سیاسی مغالطے
میاں نواز شریف کو بھی آیندہ کی سیاست میں دل کے علاوہ اپنی سمجھ بوجھ سے فیصلے کرنا ہوں گے
ملکی حالات میں تبدیلی کے بعد سیاسی کشمکش اپنے عروج پر ہے، ہر جماعت کا لیڈر اپنی بولی بول رہا ہے ،کوئی ان حالات کو اپنی فتح سے تعبیر کر رہا ہے تو کوئی اس فتح کو ماننے سے انکاری ہے اور کوئی ان نئے پیدا شدہ حالات کو عوام کے حقوق پر عدلیہ کی جانب سے ڈاکا قرار دے رہا ہے تو کوئی اس کو سازش سے تعبیر کر رہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ سازش کا منبع کہاں ہے۔
سازش کے اس منبع کے بارے میں ڈھکے چھپے لفظوں میں معزول وزیر اعظم بات ضرور کر رہے ہیں اور سب کچھ معلوم ہونے کا ورد بھی جاری ہے مگر کھل کر بات نہیں کی جارہی جب کہ ڈھکے چھپے لفظ سیاست میں نہیں چلتے کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ عوام اپنے سیاسی لیڈروں کی چال بازیوں سے بے خبر رہیں بلکہ وہ وقت بھی آگیا ہے کہ عوام بعض اوقات اپنے لیڈروں سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں لہذا اب سیاست دانوں کو بھی اپنی بات صاف اور واضح الفاظ میں عوام تک پہنچانی پڑتی ہے کہ عوام بھی اب کم علم نہیں رہے وہ اگر مگر کی سیاست کو سمجھ گئے ہیں اور اب وہ صرف سیدھی بات ہی سننا چاہتے ہیں اور پھر اس کے مطابق ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کے لیڈروں کا رخ کس جانب ہے۔
جب سے پاناما کیس کا فیصلہ آیا ہے روز کوئی نہ کوئی ایسی آواز بلند ہو رہی ہے جس میں میں نہ مانوں کی تکرار بڑی واضح ہوتی ہے اور یہ آوازیں کہیں اور سے نہیں بلکہ حکمران جماعت کے لیڈروں اور ان کے سیاسی حلیفوں کی جانب سے ہی بلند کی جا رہی ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کی آوازیں اب نقارخانے میں طوطی والی ہی رہ گئی ہیں اور اس آہ و بکاء کا اب کوئی فائدہ نہیں لیکن پھر بھی آہ و زاریاں جاری ہیں کہ آیندہ سرپر منڈلاتے خطرات کا ادراک ہے اور ان خطرات سے بچنے کے لیے یہ آہ و بکاء ضروری ہے کہ شاید کوئی بچت ہو جائے جو کہ نظر تو نہیں آ رہی لیکن اگر پسِ پردہ کچھ معاملات طے ہو جائیں تو اور بات ہے کہ ہمارے سیاستدان پس ِ پردہ معاملات طے کرنے کے بڑے ماہر ہیں۔
اس کیس کے فریقین نے فیصلے سے پہلے ہی اس کو تسلیم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے جیسے کہ جے آئی ٹی کے بننے پر مبارک سلامت اور مٹھائیوں کے ٹوکرے تقسیم کیے گئے تھے لیکن فیصلہ آنے سے پہلے ہی جے آئی ٹی کے متعلق حکمران جماعت نے اس کو جانبدار قرار دے دیا ان کی جانب سے اس اظہار کے بعد یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اگر فیصلہ حکمران خاندان کے خلاف آیا تو اسے بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا لیکن فیصلہ آنے کے بعد اسے پہلے تو قانون پر عملدرآمد کا نام دیتے ہوئے اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا گیا لیکن بعد میں اس کے مضمرات کو دیکھتے ہوئے اس کے بارے میں پہلے پہل تو دبے لفظوں میں اس کو اپنے خلاف سازش قرار دیا گیا اور بعد میں کھلم کھلا