’’امن‘‘ مگر احتیاط سے
با ت چیت کی اِن بھلی با توں کے پیچھے کیا مختلف عسکریت پسند گر وپوں کو خطیر رقوم ادا کرنے کا پلان بنا یا جا رہا ہے؟
www.facebook.com/syedtalathussain.official
دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے لیے منعقد کی جانے والی قومی کانفرنس اور اس کا جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ ایک خوش آیند قدم ہے۔ مگر چونکہ اس ملک میں اکثر خوش آیند اقدامات گہری کھائیوں یا تاریک اور بند گلیوں میں جا کر اختتام پذیر ہوئے ہیں لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ صلح جوئی کی طرف اس پیش قدمی کو حقیقی انداز میں پر کھا جائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ امن کی فاختہ ان گِدھوں میں شامل ہو جائے جو پاکستان کا بچا کچھا گوشت نوچنے کے لیے آسمان پر کئی برسوں سے ڈرونز کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ اگرچہ جمعرات کو جاری کردہ اعلامیہ میں اس امر پر اتفاق رائے نظر آ رہا ہے کہ طالبان یا عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کا عمل آئین و قانون، قومی سلامتی اور خود مختاری کے پیرائے میں ہی کیا جائے گا۔
مگر شاید ہی کسی شریک مشاورت نمایندے کے ذہن میں یہ ابہام ہو کہ طالبان نے اگر ان شرائط پر ہتھیار پھینکنے ہوتے تو پھر اتنا خون بہانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ تمام کارروائیوں کا مقصد یہی تھا کہ سر کش عناصر کو ریاستی ضابطے کے تابع کیا جائے اور ان کی طرف سے ہونے والے حملوں کو نہ صرف پسپا کیا جائے بلکہ ان کو تنظیمی طور پر تباہ کر کے اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے جو علی الاعلان پاکستان کو بطور ریاست صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ان جماعتوں میں سر فہرست تھیں جنھوں نے ہر موقع پر طالبان کے خلاف ریاستی اقدامات کی حمایت اس بنیاد پر کی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کا مطلب اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف ہے۔
نہ صرف خیبرپختو نخوا بلکہ کراچی میں '' طالبانزیشن'' اور ''دہشت گردی'' کے معاملے کو فاٹا کے علاقے کے ساتھ جوڑتے ہوئے واویلا مچایا۔ اگر اس قومی کانفرنس سے چند ہفتے پہلے کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیں تو اسلام آباد میں موجود امن کے ان متلاشیوں میں سے بہت سے آپ کو عسکریت پسندوں سے تا حیات جنگ کرنے کے لیے خم ٹھونکتے نظر آتے ہیں۔ یا تو وہ عزم ناقص اور عہد جھوٹا تھا اور یا پھر امن کی موجودہ تلاش میں کوئی بڑا معمہ چھپا ہوا ہے جس کا تعلق ان تمام بیانات سے قطعاً نہیں ہے جو اعلامیے کا حصہ ہیں اور جن کی ڈگڈگی اب اسی جوش و خروش سے بجائی جا رہی ہے جس سے کچھ عرصہ پہلے لڑائی کے طبل بجائے جا رہے تھے۔
سیاستدانوں نے بھی ملک کے دیگر ریاستی اداروں سے یہ فن سیکھ لیا ہے کہ متضاد راستے اختیار کرتے ہوئے یا پٹڑی بدلنے کے عمل کو عوام پر واضح کرنے کے بجائے قومی سلامتی، جمہوریت، ملکی سالمیت اور عوام کی فلاح کے نام پر اتنا جاذب نظر اور پر تعیش بنا دیں کہ کوئی اس کے اصل محرکات کے بارے میں سوچنے پر وقت صَرف نہ کرے۔ جبھی تو کبھی ہم ہندوستان سے تجارت کر رہے ہوتے ہیں اور دہلی کی طرف سے اپنائے گئے ذلت آمیز رویے کو آسانی سے ہضم کر لیتے ہیں اور کبھی ہر وقت جنگ پر تیار رہنے کے قومی فرض کی اہمیت کو اجاگر کرتے نہیں تھکتے۔ کبھی نیٹو کی رسد کے راستے کھولنے کو ''بہترین کامیابی'' قرار دیتے ہیں اور کبھی اس نقل و حرکت کو مکمل طور پر منجمد کر نے پر احساس فخر سے سر بلند کیے نظر آتے ہیں۔ سیاست دانوں نے بھی ایسے ہی گُر اپنا لیے ہیں۔ وہ عناصر جو چند ماہ پہلے اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ بیان کیے جاتے تھے اب ''ہمارے اپنے بھائی'' کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ وہ تمام قربانیاں جو ''اپنی بقا'' کے لیے ناگزیر کہلائی جا رہی تھیں اب ایک خون آلودہ دامن میں تبدیل ہو گئی ہیں جس کو صرف ''پر امن مذاکرات کے مقدس پانی'' سے دھویا جا سکتا ہے۔
