سابق وزیر اعظم مضبوط تر
میاں نواز شریف بھی خود کو جمہوری جماعت کہتے ہیں یہ بھی طلبا اور مزدور انجمنوں پر خاموش ہیں۔
یہ ایک عجیب مذاق ہے کہ نواز شریف کو عملی طور پر سپریم کورٹ سے بر طرف کیے جانے کے بعد وہ مزید مضبوط تر اور نمایاں ہوگئے۔ میاں صاحب تقریباً ساڑھے چار سال ملک پر حکمران رہے۔ ان کے خلاف تحریکیں بھی چلیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ وہ اس تمام عرصے میں وزیر اعظم کے علاوہ وزیرخارجہ بھی رہے اور دوران وزارت خارجہ انھوں نے دو عدد معاونین بھی رکھے مگر وہ اپنی ہی من مانی کرتے رہے۔ عرب خطے کی جنگ میں وہ امریکا نوازی پر قائم رہے۔
شام سے عرب حکمرانوں کی جنگ اولین ترجیح تھی، خصوصاً عرب امارات اور بادشاہوں کی۔ حالانکہ پاکستان سی پیک کا اول رکن ہے۔ چین اور روس اس رہگزر میں صف اول کے رکن ہیں، مگر انھوں نے کبھی بھی یہ نہ سوچا کہ وہ سی پیک کے بانی ہیں اور ان کے مخالفین سی پیک کے مخالف کیمپ میں شامل ہیں۔ جہاں سے '' ڈو مور'' کی آواز بلند ہوتی رہی ہے۔ ڈو مور یعنی افغان جہادیوں کے خلاف مزید عمل کرو کی آوازیں وہی بلند کر رہے ہیں جو خود مجاہدین کے معمار ہیں اور روسی فوج کو نکالنے کے لیے اسلامی انتہا پسندی کی تشکیل میں پیش پیش رہے۔ پاکستان کو انتہا پسندی کا ڈھیر بنا دیا تھا اور صورتحال اس قدر پرخطر ہوچکی تھی کہ ملک خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا گیا تھا۔
یہ زیادہ عرصہ قبل کی بات نہ تھی قریباً ایک سال سے کچھ ہی زیادہ عرصہ گزرا ہوگا کہ ان انتہا پسندوں سے قربت رکھنے میں (ن) لیگ بھی تھی اور بات چیت کا آغاز ہونے کو تھا کہ پشاور آرمی اسکول کا سانحہ معرض وجود میں آیا اور طالبان سے جنگ شروع ہوئی اور اسی جنگ و جدال کی لپیٹ میں کراچی اور دوسرے شہروں کے رہائش پذیر لوگوں کو چین نصیب ہوا۔
فوج کی اس کارروائی کا مقصد اقتدار پر قبضہ نہ تھا بلکہ عوام کو سکھ کا سانس دلانا تھا، مگر جنگ کی جیت اور عوام کا سکھ مل جانے کے بعد نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی میں اختلاف پایا گیا اور اسلامی اتحادی فوج کے عملی راستے پر سینیٹ کے بیشتر لوگوں نے انکار کیا اور ایران سعودی عرب اختلاف میں پاکستان نہ پڑا اور باہر نکل آیا۔
اب صورتحال بالکل بدل چکی ہے اور سعودی عرب کا فی الحال یہ اصرار ہے کہ وہ شام کے صدر کو نہیں مانتا وہاں وہ آزادانہ انتخاب چاہتا ہے۔ ذرا غور فرمائیں بادشاہت اپنے لیے اور جمہور کی آواز دوسرے ملک کے قائدین کے لیے اور امریکی قیادت کی ہر بات کو میاں صاحب من و عن مانتے رہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ امریکا کا جو بھی قریبی ہے میاں صاحب اس کے طرفدار ہیں بلکہ مسٹر ٹرمپ کی سعودی عرب آمد پر میاں صاحب نے ان کا زبردست استقبال کیا گوکہ ان کو اس موقعے پر کوئی خاص اعزاز نہ ملا۔ بظاہر یہ چین چین کی توصیف کرتے ہیں مگر عملی طور پر یہ امریکی عالمی پالیسیوں کے خیر خواہ ہیں اور ان کی پارٹی بھی اسی راستے پر چلتی ہے۔
جب میاں صاحب کو برطرف کردیا گیا تو میاں صاحب کی قیادت پر کوئی فرق نہ پڑا نہ پاکستان کی معاشی پالیسی میں کوئی فرق پڑا نہ ہی داخلی اور خارجہ پالیسی پر بلکہ ان کے حالیہ پارٹی اجلاس جو پارلیمانی پارٹی اجلاس کہلایا اس میں میاں صاحب اور طاقتور حیثیت میں نمایاں نظر آئے۔ ایک قرارداد نمایاں طور پر پیش کی گئی جس میں میاں صاحب کو پارٹی کی کلیدی حیثیت میں دکھایا گیا اور اصل قوت کا منبع قرار دیا گیا۔