اس کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا گیا اور یہ کسی اور نے نہیں میاں نواز شریف نے کیا جو اقتدار سے تیسری بار الگ ہونے کے بعد لاہور کی واپسی کے سفر میں جی ٹی روڈ پر مسلسل اس بات کی تکرار کرتے نظر آئے کہ مجھے کیوں نکالا اور عوام کو اس بات پر اُکساتے رہے کہ کیا ان کو یہ فیصلہ منظور ہے کہ یہ عوام کے ووٹوں کی توہین ہے جس کو پانج ججوں نے پامال کیا اور عوام کے ووٹ کی پرچی پھاڑ کر پھینک دی۔
ان کا یہ غضبناک رویہ پہلی دفعہ دیکھا گیا کہ اس سے پہلے وہ جب بھی اقتدار کی مسند سے الگ ہوئے اس وقت الیکٹرانک میڈیا کا وجود نہیں تھا اور لیڈر عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لیے اخبارات کے مرہون منت تھے جو کہ گزشتہ روز شایع ہوتے تھے اور اس دوران بہت کچھ ہو جاتا تھا۔ انھوں نے اس غضبناکی کیفیت میں عدلیہ پر کھل کر تنقید کے نشتر چلائے اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر یہ بات عوام تک پہنچانے کی کوشش کی کہ ان کو ایک غلط فیصلے سے نکالا گیا ہے اور وہ اس کو نہیں مانتے۔
میاں نواز شریف کے لاہور کے سفر کے اختتام پر داتا دربار کے سامنے ان کی تقریر کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنے چار دن کے سفر کے دوران جن خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں اس سے زیادہ موثر اور مدلل تقریر لاہور میں ہو گی لیکن لاہور پہنچنے کے بعد سے اب تک وہ خاموش ہی نظر آرہے ہیں اور ابھی تک جن جذبات کا اظہار ان کی طرف سے کیا جارہا تھا لگ یہ رہا ہے کہ ان کو ان کے عقلمند رفقائے کار کی جانب سے ٹھنڈا کر دیا گیا ہے جو سیاسی طور پر عقلمندی کی بات ہے کہ محبت اور سیاست میں جذبات نقصان ہی پہنچاتے ہیں اور پھر بعد میں ا ن کا مداوا مشکل ہو جاتا ہے۔
بطور سیاسی وقایع نگار میں نے زندگی بھر یہی دیکھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہ ہونے والی بات جس نے بھی کبھی کی وہ سو فیصد درست تھی''یہ مولانا ابوالکلام آزاد سے منسوب ہے'' اور میاں نواز شریف کو بھی آیندہ کی سیاست میں دل کے علاوہ اپنی سمجھ بوجھ سے فیصلے کرنا ہوں گے کہ اسی میں ان کی بھلائی نظر آتی ہے، ان کو سیاست سے جذبات کو علیحدہ کر کے ٹھنڈے دماغ سے یہ سوچنا اور سمجھنا ہو گا کہ ان سے خود کہاں غلطیاں ہوئیں اور کہاں ان سے کرائی گئیں کہ یہ وقت اب ان غلطیوں کو درست کرنے کا ہے نا کہ آپ ان غلطیوں پہ غلطیاں کرتے چلے جائیں اور پھر واپسی مشکل ہو جائے کہ آج کل کی بے رحم سیاست میں غلطیوں کی گنجائش کم ہی رہ گئی ہے اور سیاسی حریف اس تاک میں رہتے ہیں کہ سیاسی مخالف غلطی کرے اور وہ اس کو پکڑ لیں جیسا کہ میاں صاحب کے ساتھ ہوا ہے ان کو اب مزید کسی سیاسی مغالطے میں نہیں رہنا چاہیے بلکہ اگر وہ کھل کر اظہار رائے کریںتو عوام ان کی بات سننے کو اب بھی تیار ہیں کیونکہ وہ اس ملک کی ایک بڑی جماعت کی رہنمائی کر رہے ہیں ان کے سیاسی کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہ ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت سب کو معلوم ہے۔