آئینی اداروں کے محافظ عوام اور عدلیہ
پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے خلاف طاقتور طبقات اور عناصر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
KARACHI:
ملک تیزی سے نئے انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے اور دوسری جانب عوامی حمایت سے محروم بعض سیاسی اور مذہبی طاقت ور غیر جمہوری قوتیں مختلف حیلوں بہانوں سے انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے اس کا جواز پیدا کرنا چاہتی ہیں، یہ ہماری قومی سیاسی تاریخ میں کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ اگر آج طاہرالقادری کو دھرنے اور اس میں اٹھائے گئے غیر آئینی مطالبات میں فوری کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے تب بھی وہ مایوس نہیں ہوئے۔ اپنی اس ناکامی کے بعد انھوں نے مسلسل الیکشن کمیشن کو ہدف تنقید بنانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے مرحلے پر انھوں نے الیکشن کمیشن کی تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ جس کا مقصدکیا ہوسکتا تھا؟ یقیناً یہی کہ الیکشن کمیشن کی تحلیل کے بعد قومی انتخابات وقت مقررہ پر منعقد نہ ہوسکیں اور آئین پر عملدرآمد کی صحت مند روایت کے قائم ہونے کی جو امید پیدا ہوئی ہے وہ ایک بار پھر دم توڑ جائے۔ آج کے عالمی اور علاقائی حالات میں اگر غیر آئینی خواہشات کی تکمیل کا دروازہ ایک بار بند ہوگیا تو پھر اس کا دوبارہ کھلنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔ یہ حقیقت عوامی پذیرائی سے محروم سیاسی و مذہبی قوتوں کے لیے کسی ڈرائونے خواب سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ چنانچہ ایسے ہی عناصر ان سازشوں کا تانا بانا بننے اور عام انتخابات کو ملتوی کرانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے خلاف طاقتور طبقات اور عناصر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 23 مارچ 1956 کو پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا تھا۔ جس کی منظوری کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کیا جاسکا تھا کہ چوہدری محمد علی کی حکومت ختم ہوگئی۔ اس کے بعد ملک فیروز خان نون نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا، جنھوں نے قومی سطح پر پہلی مرتبہ عام انتخابات کا اعلان کیا جس کی تاریخ 2 فروری 1959 مقررکی گئی۔ اس سے قبل کہ عام انتخابات منعقد ہوتے اور ملک میں آئین کی بالادستی میں جمہوری عمل کا آغاز ہوجاتا اور کٹھ پتلی سیاستدانوں کا تماشا لگانے والے طایع آزمائوں کا ریاستی امور میں عمل دخل ختم ہوجاتا، ملک میں فوجی انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اس ''کارِ خیر'' کی خاطر راہ ہموار کرنے کے لیے اس وقت کی مسلم لیگ کے صدر خان عبدالقیوم خان نے مشہور زمانہ راولپنڈی سے لالہ موسیٰ تک ایک طویل جلوس نکالا جسے بہانہ بنا کر فوج نے براہ راست مداخلت کرتے ہوئے مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ مارشل لاء کے نافذ ہوتے ہی 1956 کا آئین منسوخ کردیا گیا۔ اس فوجی آمریت کے بطن سے دوسری فوجی آمریت نے جنم لیا اور فوجی آمریتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور موجودہ پاکستان خطرناک بحرانوں کا شکار ہے۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم مزاج اور رویوں میں جمہوریت پسند واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں چار مرتبہ فوجی آمریتوں نے اپنا تسلط قائم کیا لیکن ہر بار قوم کی زبردست مزاحمت کے باعث بین الاقوامی طاقتوں کی حمایت کے باوجود آمروں کو پہلے مرحلے پر کسی نہ کسی طرح جمہوریت بحال کرنا پڑی جب کہ دوسرے مرحلے پر انھیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ تاہم طویل آمریتوں کی وجہ سے بعض طبقات اور اداروں کے مخصوص سیاسی اور معاشی مفادات بھی پیدا ہوگئے۔ ان طبقات نے پورے شعور کے ساتھ جمہوری نظام کی کمزوریوں کو اجاگر کرکے ہر بار سخت گیر رویے کے حامل غیر جمہوری نظام کے قیام کی وکالت کی۔ تاہم آج کی بدلی ہوئی دنیا اور پاکستان کے اجتماعی سیاسی شعور میں اضافے کی بدولت غیر جمہوری عناصر کھل کر موجودہ جمہوری نظام کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے قاصر ہیں اور اصلاح احوال کے لیے ایک عبوری لیکن غیر آئینی حکومت کی باتیں کررہے ہیں۔ یہ بھی اس ہی ارتقا کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں آزاد و خود مختار عدلیہ موجود ہے جب کہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ حاصل کرنے اور نااہلی پھیلانے والے عناصر کا کڑا احتساب کرنے والا طاقتور میڈیا بھی موجود ہے۔ ملک میں موجودہ جمہوریت قوم کی طویل اور لازوال قربانیو ں کے نتیجے میں بحال ہوئی ہے۔ جس کی آب یاری دو وزرائے اعظم کے لہو، ایک وزیراعظم کی جبری جلاوطنی اور سیاسی کارکنان کی شاندار جدوجہد سے ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ نے طاہرالقادری کی جانب سے الیکشن کمیشن کی تحلیل اور از سر نو تشکیل کے لیے دائر کی گئی درخواست پر تاریخی فیصلہ صادر کرتے ہوئے اسے مسترد کرکے خارج کردیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار اپنا حق دعویٰ اور نیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ طاہرالقادری نے آئین کے آرٹیکل 184-(3) کے تحت درخواست دائر کی تھی، جس پر سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کیونکہ آپ ملکی آئین کے تحت الیکشن لڑنے کے اہل ہی نہیں ہیں لہٰذا کس طرح آپ کا کوئی حق متاثر ہوا؟ طاہرالقادری جوکہ عدلیہ کو ریاست کا اہم اسٹیک ہولڈر قرار دے کر یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ فوج اور عدلیہ کی مشاورت سے نگراں حکومت قائم کی جائے اور دوران دھرنا وزیراعظم کے خلاف آنے والے فیصلے پر سپریم کورٹ کے حق میں نعرے لگوانے والے طاہرالقادری اپنے خلاف فیصلہ آتے ہی سپریم کورٹ پر شدید برہم ہوگئے اور ججز پر الزامات عائد کرنا شروع کردیے جو ان کی شدید جھنجھلاہٹ کا مظہر تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے غیر آئینی اقدامات کی خواہش رکھنے والے عناصر کو بہت ہی واضح انداز میں یہ پیغام مل گیا ہے کہ اب پاکستان میں غیر آئینی اقدامات اٹھانے اور اس کی فوری توثیق کروانے کا زمانہ ختم ہوچکا ہے۔ اب بڑی حد تک یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو متنازع بناکر انتخابات ملتوی کروانے اور اپنی غیر آئینی خواہشات کی تکمیل کا ایجنڈا مکمل نہیں ہو پائے گا۔ فوج اور عدلیہ کو اسٹیک ہولڈرز قرار دے کر ان اداروں کو مہم جوئی پر آمادہ کرنے کی گھنائونی سازش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
ملک کی جمہوریت پسند سیاسی قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اچھی شہرت کے حامل اور دیانتدار شخص کی الیکشن کمیشن کے سربراہ کے طور پر تقرری کو بے جا ہدف تنقید بنا کر اسے متنازع بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جوکہ ایک آئینی ادارے کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے۔ سپریم کورٹ کو دبائو میں لانے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اب اس اہم ترین آئینی ادارے کے خلاف بھی مہم تیز تر کردی جائے گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے سپریم کورٹ کے باہر عدالت عظمیٰ کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ اس سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ ملک کے تمام آئینی اداروں کی ساکھ کو برباد کردیا جائے تاکہ غیر جمہوری سیٹ اپ کا بھرپور جواز پیدا کیا جاسکے۔ تاہم، آج کے دور کی حقیقت یہ ہے کہ جو بھی آئینی اداروں سے ٹکرائے گا وہ خود ہی کو نقصان پہنچائے گا۔ کیونکہ ان اداروں کا تحفظ آئین کرتا ہے اور پاکستان کے عوام، عدلیہ اور جمہوری قوتیں اپنے آئین کی محافظ ہیں۔
