وفاق اور تعلیم

تمام رہنمائوں میں سے اکثریت کی رائے تھی کہ چار وزارتیں داخلہ، خزانہ، دفاع اور مواصلات وفاق کے پاس ہونی چاہیے

tauceeph@gmail.com

ISLAMABAD:
وفاق میں تعلیم کی وزارت دوبارہ قائم کرنے کی خبر سے فیڈریشن کے حامیوں کے لیے تشویش پیدا ہوگئی۔ 18 ویں ترمیم کے معمار اور پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی ایڈوکیٹ نے آئین میں متفقہ طور پر کی گئی 18 ویں ترمیم کو بے اثر کرنے کی اس خبر پر تشویش کا اظہار کیا۔ پاکستان صوبوں کے حقوق کے نام پر قائم ہوا تھا مگر پاکستان کے قیام کے بعد وحدانی طرز حکومت قائم کی گئی، صوبوں کے حقوق پامال کیے گئے.

ملک کے اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کے عوام کی اکثریت کو ختم کیا گیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے عوام نے ایک نیا وطن بنگلہ دیش بنانے کا راستہ اختیار کیا اور چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لاء کے خاتمے اور ملک کے لیے آئین بنانے کا فیصلہ کیا تو قومی اسمبلی میں نمایندگی رکھنے والی جماعتوں کے پارلیمانی رہنمائوں پر مشتمل ایک آئینی کمیٹی قائم کی گئی،اس کمیٹی کا کنوینر پیپلزپارٹی کے رہنما ممتاز قانون دان میاں محمود علی قصوری کو مقرر کیا گیا.

جب کہ عبد الحفیظ پیرزادہ، پروفیسر غفور، مفتی محمود ، مولانا شاہ احمد نورانی، سردار شیر باز خان مزاری، میر غوث بخش بزنجو اور ولی خان اس کے رکن بنائے گئے، میاں محمود علی قصوری کے مستعفی ہونے کے بعد نئے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ اس آئینی کمیٹی کے کنوینرہوئے۔ ان تمام رہنمائوں میں سے اکثریت کی رائے تھی کہ چار وزارتیں داخلہ، خزانہ، دفاع اور مواصلات وفاق کے پاس ہونی چاہیے اور باقی تمام وزارتیں صوبوں کو منتقل ہونی چاہیے۔ بھٹو صاحب اصولی طور پر اس فیصلے سے متفق تھے مگر عسکری اسٹیبلشمنٹ اور نادیدہ قوتوں کے دبائو پر آئین میں ایک کنکرنٹ لسٹ بنائی گئی.

جس میں وہ تمام شعبے شامل کیے گئے جس پر وفاق اور صوبے قانون سازی کرتے تھے۔ بھٹو صاحب نے اس وقت نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اس وقت کی صورتحال کو قبول کر لیں، 10 سال بعد کنکرنٹ لسٹ ختم ہو جائے گی مگر 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر کے آئین کو معطل کر دیا۔ چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور ملک کو وحدانی طرز حکومت میں تبدیل کر دیا گیا۔ یوں صوبوں میں شدید احساس محرومی پیدا ہوا، بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی پسند عناصر کو تقویت حاصل ہوئی۔

صوبوں میں بداعتمادی اتنی بڑھی کہ کالا باغ ڈیم جیسے توانائی کے منصوبے اس بد اعتمادی کی نذر ہو گئے۔
1988ء میں وفاق میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت بنی تو میاں نواز شریف کو صوبائی خودمختاری کی اہمیت کا احساس ہوا۔ انھوں نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب ٹیلی ویژن اور پنجاب بینک کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ پنجاب بینک ان ہی کے دور میں قائم ہوا مگر بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اپنے اقتدار کے ادوار میں آئین میں صوبائی خود مختاری کے لیے جامع ترامیم پر توجہ نہیں دے سکے۔


جنرل مشرف نے 1999ء میں اقتدار سنبھالا تو انھوں نے نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کو نافذ کیا، یوں صوبائی خود مختاری بے معنی ہو گئی۔ اس ہی دوران بلوچستان میں قدرتی وسائل پر قبضے اور گوادر کو جدید شہر بنانے کے حوالے سے مسائل پیدا ہوئے۔ مشرف حکومت نے بلوچستان کے حقوق کے تناظر میں مسائل کو حل کرنے کے بجائے فوجی آپریشن اور سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے واحد حامی سردار نواب اکبر بگٹی ایک فوجی آپریشن میں جاں بحق ہوئے اور سیاسی کارکنوں کی لاشیں ملنے لگیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند اتنے مضبوط ہوئے کہ صوبے کے شہروں میں پاکستان کا پرچم لہرانا ایک جان لیوا جرم بن گیا۔

