ملک اداروں سے کہیں زیادہ اہم اور مقّدس ہے

ہر ادارے میں اصلاحِ احوال کی بڑی گنجائش ہے سیاسی حکومت کو فرسودہ عدالتی نظام کی اصلاح کرنی چاہیے تھی جو وہ نہیں کرسکی۔


[email protected]

اداروں کی اناریاست سے بڑی ہو جائے تو ریاست ان کے بوجھ تلے پِس جاتی ہے۔ ہدف، اگر اپنے اپنے ادارے کی برتری قائم کرنا اور دوسروں کو نیچا دکھانا ہی رہا تو ملک کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، اگر بڑوں نے اپنے اپنے ادارے کو قبیلہ سمجھ کر قبائلی عصبیّت کی چادر اوڑھ لی اور اسی عصبیّت کی عینک سے دیکھنا بند نہ کیا تو ہم خدانخواستہ پھرکسی بڑے حادثے کا شکار ہوجائیں گے۔

عدالت عظمیٰ ہو یا جی ایچ کیو،رائے ونڈ ہو یا بنی گالا ، ان تمام مراکز کے مکین قائدؒ کے پاکستان کے وارث اور محافظ ہیں۔ اُن پر لازم ہے کہ وہ کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے وطنِ عزیز کے سبز ہلالی پرچم کو ضرور دیکھا کریں اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے قائدؒکی تصویر پر ہی نظر ڈال لیا کریں اور یہ سوچا کریں کہ میرے اس اقدام کا پاکستان کے مستقبل پر کیا اثر پڑیگا اور اگر قائدؒ زندہ ہوتے تو اس اقدام کے بارے میں اُنکا ردّ ِعمل کیا ہوتا!

لقمہء تَر کی ہَوس میں مبتلا چند چرب زبانوں کو نظر انداز کردیں ورنہ پوری قوم کسی فرد یا ادارے کی بالادستی نہیں، صرف آئین اور قانون کی بالادستی چاہتی ہے عوام سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ ، عدلیہ اور فوج سب قابلِ احترام ادارے ہیں ۔ سب کی عزت بجا مگر ملک کی عزت ان سب سے کہیں زیادہ بلند ، برتر اور مقدس ہے ۔ سب سے اہم پاکستان کی بقاء اور مستقبل ہے۔ جب بھی فرد یا ادارے نے اپنی عزت کو ملک کی عزت پر ترجیح دی ، جب بھی وطنِ عزیز کے مفاد کو اپنی اناؤں پر قربان کیا گیا بڑا نقصان اُٹھانا پڑا اور وطنِ عزیز کے جسم پر بڑے گہرے گھاؤ لگے۔

یہ حقیقت کسی کو بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم دسویں صدی میں نہیں رہ رہے، جب ریاست کے فیصلے تلوار کے زور پر ہوتے تھے، ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکے ہیں جب ریاستوں کو چلانے کا فیصلہ بندوق، توپ یا ٹینک سے نہیں،آئین ،قانون اور جمہور کی اجتماعی دانش سے ہوتا ہے۔ اور پھر ہم یہ کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ پاکستان مختلف زبانیں بولنے والے مختلف خطوں اور صوبوں پر مشتمل ہے۔ یہ چھ اکائیوں کا مجموعہ ہے جسے ٹینکوں اور توپوں نے نہیں ایک ایسی دستاویز نے یکجا رکھا ہوا ہے جسے آئین کہا جاتا ہے، آئین کو پامال اور بے توقیر کیا جائے گا تو خدانخواستہ اکائیاں بکھر جائیں گی۔

افراد اور گروہوں کے اندھے پیروکار میرے مخاطب نہیں، مگر ملک سے محبت کرنے والے اور اس کے مستقبل کے بارے میں فکرمندہر باشعور شہری کے چہرے پر یہی التجا ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہے، اس سے تجاوز نہ کرے اور اپنے اندرونی معاملات بہتر کرے۔

ہر ادارے میں اصلاحِ احوال کی بڑی گنجائش ہے سیاسی حکومت کو فرسودہ عدالتی نظام کی اصلاح کرنی چاہیے تھی جو وہ نہیں کرسکی۔ موجودہ کریمنل جسٹس سسٹم کیا ڈلیور کررہا ہے، اور اس کی برکات سے عوام النّاس کسقدر مستفیض ہو رہے ہیں اس کا اندازہ ملک کی کسی بھی ضلع کچہری کے باہر کھڑے ہزاروں پریشان حال لوگوں کی زبوں حالی سے لگایا جاسکتا ہے، وہ صبح سے شام تک کھڑے رہتے ہیں اور شام کو نئی تاریخ لے کر رخصت ہوجاتے ہیں اور دوسری صبح ان کی جگہ لینے کے لیے افتادگانِ خاک کا ایک نیا انبوہِ کثیرآجاتا ہے ۔

