چٹان کی مانند ساتھ کھڑے رہنے والے

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چوہدری نثار ہی کے مشورے پر انھوں نے عدلیہ کے روبر وہ یہ اطاعت گزاری کی پالیسی اپنائی۔

mnoorani08@gmail.com

پاناما کیس کے فیصلے سے صرف ایک روز قبل سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ایک پریس کانفرنس میں پارٹی قیادت سے اپنے اختلافات کاذکر کرتے ہوئے ببانگ دہل فرمایا تھا کہ میاں صاحب فیصلہ اگر آپ کے خلاف آیا تو مجھے آپ چٹان کی طرح اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن میاں صاحب اپنے ارد گرد اُس سیسہ پلائی ہوئی چٹان کے نشانات اورآثار تلاش ہی کرتے پھر رہے ہیں۔

چوہدری صاحب کو بظاہر میاں صاحب سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ وہ پارٹی کے بہت بڑے سینئر رہنما اور مخلص کارکن ہیں۔ انھیں گلہ ہے تو میاں صاحب کے اُن مشیروں اور ساتھیوں سے ہے جو انھیں غلط مشورے دے رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جی ٹی روڈ سے لاہور جانے کی تجویز پر بھی چوہدری صاحب کو اعتراض تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ میاں صاحب خاموشی کے ساتھ اپنے گھر رائیونڈ منتقل ہو جائیں اور فیصلے کو اپنی تقدیر سمجھ کر سیاست سے وقتی طور پرکنارہ کش ہوجائیں، مگر میاں صاحب خود اِس مشورے پر عمل کرنے پررضامند نہ تھے۔ لہذا پھر وہی ہوا جو میاں صاحب اپنی دانست میں درست اور صحیح سمجھتے تھے۔

انھوں نے سیاست کے اصولوں کے عین مطابق اِس موقعہ کو عوام کی ہمدردیاں اور محبتیں سمیٹ لینے کے لیے استعمال کیا اور خاموشی کے ساتھ وقت کی تاریک اور گمنام راہوں میںکھوجانے کی بجائے سیاست میں خود کو زندہ وجاوید رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ صر ف اُن کے دوستوں اور مشیروں کا مشورہ ہی نہ تھا بلکہ میاں صاحب کی اپنی بھی یہی خواہش تھی۔

میاں صاحب کو شاید اب یہ احساس ہوچکا تھا کہ انھوں نے سپریم کورٹ کے پاناما کیس سماعت کے لیے منظورکیے جانے والے کے فیصلے کو قبول کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی۔اس ضمن میں عدالت عالیہ کے دائرہ اختیار پر اعتراض نہ کرکے انھوں نے اپنے پاؤں پر ہی کلہاڑی دے ماری تھی۔ پھر جے آئی ٹی میں جانے کا فیصلہ بھی کوئی درست اقدام نہیں تھا۔یہ وہ ناقص اور غلط فیصلے تھے جس کا خمیازہ انھیںاپنی نااہلی کی شکل میں اُٹھانا پڑا، وہ اگر شاطر اور چالاک سیاستداں ہوتے تو شاید یہ غلطی ہرگز نہ کرتے۔ اُن سے زیادہ ہشیاری اور دانش مندی کا مظاہرہ تو علامہ طاہرالقادری کررہے ہیں کہ وہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کابائیکاٹ بھی کرتے رہے اور اب اُس کی رپورٹ کو اپنے فیور میں دیکھ کر اُسے پبلک کرنے کامطالبہ بھی بڑے شدومد کے ساتھ کررہے ہیں۔

اِسی چیزکو مدنظر رکھتے ہوئے میاں صاحب نے اب نیب میں اپنے خلاف ریفرنسوں میں اُس تک نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے جب تک سپریم کورٹ اُن کی نظر ثانی کی درخواست کا فیصلہ نہیں سنادیتی۔ قانونی طور پر یہ طرز عمل اور طریقہ کاردرست معلوم ہوتا ہے۔ اِس کے نتائج خواہ کچھ بھی ہوں میاں صاحب کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو پہلے ہی نوشتہ دیوار ہے۔

نیب کی ساری کارروائی کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کے ایک جج کا تعینات کیا جانا جس طرح آج کل آئینی اور قانونی سمجھا جارہا ہے اُسی طرح میاں صاحب کا یہ فیصلہ بھی درست اور جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انصاف صرف یہ نہیں کہ عدلیہ کوئی فیصلہ سنادے بلکہ انصاف ہوتا ہوا بھی دکھائی دے۔ کسی بھی اہم اور بڑے فیصلے کی اہمیت و وقعت اس وقت قائم ہوتی ہے جب عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔

مقدمہ پاناما کیس کا ہو اور فیصلہ دبئی کی ایک فرم کے اقامہ کاسنایا جائے ایسا آج تک دیکھا نہیں گیا۔ ایسا لگتا ہے فیصلہ پہلے کر لیا گیا اور اُس کے حق میں الزامات بعد میں تلاش کیے گئے۔ جے آئی ٹی کی ساری محنت و مشقت محض اِس اہم قومی فریضہ کی ادائیگی کے لیے تھی کہ کسی نہ کسی طرح ایسا کوئی الزام تلاش کیا جائے جس کو بنیاد بناکر ایک بھاری مینڈیٹ والے وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا جاسکے۔فیصلہ اگر مدعی کی استدعا کے مطابق پاناما کیس میں درج کیے گئے کرپشن یامنی لانڈرنگ کے کسی الزام کے تحت کیا جاتا تویقیناً زیادہ قابل قبول تصور کیا جاتا۔ اِس فیصلے سے ملزم کو کوئی پشیمانی اور خفت اُٹھانے کی بجائے عوام الناس کی اور بھی حمایت اور ہمدردیاں حاصل ہوئی ہیں۔


