مرحوم ڈکٹیٹر نے اداروں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا سپریم کورٹ
محض تقریروں سے معاشرے میں تبدیلی نہیں آسکتی، ملکی اداروں کے ذمے داری لینے تک عدم برداشت بڑھتی رہے گی، جسٹس دوست محمد
سپریم کورٹ نے توہین رسالت کے مقدمے میں ملزم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ ایک سابق ڈکٹیٹر نے ملک کے تمام اداروں کو انتہاپسندی کی طرف دھکیلا۔
جسٹس دوست محمد نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک سابق مرحوم ڈکٹیٹرنے ملک کے تمام اداروں کو انتہاپسندی کی طرف دھکیلا جس کی وجہ سے لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں، سابق ڈکٹیٹر نے معاشرے میں عدم برداشت کو تقویت دی اور اب ہر سنی سنائی بات پر لوگ خود ہی درخواست گزار، خود ہی استغاثہ اورخودہی جج بن جاتے ہیں، حال ہی میں خانیوال میں ایسا ایک واقعہ پیش آیا، اس سے قبل یونیورسٹی میں واقعہ پیش آیا، اس طرح کے واقعات کا پیش آنا ریاستی اداروں کی کمزوری ہے۔ پولیس کے ایک سپاہی کو تھپڑ لگ جائے تو پورا گاؤں گرفتارکرلیا جاتاہے لیکن ایسے واقعات میں قانون کی عملداری نہیں ہوتی۔
سپریم کورٹ نے کہاکہ آج اخبار میں ایک تصویر تھی کہ ایک پک اپ پر 25،30 بچے لٹک رہے ہیں لیکن ٹرانسپورٹ مافیا کے خلاف ایکشن کون لے؟ فاضل بینچ نے گاڑی کی حوالگی کے مقدمے میں آبزرویشن دی ہے کہ جب تک قانون کی عمل داری یقینی نہیں بنائی جائے گی ملک میں مقدمے بازی بڑھتی جائے گی، بار اور بینچ کو ملکر اپناکردار ادا کرنا ہو گا، ہم عدالتوں سے غیر ضروری بوجھ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم بعض وکلا اپنا کام چلانے کیلیے غیرضروری طورپر عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔
جسٹس دوست محمد اور جسٹس طارق مسعود پر مشتمل بینچ نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ملزم مروت حسین کو ایک لاکھ کے مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا۔ ملزم کے وکیل ذوالفقار نقوی نے دلائل دیے کہ چند لوگ ایک جگہ پر غسل کے طریقہ کارپر بات کررہے تھے، اس دوران ایک شخص نے پولیس کو اطلاع دی اورسیکشن298 اے کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا تاہم ایف آئی آر میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہو، سیشن عدالت اور ہائیکورٹ نے ضمانت خارج کردی تھی اور وہ ساڑھے10ماہ سے جیل میں ہے۔
عدالت نے منشیات اسمگلنگ کے ایک ملزم عبدالعزیز کی درخواست ضمانت مستردکردی۔ سپریم کورٹ نے پشاور میں خاتون کو قتل کرنے والے2ملزمان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ استغاثہ کے کیس میں کوئی ٹھوس چیز نظر نہیں آتی، الزامات کی مزید تفتیش کی ضرورت ہے ، بغیر ثبوت کے کسی کی آزادی کو سلب نہیں کیا جاسکتا، اگر کوئی شخص 4 سال تک بے گناہ جیل میں پڑا رہے گا تو اس کے بچوں کا کیا بنے گا۔
جسٹس دوست محمد نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک سابق مرحوم ڈکٹیٹرنے ملک کے تمام اداروں کو انتہاپسندی کی طرف دھکیلا جس کی وجہ سے لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں، سابق ڈکٹیٹر نے معاشرے میں عدم برداشت کو تقویت دی اور اب ہر سنی سنائی بات پر لوگ خود ہی درخواست گزار، خود ہی استغاثہ اورخودہی جج بن جاتے ہیں، حال ہی میں خانیوال میں ایسا ایک واقعہ پیش آیا، اس سے قبل یونیورسٹی میں واقعہ پیش آیا، اس طرح کے واقعات کا پیش آنا ریاستی اداروں کی کمزوری ہے۔ پولیس کے ایک سپاہی کو تھپڑ لگ جائے تو پورا گاؤں گرفتارکرلیا جاتاہے لیکن ایسے واقعات میں قانون کی عملداری نہیں ہوتی۔
سپریم کورٹ نے کہاکہ آج اخبار میں ایک تصویر تھی کہ ایک پک اپ پر 25،30 بچے لٹک رہے ہیں لیکن ٹرانسپورٹ مافیا کے خلاف ایکشن کون لے؟ فاضل بینچ نے گاڑی کی حوالگی کے مقدمے میں آبزرویشن دی ہے کہ جب تک قانون کی عمل داری یقینی نہیں بنائی جائے گی ملک میں مقدمے بازی بڑھتی جائے گی، بار اور بینچ کو ملکر اپناکردار ادا کرنا ہو گا، ہم عدالتوں سے غیر ضروری بوجھ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم بعض وکلا اپنا کام چلانے کیلیے غیرضروری طورپر عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔
جسٹس دوست محمد اور جسٹس طارق مسعود پر مشتمل بینچ نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ملزم مروت حسین کو ایک لاکھ کے مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا۔ ملزم کے وکیل ذوالفقار نقوی نے دلائل دیے کہ چند لوگ ایک جگہ پر غسل کے طریقہ کارپر بات کررہے تھے، اس دوران ایک شخص نے پولیس کو اطلاع دی اورسیکشن298 اے کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا تاہم ایف آئی آر میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہو، سیشن عدالت اور ہائیکورٹ نے ضمانت خارج کردی تھی اور وہ ساڑھے10ماہ سے جیل میں ہے۔
عدالت نے منشیات اسمگلنگ کے ایک ملزم عبدالعزیز کی درخواست ضمانت مستردکردی۔ سپریم کورٹ نے پشاور میں خاتون کو قتل کرنے والے2ملزمان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ استغاثہ کے کیس میں کوئی ٹھوس چیز نظر نہیں آتی، الزامات کی مزید تفتیش کی ضرورت ہے ، بغیر ثبوت کے کسی کی آزادی کو سلب نہیں کیا جاسکتا، اگر کوئی شخص 4 سال تک بے گناہ جیل میں پڑا رہے گا تو اس کے بچوں کا کیا بنے گا۔