The house of loneliness
زاہدہ حنا، شیر شاہ سوری کے مولد و مدفن سہسرام (بہار) میں پیدا ہوئیں
اس وقت میرے سامنے معروف افسانہ نگار، اظہاریہ نویس اور جرأت مند دانشور زاہدہ حنا کے افسانوں کے انگریزی تراجم کا مجموعہ The House of Loneliness رکھا ہوا ہے۔ اس مجموعے میں ان کے انتہائی مقبول اور فنی اعتبار سے اعلیٰ پائے کے 14افسانوں کے تراجم شامل ہیں ۔ ان افسانوں میں شہنشاہ بانو ، تتلیاں ڈھونڈنے والی، پانیوں میں سراب، ساتویں رات، ابن ایوب کا خواب، منزل کہاں ہے تیری، رقص مقابر ، رانا سلیم سنگھ، کم کم بہت آرام سے ہے اور تنہائی کے مکان میں، جسے اس کتاب کا عنوان دیا گیا ہے۔
ہر افسانے کا ترجمہ انتہائی محنت اور جانفشانی سے کیا گیا ہے۔ زبان و بیان کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ تراجم ہیں یا انگریزی میں تحریرکردہ طبع زاد کہانیاں ۔ ترجمہ کی یہی اصل خوبی ہوتی ہے کہ اس طرح دوسری زبان کے قالب میں ڈھالا جائے کہ اسی زبان میں لکھا گیا محسوس ہو ۔ چونکہ ہم نے ان کے درج بالا تمام افسانے اردو میں پڑھے ہوئے ہیں، اس لیے ہر کہانی کا پس منظر ہمارے ذہن میں موجود تھا ، جب کہ وہ لوگ جو ان افسانوں کو پہلی بار انگریزی میں پڑھیں گے، انھیں گمان تک نہیں ہوگا کہ یہ اردو سے انگریزی کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں۔ یہی ان کی خوبی ہے۔
ان کے افسانوں کے تراجم انگریزی کے علاوہ سندھی، مراٹھی، بنگلہ، گرمکھی، ملیالی اورکڑلی زبانوں میں تراجم کے علاوہ ہندی میں بھی ٹرانس کرایب کیے گئے ہیں۔ ان کے ایک افسانے کا ترجمہ عالمی شہرت یافتہ انقلابی شاعر فیض احمد فیض بھی انگریزی میں کرچکے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوںمیںعام انسانوں کو درپیش مسائل ومصائب کو انتہائی درد مندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ عورتوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کا پورا ادراک رکھتی ہیں، مگر Faminist تحریک کا حصہ بننے کے بجائے وہ حقوق انسانی کی علمبردار بننے کو ترجیح دیتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت کے ساتھ جو ظلم و تشدد ہے، وہ معاشرے کے فرسودہ اور بے رحم نظام کا حصہ ہے۔ جس کا شکار عام مرد بھی ہے ۔ ان کے خیال میں حقوق نسواں دراصل حقوق انسانی ہیں۔ اس لیے حقوق انسانی کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عام انسانوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوجاتے ہیں، توعورتوںکی بھی ان تک رسائی ممکن ہوسکے گی۔
زاہدہ حنا، شیر شاہ سوری کے مولد و مدفن سہسرام (بہار) میں پیدا ہوئیں، لیکن اپنے والد کی ملازمت کے سلسلے میں بچپن کے ابتدائی چند برس ریاست رام پور میں گذارے۔ ابھی بچپن ہی کی حدود میں تھیں کہ تقسیم ہند ہوگئی اور کم سن زاہدہ اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ جہاں ان کے خاندان کو مالیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کہاں رام پور کی پرسکون زندگی، کہاں کراچی میں معاشی مسائل کا سامنا ۔ ان حالات و واقعات نے حساس قلب و ذہن رکھنے والی زاہدہ حنا کے ذہن پرگہرے اثرات مرتب کیے۔ انھوں نے پہلی کہانی 9 برس کی عمر میں لکھی اور 16 برس کی عمر سے تسلسل کے ساتھ لکھ رہی ہیں۔
والد کی بیماری نے بڑی بیٹی ہونے کے ناتے ان کے سر پر خاندان کی کفالت کی ذمے داری بھی ڈال دی۔ ان ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے کم عمری سے ملازمت اور ساتھ ہی اپنے اندر بھڑکتی تخلیقی صلاحیتوں کی آگ کو سینہ قرطاس پر منتقل کرتی رہیں۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیرئیرکا آغاز ہفت روزہ اخبار خواتین سے کیا ۔ عالمی ڈائجسٹ سے ماہنامہ روشن خیال کی ادارت اور پھر مختلف روزناموں میں اظہاریہ نویسی تک انھوں نے طویل مگر کٹھن سفر طے کیا ہے۔ یہ ان کی عظمت ہے کہ اس دوران نہ ان کے قدم لڑکھڑائے نہ ذہنی فرسٹرشن میں مبتلا ہوکر منفی راہ اختیار کی۔ بلکہ اپنے قلم کو اپنی زندگی کی محرومیوں کے اظہار کا ذریعہ بنائے رکھا۔
زاہدہ حنا نہ صرف برصغیر کی صف اول کی افسانہ نگار ہیں، بلکہ صحافت کے میدان میں بھی نمایاں مقام کی حامل ہیں ۔ وہ شعبہ صحافت سے اوائل عمر ہی سے وابستہ ہوگئی تھیں ۔ اخبار خواتین سے عالمی ڈائجسٹ اور پھر ماہنامہ روشن خیال تک انھیں رسائل و جرائد کی ادارت کا وسیع تجربہ ہے۔1988سے اظہاریہ نویسی کررہی ہیں۔ اس صنف میں بھی انھیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کی تحاریر گو کہ تاریخ اور ادب کا نادر نمونہ ہوتی ہیں، مگر حالات حاضرہ اورحقوق انسانی جیسے موضوعات پربھی ان کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔ انھوں نے جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کو درپیش مشکلات اور صنفی اور طبقاتی امتیازات کے بارے میں سیاسی و سماجی شعور اور فکری پختگی کے ساتھ بیشمار اظہاریے تحریر کیے ہیں۔
ان کے مضامین اور اظہاریے پاکستان کے اخبارات ، رسائل اور جرائد کے علاوہ غیر ملکی اخبارات و جرائد میں بھی شایع ہوتے ہیں۔ بھارت کے مقبول ہندی اخبار دینک بھاسکراور اردو نیوز جدہ (سعودی عرب) میں بھی شایع ہوتے رہے ہیں۔ وہ بی بی سی اردو سروس سے بھی متعلق رہی ہیں۔ معروف سندھی اخبار عبرت میں انھوں نے کئی برس تک کالم تحریرکیے۔ 2006سے روزنامہ ایکسپریس میں ہفتے میں دو اظہاریے شایع ہورہے ہیں، جو وسیع تر موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔
زاہدہ حنا کی تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں معروف دانشور انوار احمد لکھتے ہیں '' زاہدہ حنا کی سب سے بڑی تخلیقی قوت ، وہ روشن خیال نقطہ نظر ہے، جو برصغیر کی تاریخ ، تہذیب اور انسانی مستقبل کے حوالے سے کوئی پیچاک نہیں رہنے دیتا۔ وہ خود منقسم ہونے والے خانوادے کے کرب سے گزری ہیں اور پھر ایک باشعور قلمکار کے طورپر دنیا کوگلوبیت کے فریب میں جکڑ کر اسے نسلی، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے تقسیم کرنے والوں کی حکمت عملی سے بھی واقف ہے اور اس امتیاز و استحصال کا نشانہ بننے والے مسلمانوں سے ہمدردی کے باوجود مسلم معاشروں کو پسماندہ رکھنے والی حکمران قوتوں کی نشاندہی کرتی ہے۔''
زاہدہ حنا میرے لیے بڑی بہن اور mentor کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ بات میرے تقریباً سبھی دوستوں کے علم میں ہے کہ اظہاریہ نویسی کی جانب مجھے راغب کرنے میں برادرم ندیم اختر کے ساتھ زاہدہ حنا کا کلیدی کردار ہے۔اس سلسلے میں برادرم بصیر نوید اور ڈاکٹر توصیف احمد خان کا تعاون بھی حاصل رہا ۔ کئی برسوں تک ہر جمعے کو دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ جہاں دوران طعام ادب سے سیاست تک ہر موضوع پرگفتگو ہوا کرتی تھی۔ اب سال بھر سے کچھ ان کی ناسازی طبع اورکچھ اپنی مصروفیات کے باعث یہ سلسلہ گنڈے دار ہوگیا ہے۔ ان کی بیٹی سوہینا اور بیٹا زریوں میرے شاگرد رہے ہیں، جب کہ بڑی بیٹی فینینافرنام اور داماد کامران عباس بھی بے انتہا احترام اور محبت کرتے ہیں۔
زاہدہ حنا ، برصغیر کی معروف قلمکار اوراظہاریہ نویس ہیں، مگر ان کی اصل شناخت ان کے افسانے، ناول، ناولٹ اور تنقیدی مضامین ہیں۔ ان میں کہانی لکھنے کا جو پوٹینشل ہے، وہ عہد حاضر کے بہت کم افسانہ نگاروں میں نظر آتا ہے۔ وہ جس سچائی اور حقیقت پسندی کے ساتھ سماجی برائیوں پر نشتر زنی کرتی ہیں، اس کی ان جیسی جرأت مند اور بیباک خاتون ہی سے توقع کی جاسکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اظہاریہ نویسی نے ان کی افسانہ نگاری کی صلاحیتوں کو خاصی حد تک متاثر کیا ہے۔ کیونکہ ان کی پوری توجہ اظہاریہ نویسی پر مرکوز ہوگئی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ خدا انھیں صحت اور طویل عمر دے تاکہ فرسودگی میں مبتلا اس معاشرے کو اپنی تحریروں کے ذریعے ترقی اور کامرانی کی راہ سجھاتی رہیں۔
ہر افسانے کا ترجمہ انتہائی محنت اور جانفشانی سے کیا گیا ہے۔ زبان و بیان کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ تراجم ہیں یا انگریزی میں تحریرکردہ طبع زاد کہانیاں ۔ ترجمہ کی یہی اصل خوبی ہوتی ہے کہ اس طرح دوسری زبان کے قالب میں ڈھالا جائے کہ اسی زبان میں لکھا گیا محسوس ہو ۔ چونکہ ہم نے ان کے درج بالا تمام افسانے اردو میں پڑھے ہوئے ہیں، اس لیے ہر کہانی کا پس منظر ہمارے ذہن میں موجود تھا ، جب کہ وہ لوگ جو ان افسانوں کو پہلی بار انگریزی میں پڑھیں گے، انھیں گمان تک نہیں ہوگا کہ یہ اردو سے انگریزی کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں۔ یہی ان کی خوبی ہے۔
ان کے افسانوں کے تراجم انگریزی کے علاوہ سندھی، مراٹھی، بنگلہ، گرمکھی، ملیالی اورکڑلی زبانوں میں تراجم کے علاوہ ہندی میں بھی ٹرانس کرایب کیے گئے ہیں۔ ان کے ایک افسانے کا ترجمہ عالمی شہرت یافتہ انقلابی شاعر فیض احمد فیض بھی انگریزی میں کرچکے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوںمیںعام انسانوں کو درپیش مسائل ومصائب کو انتہائی درد مندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ عورتوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کا پورا ادراک رکھتی ہیں، مگر Faminist تحریک کا حصہ بننے کے بجائے وہ حقوق انسانی کی علمبردار بننے کو ترجیح دیتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت کے ساتھ جو ظلم و تشدد ہے، وہ معاشرے کے فرسودہ اور بے رحم نظام کا حصہ ہے۔ جس کا شکار عام مرد بھی ہے ۔ ان کے خیال میں حقوق نسواں دراصل حقوق انسانی ہیں۔ اس لیے حقوق انسانی کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عام انسانوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوجاتے ہیں، توعورتوںکی بھی ان تک رسائی ممکن ہوسکے گی۔
زاہدہ حنا، شیر شاہ سوری کے مولد و مدفن سہسرام (بہار) میں پیدا ہوئیں، لیکن اپنے والد کی ملازمت کے سلسلے میں بچپن کے ابتدائی چند برس ریاست رام پور میں گذارے۔ ابھی بچپن ہی کی حدود میں تھیں کہ تقسیم ہند ہوگئی اور کم سن زاہدہ اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ جہاں ان کے خاندان کو مالیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کہاں رام پور کی پرسکون زندگی، کہاں کراچی میں معاشی مسائل کا سامنا ۔ ان حالات و واقعات نے حساس قلب و ذہن رکھنے والی زاہدہ حنا کے ذہن پرگہرے اثرات مرتب کیے۔ انھوں نے پہلی کہانی 9 برس کی عمر میں لکھی اور 16 برس کی عمر سے تسلسل کے ساتھ لکھ رہی ہیں۔
والد کی بیماری نے بڑی بیٹی ہونے کے ناتے ان کے سر پر خاندان کی کفالت کی ذمے داری بھی ڈال دی۔ ان ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے کم عمری سے ملازمت اور ساتھ ہی اپنے اندر بھڑکتی تخلیقی صلاحیتوں کی آگ کو سینہ قرطاس پر منتقل کرتی رہیں۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیرئیرکا آغاز ہفت روزہ اخبار خواتین سے کیا ۔ عالمی ڈائجسٹ سے ماہنامہ روشن خیال کی ادارت اور پھر مختلف روزناموں میں اظہاریہ نویسی تک انھوں نے طویل مگر کٹھن سفر طے کیا ہے۔ یہ ان کی عظمت ہے کہ اس دوران نہ ان کے قدم لڑکھڑائے نہ ذہنی فرسٹرشن میں مبتلا ہوکر منفی راہ اختیار کی۔ بلکہ اپنے قلم کو اپنی زندگی کی محرومیوں کے اظہار کا ذریعہ بنائے رکھا۔
زاہدہ حنا نہ صرف برصغیر کی صف اول کی افسانہ نگار ہیں، بلکہ صحافت کے میدان میں بھی نمایاں مقام کی حامل ہیں ۔ وہ شعبہ صحافت سے اوائل عمر ہی سے وابستہ ہوگئی تھیں ۔ اخبار خواتین سے عالمی ڈائجسٹ اور پھر ماہنامہ روشن خیال تک انھیں رسائل و جرائد کی ادارت کا وسیع تجربہ ہے۔1988سے اظہاریہ نویسی کررہی ہیں۔ اس صنف میں بھی انھیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کی تحاریر گو کہ تاریخ اور ادب کا نادر نمونہ ہوتی ہیں، مگر حالات حاضرہ اورحقوق انسانی جیسے موضوعات پربھی ان کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔ انھوں نے جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کو درپیش مشکلات اور صنفی اور طبقاتی امتیازات کے بارے میں سیاسی و سماجی شعور اور فکری پختگی کے ساتھ بیشمار اظہاریے تحریر کیے ہیں۔
ان کے مضامین اور اظہاریے پاکستان کے اخبارات ، رسائل اور جرائد کے علاوہ غیر ملکی اخبارات و جرائد میں بھی شایع ہوتے ہیں۔ بھارت کے مقبول ہندی اخبار دینک بھاسکراور اردو نیوز جدہ (سعودی عرب) میں بھی شایع ہوتے رہے ہیں۔ وہ بی بی سی اردو سروس سے بھی متعلق رہی ہیں۔ معروف سندھی اخبار عبرت میں انھوں نے کئی برس تک کالم تحریرکیے۔ 2006سے روزنامہ ایکسپریس میں ہفتے میں دو اظہاریے شایع ہورہے ہیں، جو وسیع تر موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔
زاہدہ حنا کی تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں معروف دانشور انوار احمد لکھتے ہیں '' زاہدہ حنا کی سب سے بڑی تخلیقی قوت ، وہ روشن خیال نقطہ نظر ہے، جو برصغیر کی تاریخ ، تہذیب اور انسانی مستقبل کے حوالے سے کوئی پیچاک نہیں رہنے دیتا۔ وہ خود منقسم ہونے والے خانوادے کے کرب سے گزری ہیں اور پھر ایک باشعور قلمکار کے طورپر دنیا کوگلوبیت کے فریب میں جکڑ کر اسے نسلی، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے تقسیم کرنے والوں کی حکمت عملی سے بھی واقف ہے اور اس امتیاز و استحصال کا نشانہ بننے والے مسلمانوں سے ہمدردی کے باوجود مسلم معاشروں کو پسماندہ رکھنے والی حکمران قوتوں کی نشاندہی کرتی ہے۔''
زاہدہ حنا میرے لیے بڑی بہن اور mentor کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ بات میرے تقریباً سبھی دوستوں کے علم میں ہے کہ اظہاریہ نویسی کی جانب مجھے راغب کرنے میں برادرم ندیم اختر کے ساتھ زاہدہ حنا کا کلیدی کردار ہے۔اس سلسلے میں برادرم بصیر نوید اور ڈاکٹر توصیف احمد خان کا تعاون بھی حاصل رہا ۔ کئی برسوں تک ہر جمعے کو دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ جہاں دوران طعام ادب سے سیاست تک ہر موضوع پرگفتگو ہوا کرتی تھی۔ اب سال بھر سے کچھ ان کی ناسازی طبع اورکچھ اپنی مصروفیات کے باعث یہ سلسلہ گنڈے دار ہوگیا ہے۔ ان کی بیٹی سوہینا اور بیٹا زریوں میرے شاگرد رہے ہیں، جب کہ بڑی بیٹی فینینافرنام اور داماد کامران عباس بھی بے انتہا احترام اور محبت کرتے ہیں۔
زاہدہ حنا ، برصغیر کی معروف قلمکار اوراظہاریہ نویس ہیں، مگر ان کی اصل شناخت ان کے افسانے، ناول، ناولٹ اور تنقیدی مضامین ہیں۔ ان میں کہانی لکھنے کا جو پوٹینشل ہے، وہ عہد حاضر کے بہت کم افسانہ نگاروں میں نظر آتا ہے۔ وہ جس سچائی اور حقیقت پسندی کے ساتھ سماجی برائیوں پر نشتر زنی کرتی ہیں، اس کی ان جیسی جرأت مند اور بیباک خاتون ہی سے توقع کی جاسکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اظہاریہ نویسی نے ان کی افسانہ نگاری کی صلاحیتوں کو خاصی حد تک متاثر کیا ہے۔ کیونکہ ان کی پوری توجہ اظہاریہ نویسی پر مرکوز ہوگئی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ خدا انھیں صحت اور طویل عمر دے تاکہ فرسودگی میں مبتلا اس معاشرے کو اپنی تحریروں کے ذریعے ترقی اور کامرانی کی راہ سجھاتی رہیں۔