’بابوں‘ کی حکمت
اب کون ان دانشوروں کی حکمت بھری باتیں سننے کے لیے جنگلوں کی خاک چھانے
عوامی مقامات پر منعقد ہونے والے ٹی وی کے ٹاک شوز کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے، حکمت اور دانش کے وہ سیلاب رواں ہوتے ہیں کہ تاریخ انسانی کے بڑے سے بڑے دانشور ایسی سوچ اور فلسفہ پیش کرنے میں ناکام ہوجائیں، اگر ان مقامات پر ہونے والی گفتگو اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج پر ذرا بھی غور کریں۔ ایک اسی طرح کے پروگرام کے 'قریب' سے گزر ہوا، شام کے پانچ بجے تھے اور سیٹ لگایا جاچکا تھا، پروگرام آن ایئر ہونے کا وقت رات دس بجے تھا، جب کہ علم و فن سے آراستہ، حکمت و دانش سے پُرمغز دماغ شام سے کرسیوں پر براجمان تھے، جن میں ہر طرح کے طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے 'فارغ' لوگ موجود تھے، جو اپنا سارا دن سڑکوں پر ضایع ہوجانے کے بعد اب ہزاروں لوگوں کا وقت ضایع کرنے کے لیے مکمل تیار تھے۔ اس طرح کی جگہوں پر ہمارے جیسے کم پڑھے لکھے افراد بہت 'رگڑا' کھاتے ہیں، اس لیے ٹھہرنا مناسب نہ لگا اور دل میں ایک معصوم سی آرزو لے کر گھر کی جانب روانہ ہوا اور فیصلہ کیا کہ اس پروگرام کا دیدار ضرور کریں گے، اور کیوں نہ کرتے، ہمارے علاقے کے مسائل حل ہونے والے تھے اس کے ذریعے۔ اس طرح کے پروگرام پسند کرنے کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس میں 'ہر نوع کا بشر' پایا جاتا ہے اور خاص طور پر کچھ حضرات کا علم اور تجربہ تو پاکستان بننے کے بعد سے اب تک کا ہوتا ہے، اور اتفاق سے وہ ہی سب سے بہترین ہوتا ہے۔
پروگرام کا آغاز ہوا، ہر طرح کے مسائل پر گفتگو ہوئی لیکن کمال یہ تھا کہ ہمارے علاقے کے مسائل زیر بحث آتے آتے پتا نہیں کہاں رہ جاتے تھے، تھوڑا غور کرنے پر پتا چلا اس کی وجہ زیادہ تر وہاں پر دائروں میں کھڑے 'بابے' ہوتے تھے۔ اشفاق احمد صاحب کی وجہ سے بابوں سے کچھ انسیت محسوس ہوتی ہے، اور ہم بھی اسی طرح کے 'بابے' کی گہری باتوں کی تلاش میں بہت سے پروگراموں میں 'بابوں' کی زیارت کرچکے ہیں، لیکن اب تک کسی حقیقی بابے تک نہ تو پہنچ ہوئی ہے اور نہ کسی موضوع پر لب کشائی کرتا ہوا کوئی بابا نظر آیا۔
جدید دور کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہمیں ہر چیز قریبی دسترس میں چاہیے۔ اب کون ان دانشوروں کی حکمت بھری باتیں سننے کے لیے جنگلوں کی خاک چھانے، اور کوٹھریوں کے پردوں کے باہر انتظار کرے؟ اس لیے آسان حل یہ ہے کہ جو 'مل' رہا ہے، لے لو۔ خیر ٹاک شو کا میزبان جس کو بے چارہ کہنا غلط ہے، کیونکہ وہ اپنے شوق سے ان 'علمی نوعیت' کے حضرات سے عرف عام میں شعلہ بار مناظرہ لینے آتا ہے، جب کرسیوں پر موجود 'جبری مہمانوں' سے تقریباً بدک جاتا ہے تو سوال کرتا ہے کہ یہاں پر موجود کوئی بزرگ ہیں تو آگے آئیں اور وہ بتائیں کہ اس ملک کے مسائل کیا ہیں اور آپ کے علاقے کے لوگوں کو کن پریشانیوں کا سامنا ہے؟ اس موقع پر وہ کڑیل جوان جو کسی کو 'منہ' تک نکالنے کا موقع نہیں دیتے، کہیں پیچھے سے ایک ستر سال سے اوپر کا 'بابا' ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
جس کی ظاہری حالت ہی مجموعی طور پر انتہائی تشویش ناک ہوتی ہے، کانپتے ہوئے جسم اور لرزتی ہوئی آواز کے ساتھ، بچوں کے شور میں ان کو مائیک تک لایا جاتا ہے، جس کے بعد ان میں وہ توانائی اور علم ایک دم سے عود آتا ہے جس طرح 'پوپائے دی سیلر' کارٹون میں پالک کھانے سے اس کریکٹر میں قوت آجاتی تھی، زیادہ تر اس طرح کے بابے اپنی بات کا آغاز حکومت کو خوب سناکر کرتے ہیں، جس پر مجمعے میں موجود لوگ جو کیمرے، لائٹیں اور دیگر اشیا دیکھ کر 'زبردستی' مہذب ہونے کا ثبوت دے رہے تھے، ان کے اندر کا حقیقی انسان باہر آجاتا ہے اور وہ ٹاک شو کے طلسم ہوش ربا سے باہر نکلتے ہیں، اور زبردست نعروں اور چیخوں سے بابے کی گالی سے 'بھر پور ہمدردی' کا اظہار کرتے ہیں، جس کو میزبان بڑی مشکل سے سنبھالتا ہے اور ایک لمبی سے تقریر کرکے جس میں ملک کے ہر مسئلے کا رونا ہوتا ہے، رو کر پھر سے سوال کرتا ہے کہ بابا اب بتائیں کیا حل ہے ان مسائل کا۔ اس بار پھر بابے کے ہاتھ میں بال اور بیٹ دونوں آجاتے ہیں، لیکن اس دفعہ وہ 'اختیار چھن' جانے کے خطرے سے بڑی ہی نرالی منظق پیش کرتا ہے کہ جس کا تعلق صرف اور صرف بابے کے گھر سے متعلق ہوتا ہے، جیسا کہ اگر اس دن بابے کو پانی کی کمی کا سامنا ہوا ہو تو وہ تمام مسائل کو چھوڑ کر یہ ارشاد فرماتا ہے یہ چور حکومت ہے، ہمارے علاقے کا سارا پانی صدر پی جاتا ہے، جب تک اس محلے کا پانی نہیں آئے گا یہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا، وزیر صاحب نے ہمارا پانی بند کروایا ہے، اسے پھانسی دے دو۔ اس کے بعد پھانسی دو، پھانسی دو کے نعروں کے ساتھ میزبان وقفے پر چلا جاتا ہے۔
اس پروگرام کو دیکھے کافی عر صہ ہوا، لیکن بابے کی یہ منطق ایک بار پھر یوں یاد آئی جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سرکاری بھرتیوں پر پابندی لگائی، اور ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس طرح کارکنان کو نواز کر انتخابی عمل پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ حیرت ہے تمام سیاسی جماعتوں پر، ان کو اتنی بھی عقل نہیں تھی، کس قدر زیادتی ہوئی ہے ان کے کارکنان کے ساتھ، وہ بے چارے انتظار میں تھے کہ جاتے جاتے ہمارا کام تو ہو جائے گا لیکن ان کی امیدوں پر اسی طرح پانی پھر گیا، جس طرح ہمارے کچھ 'انتہائی قابل' دوستوں کے ساتھ ہوا، جن میں خواتین و حضرات کی ایک بڑی تعداد تھی جو ایجوکیشن 'انڈسٹری' میں نوکری کے خواب سجائے امتحانات میں کامیاب ہوئے بیٹھے تھے، اور اس خواہش پر جی رہے تھے کہ ایک دن ڈاکیا ان کا جوائننگ لیٹر لے کر ان کا دروازہ کھٹ کھٹا رہا ہوگا۔ لیکن 'امید' سے ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہر کسی کی گود بھرائی بھی ہو۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس دفعہ الیکشن کمیشن نے یہ جو کارروائی کی ہے اس سے تو لازمی انتخابات صاف وشفاف ہو ہی جائیں گے، کیونکہ گزرے برسوں میں تو پورے ملک میں ایک بھی سیاسی بھرتی نہیں ہوئی ہے اور اب تو ایسا علاج کیا ہے پابندی لگا کر کہ بڑے بڑوں کا دماغ ٹھکانے آجائے گا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے ایک دو اقدامات کرنے سے عوام کو بے وقوف تو بنایا جاسکتا ہے، انتخاب کو صاف نہیں۔ ایک طرف سیاسی جماعتوں کو انتخابی فہرستوں والی 'ٹرک کی بتی' کے پیچھے لگا دیا ہے۔ وہ اس خیال پر زندہ اور تیاریوں میں مصروف ہیں کہ ایک دفعہ یہ فہرستیں ٹھیک ہوجائیں، اور وردی والے بھائی آکر دروازے پر کھڑے ہوجائیں، باقی کام خود نمٹ جائے گا۔ اور دوسری جانب پابندی لگا کر یہ احساس پیدا کیا جارہا ہے کہ تمام کام بحسن و خوبی انجام پارہے ہیں۔ اس طرح کے وقتی مسائل میں لوگوں کو الجھا کر، اور 'ظاہری' صاف و شفاف انتخابات دکھا کر پانچ برسوں کے کارناموں پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔
ان ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سیاسی بھرتیوں کا کیا ہوگا جو پورے سسٹم کو اپنے قابو میں کرچکی ہیں، وہ تمام سیاسی کارکنان جو اس عمل کو 'مزید' صاف کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کی طرف سے ہی اپنے 'فرائض' انجام دے رہے ہیں، وہ سب کس کھاتے میں ڈالے جائیں گے؟ ایک سرکاری دوست کے مطابق جس جگہ تیس افراد کی گنجائش تھی وہاں سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں اقتدار نے اتنی برکت پیدا کردی کہ تین سو افراد وہاں کھپا دیے گئے ہیں، جو اب مستقل ہوگئے ہیں۔ پانچ سال میرٹ کا جنازہ نکلتا رہا، جعلی فہرستیں تیار ہوتی رہیں، کسی کے ماتھے پر شکن نہ تھی۔ الیکشن سے کچھ ماہ پہلے تصدیق کا کام شروع کیا جاتا ہے، جب تک کام مکمل ہو تاریخوں کا اعلان ہوجائے، اور تمام بابے ایک بار پھر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجائیں اور پھر اگلے الیکشن سے پہلے زندہ رہ جانے والا کوئی بابا جو بہت پیچھے کہیں کھڑا ہو اس کو اٹھا کر لایا جائے، اور موٹی سی گالی سے کسی نئے ہو ہو ہاہا کا آغاز کردیا جائے۔