رہنما کیسا ہو
ایک اچھے رہنما کی پہچان قرآٓن میں علم وجسم کی بنیاد پر رکھی ہے یعنی تم میں علم سے زیادہ اور جسم سے مراد قوی بہادر ہو
غلامی دو قسم کی ہوتی ہے ایک جسمانی غلامی جس میں انسان ، انسان کا اطاعت گزار خادم وغلام بن جاتا ہے۔ اسلام نے اس غلامی کاانداز بدل دیا یعنی اس غلام کو بھی انسان کے بنیادی حقوق کا حقدار بنا دیا ۔اب اس جسمانی غلامی کا اثر بالکل ناپید ہوگیا ہے۔ دوسری غلامی جو اس سے بھی بدتر ہے وہ ہے ذہنی غلامی جو آج کل تقریباً ہر جگہ نظر آتی ہے اس ذہنی غلامی کا آغاز اس زمانے سے جب سے فرعونیت ہے نمرودیت ہے۔
آج بھی ہم جن شخصیت کہ ذہنی غلام بنے ہوئے ہیں ، ان میں حقیقی انسانیت کا عنصرکم اور ذہنی فرعونیت اور نمرودیت کا اثر زیادہ ہے۔ جوکسی بادشاہوں کی صورت میں توکہیں آمروں کی صورت میں خاص طور پر مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اور ان ملکوں کی رعایا ان کی اطاعت گزار بن چکی ہے ۔
حالانکہ اسلام اور دین وشریعت وفقہ کی روشنی میں اطاعت صرف اس کی ہوگی جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ۔(ترجمہ) اللہ کی اطاعت اس کے رسول کی اطاعت اور بعد از رسولؐ جن کو اللہ نے قرار دیا، اگر آج بھی ہم اللہ کے حکم کے مطابق اطاعت کا فلسفہ سمجھ لیں اور اس پر من وعن عمل کریں تو ہم ذہنی طور پر غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوسکتے ہیں۔ اللہ نے جن کی اطاعت کا حکم دیا وہی دراصل امین بھی ہے صادق بھی۔ (ترجمہ) اللہ کا تقویٰ اختیارکرو اور صادیقین کے ساتھ ہوجاؤ ، مگر ہم نے اپنے ہی جیسے گنہگار انسان کی اطاعت یعنی ذہنی غلامی شروع کردی اور ہم شخصیت پسند ہو گئے ۔اس کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ ہم نے ان گنہگاروں کو صادق امین سمجھ لیا حالانکہ یہ حقیقت کے برعکس ہے۔
اسی وجہ سے جب ان شخصیتوں کے منفی پہلو ان کے منفی اعمال ان کی سیاہ کاریاں اوران کے ثبوت ہمارے سامنے لائے جاتے ہیں تو ہم ان سیاہ کرتوتوں کو ماننے سے انکارکر دیتے ہیں ۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ہم شخصیت پسند ہوجاتے ہیں اور ان شخصیتوں کے سحر میں قید ہوجاتے ہیں اور نتیجے میں پوری قوم اچھے باکردار اصول پسند رہنماؤں سے محروم ہو جاتی ہے۔ جس کا خمیازہ پوری انسانیت کو بھگتنا پڑتا ہے، اگر آج کے ایک ارب سے زائد مسلمان اللہ اور اس کے رسولؐ اور مثل رسولؐ کی سیرت وکردار کی اطاعت کو اپنا ایمان بنالیں جو عین حکم الہی ہے تو اپنا رہنما منتخب کرتے وقت اس میں انسانیت، مسلمانیت، ایمانیت، علم وعمل کی تلاش کریں گے۔جو جتنا اچھا اطاعت گزار اللہ و رسولؐ ہوگا وہ اتنا ہی صاحب ایمان اورمتقی اور صاحب علم ہوگا۔
ایک اچھے رہنما کی پہچان قرآٓن میں علم وجسم کی بنیاد پر رکھی ہے یعنی تم میں علم سے زیادہ ہو اور جسم سے مراد قوی بہادر شجاع ہو، اگر ہم دنیا میں اپنے ایمان وعمل سے یہ ثابت کردیں کہ ہم صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے علاوہ کسی کی اطاعت نہیں کریں گے۔