2008ء میں نئے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اورمسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف میں شدید اختلاف کے باوجود آئین میں 18 ویں ترمیم پر اتفاق ہوا۔ اس سے پہلے قومی مالیاتی ایوارڈ دینے کے فارمولے کے تحت ترتیب دینے پر دونوں جماعتیں متفق ہوئی تھیں، یوں چھوٹے صوبوں کو وفاق سے ملنے والے فنڈز میں کئی سو گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ جب 18 ویں ترمیم ایک سال بعد نافذ ہوئی تو پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ اسلام آباد کی بیوروکریسی کو اپنے محدود ہونے کے معاملے کا احساس ہوا۔ بیوروکریسی نے مختلف وزارتیں صوبوں کو دینے میں مزاحمت کی.

ان وزارتوں میں تعلیم بھی شامل ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلے صوبوں میں ہائر ایجوکیشن کے قیام کے معاملے کو قانونی تنازعے میں الجھایا گیا پھر سپریم کورٹ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو صوبوں کو منتقل کرنے کے لیے قانون سازی کو ضروری قرار دیا، یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ تعلیم کے شعبے کی صوبوں کو منتقلی رک گئی ہے۔ وفاق کے پاس تعلیم کی وزارت شروع سے ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں نصاب سازی میں جنونیت اور انتہا پسندی کو اولیت دی گئی۔ ممتاز صحافی آئی اے رحمن نے اپنے معروف آرٹیکل 'انتہا پسندی کی راہ ہموار کرتا نظام تعلیم' میں تحریر کیا کہ نصابی کتابوں میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ملتا کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور دنیا بھر کے تمام انسان ایک خاندان کے افراد ہیں۔ آئی اے رحمن نے اپنے آرٹیکل میں شہریت کے مضمون کی کتابوں کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایک کتاب میں جمہوریت اور آمریت دونوں کے سات فوائد اور نقصانات بیان کیے گئے۔

وفاقیت کے ماہر ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ 1973ء کے آئین کے تحت صرف تعلیمی منصوبہ بندی وفاق کے سپرد تھی مگر عسکری اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر نصاب سازی کا معاملہ وفاقی وزارت تعلیم نے سنبھال لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاق میں تعلیم کا شعبہ مستقل کرنے کا معاملہ صرف نصاب کی تیاری تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے مقاصد ہیں۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اس صدی کے آغاز میں جب تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی کوشش کی گئی تو سینٹر ل بیوروکریٹس اور نادیدہ قوتوں نے یہ کوشش ناکام بنادی، اب اگر تعلیم کا شعبہ صوبے کے پاس رہا تو تین صوبوں پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا کام جلد ہوگا۔ اگر وفاق نے پھر تعلیم کی وزارت سنبھال لی تو نصاب میں تبدیلی کا عمل رک جائے گا.

اس طرح صوبے تعلیم عام کرنے اور ہر فرد کو خواندہ بنانے کے فریضے سے دور ہو جائیں گے۔ 18 ویں ترمیم کی روح کے منافی تعلیم کا شعبہ مرکز کے پاس چلا جائے گا تو صحت، کھیل، سیاحت، آثار قدیمہ، ماحولیات اور دوسرے شعبوں کے واپس مرکز میں جانے کا سوال پیدا ہوگا ، اسلام آباد میں بیوروکریسی نے 18 ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد کئی نئی وزارتیں بنائیں جن کی نگرانی کا فریضہ منتخب وزرا اور سینیٹر انجام دے رہے ہیں۔

بیوروکریسی اور سینٹر لسٹ سیاستدانوں کو مزید وزارتوں کی ضرورت ہے اس لیے 18 ویں ترمیم کو ناکام کیا جا رہا ہے۔ 18ویں ترمیم کے نفاذ کو ایک سال کا عرصہ ہو رہا ہے اب تو جو اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں وفاق کے کنٹرول میں ہیں ان کی صوبوں کو واپسی اور ہر صوبے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے معاملات کو حتمی شکل ملنی چاہیے۔ پاکستان کی بنیاد وفاقیت پر رکھی گئی ہے اس کا مستقبل وفاقیت میں پوشیدہ ہے، پاکستان کو حتمی طور پر وفاق قرار دے کر بچایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story