طالبان سے مذاکرات …مگر کیسے

تمام پارٹیوں کے نمایندوں نے اپنی اپنی پارٹی کے رسمی موقف کو بھی آشکار کیا۔


Editorial February 15, 2013
کانفرنس کے شرکاء نے ایک قرار داد کے ذریعے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں کے لواحقین کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کریں۔ فوٹو: ثناء

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مشروط مذاکرات کی دعوت دیے جانے کے تقریباً دو ہفتے بعد ملک کی تمام بڑی اپوزیشن پارٹیوں نے مجتمع ہو کر اعلان کیا ہے کہ وہ سب قیام امن کی خاطر ان سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی طرف سے طلب کی جانے والی ایک روزہ کانفرنس میں جمعرات کے دن دعویٰ کیا گیا کہ وہ عسکریت پسندوں کے ساتھ ڈائیلاگ کے لیے متفق ہو گئے ہیں تاہم کٹھن ہدف کو حاصل کرنے کی خاطر ان کی طرف سے کسی لائحۂ عمل کا اعلان نہیں کیا گیا۔

اے این پی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ اے این پی کے صدر اسفند یار ولی خان نے پڑھ کر سنایا۔ کانفرنس کا انعقاد بند کمرے میں کیا گیا جس میں 24 سیاسی پارٹیوں' مذہبی گروپوں اور بار کونسلوں کے نمایندوں نے شرکت کی۔ ''کانفرنس میں تسلیم کیا گیا کہ عسکریت پسندی اور تشدد پورے ملک کا مسئلہ ہے تاہم ہمارے ملک کی بقا اور ترقی کے لیے اس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کرنا ہو گا۔

اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے اس کانفرنس کے انعقاد کو بڑی کامیابی سے تعبیر کیا ہے اور کہا کہ یہ ابھی محض ابتدا ہے جس سے قیام امن کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا تمام شریک پارٹیاں اس بات پر متفق ہیں کہ مذاکرات کے عمل کو اولین ترجیح دینا چاہیے۔ اس سوال کے جواب میں کہ قبل ازیں پارلیمنٹ کی طرف سے دہشتگردی کے انسداد کے لیے دو قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں مگر ان پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا' اے این پی کے سربراہ نے کہا کہ اے پی سی کانفرنس کی قرار داد اس حوالے سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہیں جن کی موجودہ پارلیمنٹ میں نمایندگی نہیں ہے۔

اسفند یار ولی نے اس بات کی تردید کی کہ ان کی پارٹی نے دھمکیوں کے خوف کی وجہ سے یہ کانفرنس منعقد کی ہے۔ کانفرنس کے شرکاء نے ایک قرار داد کے ذریعے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں کے لواحقین کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کریں۔ اس کانفرنس میں بھی تقریباً تمام بڑی جماعتوں کے نمایندے شریک تھے جب کہ حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کی نمایندگی اس کے سیکریٹری جنرل جہانگیر بدر اور وفاقی وزیر نذر محمد گوندل نے کی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان' راجہ ظفر الحق اور اقبال ظفر جھگڑا نے بڑی اپوزیشن پارٹی پی ایم ایل (این) کی نمایندگی کی جب کہ مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور جنرل سیکریٹری سید مشاہد حسین بھی کانفرنس میں موجود تھے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار، پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے لیڈر محمود خان اچکزئی، جے یو آئی (ف) کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری اور خیبر پختون خوا کے سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عاصمہ جہانگیر بھی کانفرنس کے ممتاز شرکاء میں شامل تھیں۔ اتنی وسیع کانفرنس میں اس بات کا کوئی فیصلہ نہ کیا گیا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی خاطر کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں، جن کے ٹھوس نتائج برآمد ہو سکیں۔ اس بات پر البتہ تمام پارٹیوں کا اتفاق تھا کہ مذاکرات تو یقیناً ضروری ہیں مگر اس وقت تک ہتھیار بند لوگوں کو مذاکرات کی میز پر نہیں بٹھایا جا سکتا جب تک کہ وہ ہتھیار ڈال نہ دیں۔ اور یہ کہ ریاست کی رٹ کے لیے چیلنج بننے والے عناصر سے بات نہیں ہو سکتی۔

تمام پارٹیوں کے نمایندوں نے اپنی اپنی پارٹی کے رسمی موقف کو بھی آشکار کیا۔ امن و امان تو ہر پاکستانی چاہتا ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مطالبے کی حمایت بھی کی جا رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ مذاکرات کرے گا کون؟ اس کانفرنس سے جو امید افزا پہلو سامنے آیا تھا، وہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کے قافلے پر خود کش حملے سے ختم ہو گیا ہے۔ اب ایک عجیب صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ طالبان تو اپنی کارروائیاں بلاروک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہیں' ادھر ملک کی سیاسی جماعتیں طالبان سے مذاکرات کی باتیں کر رہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں فہمیدہ حلقے یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ کانفرنس کا انعقاد کرنے والی سیاسی جماعت کے اپنے وزیراعلیٰ کے قافلے پر ہی حملہ ہو گیا ہے۔

اس کے باوجود اگر طالبان سے مذاکرات کی بات ہو رہی ہے تو یہ یقیناً حیران ہونے والی بات ہے۔ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ اے این پی' پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم حکمران اتحاد کہلاتا ہے۔ اس نے ہی ملک کی پالیسیاں تشکیل دینی ہیں۔ جہاں تک طالبان سے مذاکرات کا تعلق ہے تو حکمران اتحاد کو مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کی بھی حمایت حاصل ہے۔ ایسی صورت میں وہ کون سی رکاوٹ ہے جسے دور کرنا باقی ہے۔ اصل معاملہ یہی لگتا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت ابھی تک دہشت گردی سے وابستہ خطرات کا ادراک کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے۔ اسی سیاسی قیادت نے سوات میں طالبان سے امن معاہدہ کیا تھا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ بالآخر پاک فوج کو آپریشن کرنا پڑا۔ اس آپریشن کی منظوری بھی پارلیمنٹ نے ہی دی تھی۔ اب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر ہوتی کے قافلے پر حملے کے بعد طالبان سے مذاکرات کرنے کی بات کمزوری کی علامت سمجھی جا سکتی ہے۔ اس پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں