مسلم جب ایک مسلمان سے ملتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ واقعتا ایک ایسے ہمہ صفت انسان سے ملا ہے جو ہر لحاظ سے قابل اعتماد ہے اور اس کی ہمسائیگی اور ہمراہی باعث اطمینان ہے ۔
اس تناظر میں تہذیب کسی سوچ اور نظریے کا نام ہے ۔ جس کے زیر اثرکوئی اصلاح ظہور پذیر ہوتی ہے ۔ اس طرح درست اور غلط ( سوچ یا نظریہ ) عملی شکل میں ظاہر ہو جاتی ہے اور انھی عقائد و نظریے کے زیر اثر کسی معاشرے میں عملی زندگی کے تمام عناصر پروان چڑھتے ہیں ۔ اس لیے کسی قوم کی تہذیب کو پرکھنے کے لیے اس قوم کے نظریات و عقائد پرکھے جاتے ہیں ۔اس ضمن میں عوامل وہ قوتیں اور تحریکیں ہیں جو اپنے ماننے والوں کے فکر و عمل کی راہیں متعین کرتے ہوئے انھیں اپنے مخصوص راستے پرگامزن کردیتی ہے ۔
اسلامی تہذیب پانچ بنیادی عقائد پر مبنی ہے جو اجزائے ایمان بھی کہلاتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی اور اصولی تعلیم ہے جو ہر زمانے کے نبی اپنے پیرو کاروں کو دیتے رہے ہیں ۔ اسلامی عقائد میں ایک خدا کو ماننا ، اس کے فرشتوں اور رسولوں ، آسمانی کتابوں اور آخرت کی زندگی پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ اسلامی زندگی میں جوکام بھی بطور فرائض ( حکم ربی ، ہدایت رسول ﷺ) کیے جاتے ہیں وہ سب اسلامی تہذیب کے عنصر ہیں ۔ لہٰذ ا دین اسلام پر ایمان لانے والے شخص کی فکر اسلامی تعلیمات کے تابع ہوتی ہے اور یہی نظریات اس کی عملی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اسلامی تہذیب کی بنیادی اور اہم خصوصیات درج ذیل ہیں جو اسلامی معاشرے میں روح کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
( الف ) ایک خالق کی عبادت اسلامی ذہن کی پہلی خصوصیت ہے ۔ یہ عقیدہ انسان میں جرات اور شجاع پیدا کرتا ہے ۔ ایک خدا کی عبادت کرنے والا ماسوائے اللہ کے کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کو شریک خدا کرتا ہے۔ اس کا یقین اور بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر نتیجہ خدا پر چھوڑتا ہے ۔کبھی مایوس نہیں ہوتا خواہ بظاہر ناکام ہی کیوں نہ ہوجائے ہمیشہ اللہ کی رضا پر مشکور رہتا ہے ۔
( ب) مسلمان کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیائے کرام دنیا میں اللہ نے بھیجے سب ایک خدا کی عبادت کی تعلیم دیتے رہے ۔ تمام انبیائے کرام ایک ہی مقصد اور ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں تھیں ۔ اگرچہ زمانے کی ضرورتوں کے لحاظ سے انبیائے کرام کی شریعتوں ( قوانین زندگی ) میں فرق تھا مگر بنیادی تعلیم سب کی ایک تھی ۔ مسلمان کسی نبی کو جھٹلانا کفر سمجھتا ہے ۔ تمام انبیائے کرام کی عزت و تکریم اسلامی معاشرے کی خصوصیت ہے ۔
( ج) قرآن کی روشنی میں مسلمان کا ایمان ہے کہ اسلام ہی کو دین کا درجہ حاصل ہے ۔ ملاحظہ ہو سورہ ٔ آل عمران آیت 19اور 85۔ اس عقیدے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے انبیائے کرام کے پیروکاروں نے اسلام کے نئے نام رکھ لیے ۔ جس میں دیگر مذاہب کے ناموں کا ذکر آتا ہے ۔
( د) مسلمان کے نزدیک دنیاوی زندگی محض امتحان اور آزمائش ہے اور انسان دنیا میں ایک مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے ۔ مسلمان اللہ کی ہدایت پر چلتے ہوئے ہر نقصان اور تکلیف کو اس لیے برداشت کرتا ہے تاکہ امتحان میں کامیابی ہو اور آخرت کی زندگی میں نتیجتاً راحتیں ملیں ۔ آخرت کی زندگی ابدی ہے جب کہ دنیا فانی ہے ۔ اس لیے ایک مسلمان ناکامیوں پر مایوس نہیں ہوتا بلکہ تکالیف میں بھی سکون قلب محسوس کرتا ہے ۔
( ہ) اللہ نے قرآن مجید میں تکمیل دین و رسالت ﷺ کا اعلان فرمایا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ آیت 3اور سورۂ احزاب آیت 40) ۔ چونکہ پہلے انبیائے کرام کی تعلیمات اور کتب الٰہیہ میں ان کے پیرو کاروں نے تحریف کردی ہے لہٰذا وہ ناقابل عمل ہو گئیں۔ قرآن حکیم کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تبارک تعالیٰ نے اٹھا رکھا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورۂ حجر آیت 9) ۔ قرآن میں اللہ کی اطاعت کے لیے اس کے رسولﷺ کی اطاعت اختیار کرنے کا حکم ہے یعنی حضرت محمدﷺ کی اتباع کی ہدایت ہے ۔ اس لیے مسلمان اپنی زندگی کے ہر شعبے میں رسول محمدﷺ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور سیرت النبیﷺ کو اسوۂ حسنہ ( بہترین عملی نمونہ ) سمجھتے ہیں ۔ سیرت النبیﷺ اسلامی تہذیب کی اہم ترین خصوصیت ہے ۔
( و) اسلامی تہذیب کی عالمگیر اخوت مسلم معاشرے کو عالمگیر وسعت بخشتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک برادری میں منسلک کردیا ہے ۔ قرآن مجید کی سورۂ حجرات کی دسویں آیت میں ارشاد ربانی ہے ، ترجمہ ( مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں ) ۔ اس لیے مسلمان ایک دوسرے کے غم و خوشی کو اپنا سمجھتے ہیں ۔ اس ضمن میں حج عالمگیر اخوت کا عملی مظاہرہ ہے ۔
( ز) دین اسلام ایک مسلمان کو مسلمان سے نیک سلوک کرنے کے حکم کے ساتھ اسے احترام انسانیت کی تہذیب بھی سکھاتا ہے کہ کسی انسان پر ظلم نہ کیا جائے ، بھوک سے نڈھال غیر مسلم کو کھانا کھلائے، اگر وہ بیمار ہوتو ایک مسلمان معالج اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کرے ، اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہے تو اسے نجات دلانے کی کوشش کرے ۔ دین اسلام کی تبلیغ صرف سمجھانے تک محدود ہے ۔ کسی سے زبردستی کا حکم نہیں ہے ۔ ہر اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کریں ۔ ان کے جان و مال کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے ۔ دین اسلام یہ ہے کہ ایک غیر مسلم جب ایک مسلمان سے ملتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ واقعتا ایک ایسے ہمہ صفت انسان سے ملا ہے جو ہر لحاظ سے قابل اعتماد ہے اور اس کی ہمسائیگی اور ہمراہی باعث اطمینان ہے ۔