ملک تیزی سے نئے انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے اور دوسری جانب عوامی حمایت سے محروم بعض سیاسی اور مذہبی طاقت ور غیر جمہوری قوتیں مختلف حیلوں بہانوں سے انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے اس کا جواز پیدا کرنا چاہتی ہیں، یہ ہماری قومی سیاسی تاریخ میں کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ اگر آج طاہرالقادری کو دھرنے اور اس میں اٹھائے گئے غیر آئینی مطالبات میں فوری کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے تب بھی وہ مایوس نہیں ہوئے۔ اپنی اس ناکامی کے بعد انھوں نے مسلسل الیکشن کمیشن کو ہدف تنقید بنانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے مرحلے پر انھوں نے الیکشن کمیشن کی تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ جس کا مقصدکیا ہوسکتا تھا؟ یقیناً یہی کہ الیکشن کمیشن کی تحلیل کے بعد قومی انتخابات وقت مقررہ پر منعقد نہ ہوسکیں اور آئین پر عملدرآمد کی صحت مند روایت کے قائم ہونے کی جو امید پیدا ہوئی ہے وہ ایک بار پھر دم توڑ جائے۔ آج کے عالمی اور علاقائی حالات میں اگر غیر آئینی خواہشات کی تکمیل کا دروازہ ایک بار بند ہوگیا تو پھر اس کا دوبارہ کھلنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔ یہ حقیقت عوامی پذیرائی سے محروم سیاسی و مذہبی قوتوں کے لیے کسی ڈرائونے خواب سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ چنانچہ ایسے ہی عناصر ان سازشوں کا تانا بانا بننے اور عام انتخابات کو ملتوی کرانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے خلاف طاقتور طبقات اور عناصر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 23 مارچ 1956 کو پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا تھا۔ جس کی منظوری کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کیا جاسکا تھا کہ چوہدری محمد علی کی حکومت ختم ہوگئی۔ اس کے بعد ملک فیروز خان نون نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا، جنھوں نے قومی سطح پر پہلی مرتبہ عام انتخابات کا اعلان کیا جس کی تاریخ 2 فروری 1959 مقررکی گئی۔ اس سے قبل کہ عام انتخابات منعقد ہوتے اور ملک میں آئین کی بالادستی میں جمہوری عمل کا آغاز ہوجاتا اور کٹھ پتلی سیاستدانوں کا تماشا لگانے والے طایع آزمائوں کا ریاستی امور میں عمل دخل ختم ہوجاتا، ملک میں فوجی انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اس ''کارِ خیر'' کی خاطر راہ ہموار کرنے کے لیے اس وقت کی مسلم لیگ کے صدر خان عبدالقیوم خان نے مشہور زمانہ راولپنڈی سے لالہ موسیٰ تک ایک طویل جلوس نکالا جسے بہانہ بنا کر فوج نے براہ راست مداخلت کرتے ہوئے مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ مارشل لاء کے نافذ ہوتے ہی 1956 کا آئین منسوخ کردیا گیا۔ اس فوجی آمریت کے بطن سے دوسری فوجی آمریت نے جنم لیا اور فوجی آمریتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور موجودہ پاکستان خطرناک بحرانوں کا شکار ہے۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم مزاج اور رویوں میں جمہوریت پسند واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں چار مرتبہ فوجی آمریتوں نے اپنا تسلط قائم کیا لیکن ہر بار قوم کی زبردست مزاحمت کے باعث بین الاقوامی طاقتوں کی حمایت کے باوجود آمروں کو پہلے مرحلے پر کسی نہ کسی طرح جمہوریت بحال کرنا پڑی جب کہ دوسرے مرحلے پر انھیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ تاہم طویل آمریتوں کی وجہ سے بعض طبقات اور اداروں کے مخصوص سیاسی اور معاشی مفادات بھی پیدا ہوگئے۔ ان طبقات نے پورے شعور کے ساتھ جمہوری نظام کی کمزوریوں کو اجاگر کرکے ہر بار سخت گیر رویے کے حامل غیر جمہوری نظام کے قیام کی وکالت کی۔ تاہم آج کی بدلی ہوئی دنیا اور پاکستان کے اجتماعی سیاسی شعور میں اضافے کی بدولت غیر جمہوری عناصر کھل کر موجودہ جمہوری نظام کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے قاصر ہیں اور اصلاح احوال کے لیے ایک عبوری لیکن غیر آئینی حکومت کی باتیں کررہے ہیں۔ یہ بھی اس ہی ارتقا کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں آزاد و خود مختار عدلیہ موجود ہے جب کہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ حاصل کرنے اور نااہلی پھیلانے والے عناصر کا کڑا احتساب کرنے والا طاقتور میڈیا بھی موجود ہے۔ ملک میں موجودہ جمہوریت قوم کی طویل اور لازوال قربانیو ں کے نتیجے میں بحال ہوئی ہے۔ جس کی آب یاری دو وزرائے اعظم کے لہو، ایک وزیراعظم کی جبری جلاوطنی اور سیاسی کارکنان کی شاندار جدوجہد سے ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ نے طاہرالقادری کی جانب سے الیکشن کمیشن کی تحلیل اور از سر نو تشکیل کے لیے دائر کی گئی درخواست پر تاریخی فیصلہ صادر کرتے ہوئے اسے مسترد کرکے خارج کردیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار اپنا حق دعویٰ اور نیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ طاہرالقادری نے آئین کے آرٹیکل 184-(3) کے تحت درخواست دائر کی تھی، جس پر سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کیونکہ آپ ملکی آئین کے تحت الیکشن لڑنے کے اہل ہی نہیں ہیں لہٰذا کس طرح آپ کا کوئی حق متاثر ہوا؟ طاہرالقادری جوکہ عدلیہ کو ریاست کا اہم اسٹیک ہولڈر قرار دے کر یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ فوج اور عدلیہ کی مشاورت سے نگراں حکومت قائم کی جائے اور دوران دھرنا وزیراعظم کے خلاف آنے والے فیصلے پر سپریم کورٹ کے حق میں نعرے لگوانے والے طاہرالقادری اپنے خلاف فیصلہ آتے ہی سپریم کورٹ پر شدید برہم ہوگئے اور ججز پر الزامات عائد کرنا شروع کردیے جو ان کی شدید جھنجھلاہٹ کا مظہر تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے غیر آئینی اقدامات کی خواہش رکھنے والے عناصر کو بہت ہی واضح انداز میں یہ پیغام مل گیا ہے کہ اب پاکستان میں غیر آئینی اقدامات اٹھانے اور اس کی فوری توثیق کروانے کا زمانہ ختم ہوچکا ہے۔ اب بڑی حد تک یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو متنازع بناکر انتخابات ملتوی کروانے اور اپنی غیر آئینی خواہشات کی تکمیل کا ایجنڈا مکمل نہیں ہو پائے گا۔ فوج اور عدلیہ کو اسٹیک ہولڈرز قرار دے کر ان اداروں کو مہم جوئی پر آمادہ کرنے کی گھنائونی سازش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
ملک کی جمہوریت پسند سیاسی قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اچھی شہرت کے حامل اور دیانتدار شخص کی الیکشن کمیشن کے سربراہ کے طور پر تقرری کو بے جا ہدف تنقید بنا کر اسے متنازع بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جوکہ ایک آئینی ادارے کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے۔ سپریم کورٹ کو دبائو میں لانے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اب اس اہم ترین آئینی ادارے کے خلاف بھی مہم تیز تر کردی جائے گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے سپریم کورٹ کے باہر عدالت عظمیٰ کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ اس سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ ملک کے تمام آئینی اداروں کی ساکھ کو برباد کردیا جائے تاکہ غیر جمہوری سیٹ اپ کا بھرپور جواز پیدا کیا جاسکے۔ تاہم، آج کے دور کی حقیقت یہ ہے کہ جو بھی آئینی اداروں سے ٹکرائے گا وہ خود ہی کو نقصان پہنچائے گا۔ کیونکہ ان اداروں کا تحفظ آئین کرتا ہے اور پاکستان کے عوام، عدلیہ اور جمہوری قوتیں اپنے آئین کی محافظ ہیں۔