آرمی چیف سے ایساف کمانڈر کی ملاقات
افغانستان کی سرحد سے شرانگیزانہ حملوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو حالات کوئی بھی صورت اختیار کر سکتے ہیں
ایساف کمانڈر جنرل ایلن نے جمعرات کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات باہمی اعتماد اور شفافیت پر مبنی ہونے چاہئیں، ملاقات سے پاک فوج اور نیٹو فورسز کے درمیان اسٹرٹیجک اور آپریشنل آگاہی بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ایساف کمانڈر جنرل ایلن نے کہا کہ ہم پائیدار اور اسٹرٹیجک شراکت داری کے فروغ کی جانب نمایاں پیش رفت کر رہے ہیں۔
جس سے خطہ میں سلامتی کی صورتحال اور خوشحالی میں اضافہ ہو گا۔ انھوں نے پاک امریکا تعلقات میں حالیہ پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے۔ آرمی چیف اور ایساف کمانڈر کے مابین ہونے والی اس ملاقات میں متعدد معاملات پر ہم آہنگی کا اظہار خوش آیند ہونے کے علاوہ اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ پاکستان کے امریکا' نیٹو اور ایساف کے ساتھ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔
اس ہم آہنگی سے ظاہر ہے آگے بڑھنے میں مدد ملے گی اور پاک افغان سرحد پر حالات کو قابو میں رکھنے کا ماحول پیدا ہو گا۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق یہ ملاقات افغانستان کے تناظر میں سہ فریقی رابطوں کے سلسلہ میں ہوئی اور اس میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں اور خطے میں سلامتی کی صورتحال پر بات چیت ہوئی، مذاکرات پاک افغان بارڈر پر سیکیورٹی کی صورتحال بہتر کرنے اور پاکستان، افغانستان اور نیٹو فورسز کے مابین تعاون کے معاملے پر مرکوز رہے۔
ملاقات کے دوران جنرل کیانی نے پاکستانی علاقوں پر حملوں کا معاملہ اٹھایا اور زور دیا کہ ایساف فورسز پاکستانی حدود میں حملے روکنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان پر افغانستان سے ہونے والے حملے ان علاقوں سے ہو رہے ہیں جو نیٹو فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان امریکا' افغان انتظامیہ اور نیٹو کے ساتھ اس معاملے پر کھل کر بات کرے جس کا آغاز آرمی چیف نے ایساف کمانڈر کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقات میں کر دیا ہے۔
امریکی اور افغان انتظامیہ پر یہ واضح کیا جانا چاہیے کہ اگر افغانستان کی سرحد سے شرانگیزانہ حملوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو حالات کوئی بھی صورت اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ کوئی غلط فہمی صورتحال کو 'پوائنٹ آف نو ریٹرن' تک پہنچا دے گی۔ اب جب کہ پاکستان نے افغانستان میں نیٹو فورسز کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے سپلائی کی بحالی کے حوالے سے باقاعدہ ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں تو ضروری ہے کہ امریکا و نیٹو بھی افغانستان میں پاکستان مخالف گروہوں کے قلع قمع کے لیے اقدامات عمل میں لائے کیونکہ ان کے حملوں کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کی توجہ بٹ رہی ہے۔
یہ حملے اگر افغانستان کے ان علاقوں سے ہوتے جو نیٹو کے زیر کنٹرول نہیں ہیں تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہاں کی انتہا پسند قوتیں دونوں ملکوں میں کوئی بڑی غلط فہمی پیدا کر کے حالات کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن اگر یہ حملے نیٹو کے زیر کنٹرول علاقوں سے ہو رہے ہیں جیسا کہ وزیر داخلہ رحمان ملک نے قرار دیا ہے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہے ہیں۔ بہرحال ان تمام خدشات کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ توقع کی جاتی ہے کہ آرمی چیف اور ایساف کمانڈر کے مابین ہونے والی ملاقات میں یہ ایشو اٹھانے کے بعد اس صورتحال میں مناسب بہتری پیدا ہو گی۔
جس سے خطہ میں سلامتی کی صورتحال اور خوشحالی میں اضافہ ہو گا۔ انھوں نے پاک امریکا تعلقات میں حالیہ پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے۔ آرمی چیف اور ایساف کمانڈر کے مابین ہونے والی اس ملاقات میں متعدد معاملات پر ہم آہنگی کا اظہار خوش آیند ہونے کے علاوہ اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ پاکستان کے امریکا' نیٹو اور ایساف کے ساتھ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔
اس ہم آہنگی سے ظاہر ہے آگے بڑھنے میں مدد ملے گی اور پاک افغان سرحد پر حالات کو قابو میں رکھنے کا ماحول پیدا ہو گا۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق یہ ملاقات افغانستان کے تناظر میں سہ فریقی رابطوں کے سلسلہ میں ہوئی اور اس میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں اور خطے میں سلامتی کی صورتحال پر بات چیت ہوئی، مذاکرات پاک افغان بارڈر پر سیکیورٹی کی صورتحال بہتر کرنے اور پاکستان، افغانستان اور نیٹو فورسز کے مابین تعاون کے معاملے پر مرکوز رہے۔
ملاقات کے دوران جنرل کیانی نے پاکستانی علاقوں پر حملوں کا معاملہ اٹھایا اور زور دیا کہ ایساف فورسز پاکستانی حدود میں حملے روکنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان پر افغانستان سے ہونے والے حملے ان علاقوں سے ہو رہے ہیں جو نیٹو فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان امریکا' افغان انتظامیہ اور نیٹو کے ساتھ اس معاملے پر کھل کر بات کرے جس کا آغاز آرمی چیف نے ایساف کمانڈر کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقات میں کر دیا ہے۔
امریکی اور افغان انتظامیہ پر یہ واضح کیا جانا چاہیے کہ اگر افغانستان کی سرحد سے شرانگیزانہ حملوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو حالات کوئی بھی صورت اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ کوئی غلط فہمی صورتحال کو 'پوائنٹ آف نو ریٹرن' تک پہنچا دے گی۔ اب جب کہ پاکستان نے افغانستان میں نیٹو فورسز کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے سپلائی کی بحالی کے حوالے سے باقاعدہ ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں تو ضروری ہے کہ امریکا و نیٹو بھی افغانستان میں پاکستان مخالف گروہوں کے قلع قمع کے لیے اقدامات عمل میں لائے کیونکہ ان کے حملوں کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کی توجہ بٹ رہی ہے۔
یہ حملے اگر افغانستان کے ان علاقوں سے ہوتے جو نیٹو کے زیر کنٹرول نہیں ہیں تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہاں کی انتہا پسند قوتیں دونوں ملکوں میں کوئی بڑی غلط فہمی پیدا کر کے حالات کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن اگر یہ حملے نیٹو کے زیر کنٹرول علاقوں سے ہو رہے ہیں جیسا کہ وزیر داخلہ رحمان ملک نے قرار دیا ہے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہے ہیں۔ بہرحال ان تمام خدشات کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ توقع کی جاتی ہے کہ آرمی چیف اور ایساف کمانڈر کے مابین ہونے والی ملاقات میں یہ ایشو اٹھانے کے بعد اس صورتحال میں مناسب بہتری پیدا ہو گی۔