بہر حال امن کی کمزور ترین اور اخلاص و یقین کے جذبے سے عاری کوشش کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ امید ترک کی جا سکتی ہے کہ با ت چیت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے اور اس کے پیچھے چنی ہوئی نفرت کی دیواریں اتنی توانا ہیں کہ ان سے ٹکرا کر صرف سر ہی پھوڑا جا سکتا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں عسکریت پسندوں سے امن مذاکرات کے مطالبے کو عملی پالیسی میں تبدیل کرنے کے لیے چند ایک پہلوئوں کو واضح کرنا ہو گا۔ بہت سے ایسے سوال اس مرحلے پر اٹھانے ہونگے جن کو ملتوی کرنے یا پس پشت ڈالنے کی وقتی خواہش آنے والے دنوں میں وبال جان بن سکتی ہے۔
ایک سو ال یہ ہے کہ امن اور با ت چیت کی اِن بھلی با توں کے پیچھے کیا مختلف عسکریت پسند گر وپوں کو خطیر رقوم ادا کر نے کا پلا ن بنا یا جا رہا ہے تا کہ قو می اور صو با ئی ا نتخا با ت کے د و را ن مقا می جماعتو ں کی سر گر میوں میں کسی قسم کا خو نی خلل نہ پڑ ے؟ ا سی سے متعلق دوسرا سو ال یہ ہے کہ ا مر یکہ ان مذ اکر ات کی کو شش میں کس حد تک شر یک ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ چو نکہ واشنگٹن نے اس سال34 ہز ار فو جیو ں کو ا فغا نستا ن کی دلد ل سے نکا لنے کے علا وہ تقر یباً ایک سو بلین کے لگ بھگ مالیت کے جنگی سامان کے ا نخلا ء کا بندوبست کر نا ہے لہٰذا وہ اُن طا لبا ن گر و پو ں کو و قتی طو ر پر ر ضا مند کر نا چاہتا ہے جو واپسی کے راستو ں کو مخدو ش بنا سکتے ہیں۔ بعض ذرایع کا کہنا ہے کہ امریکا اِ س انخلا ء کے لیے ''بھتہ'' دینے کے لیے تیار ہے مگر اُ س کو پاکستا ن کے اندر سے سیاسی مدد درکار ہے تا کہ اُ س کا نا م ( مز ید ) بد نا م نہ ہو۔ اگر یہ خبر درست ہے تو شاید امریکی صدر کی اس ہفتے کی تقر یر اور اسلا م آ باد میں ا من اور بات چیت کی صدائیں ایک دھن پر بننے والے دو نغمے ہو ں۔
تیسر ا سو ال اُ ن کا ر روا ئیو ں کے مستقبل کے بارے میں ہے جو اِ س و قت فاٹا کے مختلف حصو ں میں جاری ہیں اور جن میں سے چند ایک کا تعلق عو امی نیشنل پارٹی کے مرکزی قائد بشیر احمد بلو ر کے قا تلو ں کی تلا ش سے متعلق ہے؟ اِ ن میں سے کو ن سی کارروائیاں جاری رہیں گی اور کو ن سی معطل ہو ں گی؟ عسکریت پسندوں کے کون سے جرائم د ر گزر کیے جائیں گے اور کن کا ا حتساب ہو گا؟ امیر حیدر ہو تی کے قا فلے پر ہو نے والے حملے نے و ا ضح کر د یا ہے کہ د و سر ی طر ف ا من کے حصول کے لیے ا پنی پا لیسی نہیں بد لی جا ئے گی اور سب سے بڑ ھ کر یہ کہ امن کا علم ہا تھ میں اُ ٹھا ئے کو ن کس گروپ کی کو ن سی قیادت کو گلے لگا ئیں؟ اِ ن معا ملا ت کو طے کیے بغیر امن کی تلا ش اند ھیر ے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا ہے۔ د ہشت گردی کے خلاف جنگ میں شر یک ہو تے وقت اُس وقت کے حکمرانوں نے جلد با ز ی کا مظا ہر ہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یہ ملک ایک ایسے راستے پر چل نکلا جہاں پر نہ چا ہتے ہو ئے خون کے د ر یا عبو ر کر نے پڑے۔ اب جب غو طے کھانے کے بعد اور پھو لے ہوئے سانس کے سا تھ سا حل نظر آ رہا ہے تو اگلا قد م انتہائی ا حتیا ط سے اُ ٹھا نا ہوگا۔ جنگ کی طر ح امن کو بھی و قتی سیاست یا امر یکی ضر و رت کی د اشتہ نہیں بننا چاہیے۔