برسوں سے یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ نہ کبھی پارلیمنٹ میں بیٹھے قانون سازوں کو ووٹ دینے والے ان عوام کی حالت پر ترس آیا اور نہ ہی مسندِ عدل پر بیٹھے ہوئے جج صاحبان کو! نہ ہی کبھی حکومتوں نے اس فرسودہ نظام کو بدل کر ایسا نظامِ عدل نافذ کرنے کی منصوبہ بندی کی جس کے تحت چند دنوں میں نہیں تو چند ہفتوں میں فیصلے ہوجایا کریں اور مسکین عوام کو پیسے اور وقت کی بربادی اور ذہنی اذیّت سے نجات مل جائے۔ ایسے فرسودہ نظام کا خاتمہ اور نظامِ عدل کی اصلاح ہماری سیاسی قیادت کی ترجیحِ اوّل کیوں نہ بن سکی؟۔ تعلیمی نظام ہی ہجوم کو ایک قوم بناتا ہے، اس میں اصلاح کیوں نہیں کی جاسکی؟

سیاسی قیادت کی کوتاہیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر بدترین حکومت کی گوشمالی کا حق بھی عوام کے پاس ہے۔ کسی دوسرے ادارے کو پارلیمنٹ کو کمزور اور بے وقار کرنے یا سیاسی اداروں کو غیر مستحکم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

اب تو ہرباخبر شخص اعلانیہ کہہ رہاہے کہ سابق وزیرِ اعظم سے وجۂ ناراضگی کرپشن نہیں تھی ورنہ کرپشن کے خاتمے کے لیے مختلف پارٹیوں ، حکومتوں اور اداروں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو افسوس بھی ہوتا ہے اور ندامت بھی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بڑی بڑی عدالتوں سے کبھی کسی بڑے آدمی کوکرپشن کے جرم پر سزا نہیں ملی۔ قبلہ زرداری صاحب، جو اس میدان کے شہسوار ہیں ، ہمیشہ عدالتوں سے تاریخیں لینے میں کامیاب رہے، نہ کبھی عدالتی نگرانی میں کام کرنیوالی جے آئی ٹی بنی نہ فیصلے کرنے کی معیاد مقرر ہوئی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ موصوف نے کوئی مقدمہ سرے نہیں چڑھنے دیا اور سزا سے بچتے رہے۔ فوجی آمروں نے جب بھی آئین توڑ کر حکومتوں پر قبضہ کیا تو قبضے کی وجہ سول حکومت کی کرپشن قرار دیا مگرکچھ ہی دیر بعد کرپٹ اور بدنام ترین سیاستدانوں کو ساتھ ملالیا۔ سندھ کا ہر شخص جانتا ہے کہ حکمران ٹولہ اربوں کی دیہاڑیاں لگا رہا ہے۔

جنرل راحیل کے دور میں فوج نے ایک بار تاثر ضرور دیا تھاکہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی مگر ڈاکٹر عاصم کے سوا حکمران خاندان کا کوئی ایک شخص بھی کرپشن پر نہ گرفتار کیا گیا نہ کسی کے خلاف کارروائی ہوئی اور یہ تو تاریخ ہے کہ کرپشن کے تمام مقدمے ختم کرنے اور اسے قانونی تخفظ فراہم کرنے کا عظیم کارنامہ بھی ایک عظیم جرنیل پرویز مشرف نے انجام دیا تھا۔کرپشن میں ملوث ہونے والوں کو اگر سزا دی ہے تو صرف عوام نے دی ہے، جس پارٹی نے کرپشن کو ہی اپنا دین ایمان اور منشور بنا لیااسے عوام نے تین صوبوں سے نکال باہر پھینکا جو پارٹی ایک صوبے میں بدنام ہوئی اسے اس صوبے سے فارغ کردیا۔

خیر اور شر کے خالق کے ہاں بھی اور ملکی قانون میں بھی ہر جرم ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ہر جرم کی سنگینی اور سزا مختلف ہے ، ٹیکس نہ دینا، کوئی اثاثہ چھپانا، منی لانڈرنگ کرنا بلاشبہ جرائم ہیں اور ان جرائم میں ملوث افراد کو سزا ملنی چاہیے مگر ان سے کہیں زیادہ سنگین جرم آئین توڑنا ہے جسکی سزا موت ہے ۔ خالقِ کائنات اور یومِ حساب کے مالک کے نزدیک بدکاری اور انسانی قتل سب سے سنگین جرائم ہیں جنکی سزا سب سے سخت ہے۔

ایم کیو ایم کے جس شخص کو کراچی کا میئر بنادیا گیا ہے اس پر 12مئی 2007کو پچاس کے قریب بے گناہ لوگوں کو قتل کروانے کا الزام ہے ، کراچی کا ہر شریف شہری پوچھتا ہے کہ فوج اور عدلیہ دونوں اس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کرسکے اور اسے نااہل کیوں نہ قرار دیا گیا؟۔ اس کے جرائم زیادہ سنگین ہیں یا بیٹے سے تنخواہ نہ لینا بڑا جرم ہے ، زرداری صاحب اہل ہوں،ان کی ہمشیرگان بھی اہل ہوں، ان کے سب وزیر اہل ہوں، وسیم اختر اہل ہو، جہانگیر ترین اہل ہو، علیم خان اہل ہو، شیخ رشید اہل ہو اور صرف نوازشریف تاحیات نااہل ہو تو کون ایسے فیصلے کو منصفانہ کہے گا؟

ملک کا درد رکھنے والے جمہوریت پسند لکھاری پریشان ہیں کہ ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ جمہوریت کے حق میں بات کرنا جرم قرار پائے۔جو یہ کہے کہ "جمہوریت ہی ملک کے بقاء کی ضامن ہے " اُس پر مچانوںپر بٹھائے گئے تیرانداز تیروں کی بوچھاڑ کر دیں۔ جو ووٹ کی حرمت کا نام لے اُس پر کرائے کے تو پچی گولے برسانے لگیں۔

اس وطنِ عزیز کے نام پر ، جسکے لیے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں قربان ہوئیں ، میں عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ اور پاک فوج کے سپہ سالار سے گزارش کرتا ہوں (دونوں پر اس لیے حق رکھتا ہوں کہ ایک میرے ہم جماعت ہیں اور دوسرے گرائیں یعنی ہم تحصیل ) کہ جمہوریّت ہی ہمارے لیے مقّدم ہے کہ بانیٔ پاکستان نے یہی نظام اس ملک کے لیے پسند کیا تھا اور یہی نظام ہی تمام اکائیوں کو متحد رکھ سکتا ہے۔ مگرٹی وی چینلوں پر جمہوریّت کو رُسوا رکرنے کی مہم کیوں شروع کردی گئی ہے! اس کا تخفّظ آپکی بھی ذمّہ داری ہے، عدالتِ عظمیٰ کی بھی اور پاک فوج کی بھی!۔ دونوں کا موجودہ طرزِ عمل تاریخ کا حصہ بنے گا۔ ہماری دعا بھی ہے اور امّید بھی کہ وہ اس امتحان میں سرخرو ہونگے۔ فوج کے جمہوریت پسند سربراہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا کسی حاضر سروس فوجی افسرکو سیاست بازی کی اجازت ہونی چاہیے؟ کیایہ ملک کے کے لیے نقصان دہ نہیں ہے؟

اگر کوئی فوجی افسر کسی سیاستدان، صحافی یا اینکر کو سیاسی امور کے بارے میں ہدایات دیتا ہے تو یہ آئین اور قانون کے منافی ہے، فوج کوئی حکومت مخالف جماعت نہیں ہے۔ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے اور کسی شخص کو سیاسی مقاصد کے لیے فوج کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جنرل باجوہ صاحب! فوج کی بالادستی کے خواہشمندوں کو سختی سے سمجھائیں کہ"مجھے ادارے کی عزت بے حد عزیز ہے مگر ملک کا مستقبل اس سے کہیں زیادہ عزیز ہے"۔ وطن عزیز عالمی سازشوں کی زد میں ہے، کل صدرِ مملکت سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے اس پربے حد تشویش کا اظہار کیا۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تاریخ کے اس اہم مرحلے پر ملک کے تمام اداروں اور تمام اہم افراد کو اپنے مفاد اور انا سے بلند ہوکر فیصلہ کرنے کی توفیق اور جرأت عطا فرمائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں