ReplyASAP بگڑے بچوں کو سُدھارنے والی ایپ
ایپ سے جتنے افراد کو تحریری پیغام بھیجا جائے گا ان کی تعداد کی مناسبت سے رقم ادا کرنی ہوگی
لندن کے رہائشی نک ہاربرٹ نے دو سال پہلے اپنے بیٹے کو اسکول میں داخل کروایا تھا۔ بیٹے سے رابطے میں رہنے کے لیے نک نے اسے نیا آئی فون بھی لے کر دیا تھا، مگر اس کا کچھ زیادہ فائدہ یوں نہ ہوا کہ اس کا بیٹا گیری باپ کی کال وصول نہیں کرتا تھا اورنہ ہی تحریری پیغامات کا جواب دیتا تھا.
گیری فون کو سائلنٹ رکھتا تھا اور فارغ وقت کا زیادہ تر حصہ فون پر گیم کھیلنے میں صرف کرتا تھا۔ نک نے کئی بار بیٹے سے کہا کہ وہ اس کی کال وصول کیا کرے اور میسیج کا جواب دیا کرے مگر گیری کی عادت نہیں بدلی۔ اس کی بے پروائی برقرار رہی۔بیٹے کے اس طرزعمل سے تنگ نک نے بالآخر ایک ایسی ایپ ڈیزائن کرنے کا فیصلہ کیا جو اسے باپ کے میسج کا جواب دینے پر مجبور کردے۔
کمپیوٹر پروگرامر ہونے کے باوجود نک کو یہ ایپ ڈیزائن کرنے میں آٹھ ماہ لگ گئے اور ایک موٹی رقم بھی خرچ کرنی پڑی۔ اس کی محنت کا نتیجہ ReplyASAP کی صورت میں سامنے آیا۔ بچوں کے غیرذمہ دارانہ رویے سے تنگ والدین کے لیے یہ ایپ کسی نعمت سے کم نہیں۔ مشرق ہو یا مغرب آج کی نوجوان نسل والدین سے زیادہ اپنے دوستوں کو توجہ دیتی ہے۔ بہرحال مغرب میں بچوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہونے کے باعث والدین کے ساتھ ان کا رویہ نسبتاً زیادہ خراب ہوتا ہے۔ تاہم یہ ایپ انھیں اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کردے گی۔
ReplyASAP بچوں کے اس رویے سے نالاں والدین کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنائی گئی ہے۔ نک نے یہ اپنے اور اپنے تیرہ سالہ بیٹے کے فون میں ڈاؤن لوڈ کر رکھی ہے۔ گیری کال وصول نہ کرے تو نک اسے اس ایپ کے ذریعے میسیج کردیتا ہے۔ اس ایپ کی یہ خوبی ہے کہ میسیج آنے کے بعد یہ فون پر قابض ہوجاتی ہے۔ ایک طرح سے یہ فون کو لاک کردیتی ہے۔ تمام دوسرے فنکشنز آف ہوجاتے ہیں اور اسکرین پر صرف یہ ایپ نظر آتی ہے۔ اب جب تک آنے والے میسیج کا جواب نہیں دیا جائے گا اسکرین پر سے اس کا قبضہ ختم نہیں ہوگا۔ اس طرح یہ ایپ ان بگڑے بچوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں جو والدین کی کال وصول نہیں کرتے اور ان کے تحریری پیغامات کو بھی نظرانداز کردیتے ہیں۔
یہ ایپ مفت ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے مگر اس کا استعمال مفت نہیں ہے۔ ایپ سے جتنے افراد کو تحریری پیغام بھیجا جائے گا ان کی تعداد کی مناسبت سے رقم ادا کرنی ہوگی۔