یہ سب ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ چوہدری نثار کا تعلق اور وابستگی سیاست سے زیادہ ہمارے اُن حلقوں سے رہی ہے جو ملکی و قومی فیصلے کرنے کااصل مجاز اور حاکم اعلیٰ تصور کیے جاتے ہیں۔اُن کا ہر حکم اور ہر لفظ فرمان امروزکا درجہ رکھتا ہے۔اُن سے لڑائی مول لے کر کوئی بھی حکمراں اپنے عہدے پر باقی نہیں رہا۔ یہ بات چوہدری صاحب ہر روز میاں صاحب کو ازبر کرواتے رہے تھے لیکن میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم بن جانے کے بعد بھی سمجھ نہ سکے اور بالآخر تیسری بار بھی اپنے منصب سے قبل ازوقت ہاتھ دھو بیٹھے۔

میاں صاحب کوشایدیہ مغالطہ ہو چکا تھا کہ ڈان لیکس کا معاملہ افہام و تفہیم اورخوش اسلوبی سے طے ہوجانے کے بعد انھیں اب کوئی پانچ سال پورے کرنے سے روک نہیں سکتا۔اِسی غلط فہمی میں وہ جے آئی ٹی کے روبرو بھی پیش ہوگئے اور اپنی ساری فیملی کو بھی پیش کردیا۔یہ تو انھیں بعد میں پتہ چلا کہ اُن کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہوچکا ہے۔ وہ کس کے مشورہ پر ایسا کرتے رہے یہ تو وہ خود جانتے ہیں یا پھر چوہدری نثار۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چوہدری نثار ہی کے مشورے پر انھوں نے عدلیہ کے روبر وہ یہ اطاعت گزاری کی پالیسی اپنائی۔ جس طرح انھوں نے اپنے سابقہ دورمیں چوہدری نثار کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے پرویزمشرف کو آؤٹ آف ٹرن چیف آف آرمی بنایاتھااور پھر کارگل لڑائی کے متنازع ایشو کے باوجود وہ پرویز مشرف سے افہام و تفہیم کا راستہ اپناتے رہے بالکل اسی طرح وہ اِس بار بھی عدلیہ کے احترام اور حکم برداری کاسبق پڑھتے رہے لیکن 12اکتوبر1999ء کے طرح انھیں 28جولائی 2017ء کو معلوم ہوا کہ وہ کسی کے معصومانہ مشورے پر دھوکا کھا گئے۔وہ اگر مقدمے کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے روبرو پیش نہ ہوتے توایساکیا ہوجاتا جو ابھی نہیں ہوا۔

نااہل تو انھیں ہونا ہی تھا۔جوں جوں وقت گزرتا جائے گا یہ بات اور بھی عیاں ہوتی جائے گی۔پاناما کیس کے 450 ملزمان میں سے صرف ایک کے خلاف کارروائی اور آئین کی شق 62اور63کے تحت صرف ایک شخص کو نااہل قراردینا معاملے کی گہرائی اور پس پردہ محرکات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

چوہدری نثار ہوسکتا ہے اپنی دانست میں بالکل درست اورصحیح رائے رکھتے ہوں، لیکن انھیں اس چیز کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ہمارے یہاںجمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان اختلاف کی خلیج کون پیدا کرتا ہے۔ 2014ء میں میاں صاحب سے ایسا کون سا جرم سرزد ہوگیا تھا کہ ایک جمہوری حکومت کے خلاف انتخابی دھاندلی کے بے بنیاد الزام کے تحت دھرنے کا سوانگ رچاکر اُسے گرانے کا اہتمام کردیا گیا۔اُس حکومت کا جرم صرف یہی تھا کہ اُس نے آئین سے غداری کے ایک ایسے مجرم کوعام آدمی کی طرح عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا تھا جس کے خلاف کارروائی کرنے کا حق ہمارے یہاں کسی سول ادارے کو نہیں ہے۔

یہاں ملک دو لخت کردیا جائے لیکن کسی مجرم کوکوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔ یہاں سیاچن کی زمین بنجر قرار دے کر دشمن کے حوالے کر دی جائے لیکن وہ جرم تعزیراتِ پاکستان کے تحت جرائم کی کسی فہرست میں شامل ہی نہیں ہوسکتا۔ ہاں البتہ کسی غیر ملک کا اقامہ رکھنا ایسا تعزیری جرم قرار دے دیاجائے جس کی سزا نہ صرف اقتدار سے محرومی ہو بلکہ پارلیمنٹ سے ساری زندگی کے لیے بیدخلی ہو۔

چوہدری نثار آج کہاں کھڑے ہیں۔ وہ میاں صاحب کے ساتھ چٹان بن کرشانہ بشانہ ساتھ کھڑے ہیں یاآنے والے دنوں کے خوف سے اُن کی تائیدو حمایت سے دست بردار ہو کرمقتدر حلقوں میں اپنے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش اور جستجوکررہے ہیں۔ پارٹی کے دیرینہ کارکن اچھی طرح جانتے ہیں کہ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ 1999ء میں مشرف کے اقتدار کے قبضے کے فوراً بعد مسلم لیگ (ن) کے سارے بڑے اہم رہنما اور وزراء جیلوں اور قلعوں میں بند کردیے گئے لیکن چوہدری نثارکو بڑے آرام و آسائش کے ساتھ اُن کے اپنے گھر ہی میں نظر بندرکھا گیا۔
Load Next Story