سوائے اس کے کہ ہم اپنے رہنماؤں کی ان کے اچھے کردار، باا صول شخصیت کا احترام کریں گے۔ انھیں عزت اور وقار دیں گے اگر ان میں بد نمائی نظر آئی، بے اصولی نظر آئی، قول و فعل میں تضاد نظر آیا،ان میں کوئی بد عنوانی نظر آئی تو ہم پر فرض ہے کہ ہم ان سے کنارہ کش ہوجائیں، اگر ہم نے زندگی میں اللہ کے بتائے ہوئے سنہری اصولوں کو اپنا لیا تو ہم میں ایک قومی کردار پیدا ہوگا اور ملت کا ہر فرد بدعنوانی، بے اصولی ، بے غیرتی، بے ایمانی کرنے والے افراد سے نفرت کرے گا اور اس طرح ہماری سیاسی رہنمائی کرنے والے کو پہلے خود کو باکردار، باوقار ، وفا شعار، ایماندار،اصول پسند بنانا ہوگا پھر رہنمائی کے انتخابی میدان میں آنا ہوگا۔
ہمیں شخصیت پسندی کے سحر سے خود کو آزاد کرنا ہوگا ورنہ ہم نہ ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں نہ با اصول با کردار قوم ۔آپ دیکھ رہے ہیں آج پاکستان کو آزاد ہوئے ستر سال گزرگئے ہماری کوئی ترقی کی سمت مقرر نہیں ہوئی۔ ہم نے ان کو اچھا باکردار رہنما تسلیم کرلیا جو ذرایع ابلاغ کے ذریعے جھوٹی ململ سازی کے ساتھ پیش کیے گئے اور سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے ہم جانتے ہیں کہ ان کی شہرت یہ ہے کہ یہ اقتدار میں ملک اور قوم کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ عوام سے لیے گئے اختیارکو مس یوز کرنے کے لیے آتے ہیں۔
ان کی مال و زر میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ اپنی آل و اولاد کو ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں، تاکہ وہاں پر عیش کی زندگی گزاریں ۔یہ ملکی معاملات میں کمیشن لیتے ہیں جو انھیں بیرون ملک مل جاتا ہے۔ یہ عوام کو ملازمتیں بھی رقم کے عوض دیتے ہیں۔ ان کے زمانے میں بننے والے میگا پروجیکٹ اپنی محدود مدت میں کبھی مکمل نہیں ہوتے یا پھر آگے جا کر ختم ہو جاتے ہیں ۔ایسے بد کردار رہنماؤں کی موجودگی میں عوام کوکوئی سہولت نہیں ملتی۔
کراچی کی مثال سامنے ہے جوکبھی صاف وشفاف، بارونق روشنیوں کا شہر جہاں صنعت کاری کا جال بچھا ہوتا تھا، پورے پاکستان کے لوگ یہاں آکر روزی اور روزگار حاصل کرتے تھے۔ آج اس شہر میں وزیراعلیٰ بھی ہیں، وزیروں کی کابینہ بھی، شیروں کا جھرمٹ بھی ، بلدیہ کا مئیر بھی ہے چیئرمینوں کی بھرمارکونسلروں کا بازار بھی ۔ یہ سب عوام کے پیسوں سے معاوضہ بھی مراعات بھی شاہانہ اخراجات بھی لیتے ہیں مگر شہر کا حال یہ ہے ہر طرف کوڑے کے ڈھیر ہیں۔ خستہ حال سڑکیں، ابلتے ہوئے گٹر، اجڑے ہوئے کھیل کے میدان، سوکھے ہوئے پارکس۔
ہم سب ان حالات کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں مگر اپنی سوچ کو بدلنے کو تیار نہیں ہوتے جب تک ملت اپنے ووٹ کی اہمیت کو نہ سمجھے گی قوم پر بدعنوان حاکم آتے رہیں گے اور ہم اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے رہیںگے۔ وقت آگیا ہے ہر شہری کمربستہ ہوجائے اور آیندہ ان کو ووٹ دے جن کے اچھے کارنامے ہوں اور باکردار با اصول ہوں۔