ایسی صورت میں ان کو وزارت عظمیٰ سے بظاہر ہٹا کر عوام کے ساتھ ایک مذاق کے علاوہ اور کیا کیا ہے جب کہ عملی طور پر سیاسی، سماجی، خارجی، داخلی، نظم و نسق ان کے اشارے پر ہی چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ میاں صاحب بقول ایک سابق صدر کے وہ گریٹر پنجاب کی لائن چلا رہے ہیں، مگر میں اس فقرے کو صاد نہیں کروں گا کیونکہ انھیں سکھ ملی ٹینٹس کا سامنا کرنا پڑے گا اور میاں صاحب خاندانی پارٹی چلانے کے عادی ہیں۔
جاوید ہاشمی اور دیگر سیاسی کارکنوں کو انھوں نے کوئی حصہ نہ دیا اور وہ سینٹرل پنجاب تک خود کو محدود رکھے ہوئے ہیں۔ ملتان جو سیکڑوں برس قبل سے قیادت کا سرچشمہ تھا۔ آج بھی وہ اپنی مرکزی حیثیت نہ پاسکا۔ لہٰذا گریٹر پنجاب بس ایک نعرہ ہے تاکہ ووٹر قریب تر رہیں۔ یہ صرف باتیں ہیں کیونکہ پنجاب کا ایلیٹ اردو نواز ہے۔ کراچی سے زیادہ کتب لاہور میں چھپتی ہیں اور پڑھی جاتی ہیں اور اردو شاعری کا پنجاب آج بھی مرکز ہے۔ وہ گر مکھی رسم الخط سے مانوس نہیں ہاں پنجاب میں کوئی انقلابی ضرور پیدا ہوسکتا ہے جو ملک کی قسمت بدل ڈالے۔
علامہ اقبال، فیض احمد فیض، حبیب جالب، دادا امیر حیدر پنجاب کی آوازیں ہیں ان کا عمل تفریق نہیں جمع کا نعرہ لگاتا ہے مگر انقلاب کے سوتے خشک کردیے گئے ہیں۔ یا یہ کہیے کہ ان انقلاب کے چشموں پر سیسے کی مہر لگا دی گئی ہے۔ تعلیمی اداروں میں ضیا الحق کی لگائی گئی مہریں آج بھی حکمرانوں نے مزید پختہ کر رکھی ہیں تاکہ نئی قیادت سر نہ اٹھا سکے۔
چیئرمین سینیٹ ہر تقریر میں اسٹوڈنٹس یونین کا نوحہ پڑھتے ہیں مگر یونینیں بحال ہونے سے رہیں۔ اس مسئلے پر لگتا ہے تمام پارٹیاں متفق ہیں۔ کیونکہ سیاسی پارٹیوں نے اپنے ونگ بنا رکھے ہیں جو پارٹیوں کے زیر اثر چلتے ہیں۔ مگر آزاد خیال اور صرف طلبا کے مسائل پر توجہ دینے والی انجمنوں کی سیاسی پارٹیوں کو ضرورت نہیں۔ جیساکہ 1951ء میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس یونین تھی جس نے 1953ء میں طلبا تحریک چلائی اور کراچی میں تعلیم کی آسامیاں پیدا ہوئیں۔ مگر جب یہ کالعدم قرار دی گئی تو این ایس ایف قائم ہوئی جس نے جنرل ایوب خان کی حکومت کو اٹھا کے پھینک دیا اور پھر کسی کو جمنے نہ دیا۔ این ایس ایف نہ صرف داخلہ پالیسی بلکہ خارجہ پالیسی کا بھی اسٹیئرنگ اپنے ہاتھ میں رکھتی تھی۔
ان کی سینٹرل کمیٹی تعلیم یافتہ تھی اور علم و ادب و دانش کے دیپ جلائے رکھتی تھی۔ اگر آج وہ تنظیم زندہ ہوتی تو اے اور او لیول کی تعلیم بھی عام کردی جاتی یا طبقاتی تعلیم کا خاتمہ ہوجاتا۔ شاید ہی این ایس ایف کا کوئی کارکن ہوگا جو سینٹرل کمیٹی آف این ایس ایف میں ہو اور مارشل لا کی قید و بند سے محفوظ رہا ہو۔ لہٰذا میرے یہ جملے ضرور یاد رکھیے کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اسٹوڈنٹس یونین بحال کرنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ سیاسی پارٹیاں مزدور انجمنوں اور کسان تنظیموں کا بازو اور اشیائے صرف کے نرخوں میں اضافے کے لیے رکاوٹ اور تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف ایک ڈھال ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام میں جا بجا رکاوٹ بھی۔ اس لیے سیاسی پارٹیاں 1977ء سے آج تک خاموش ہیں۔
جب کہ سینیٹ کے چیئرپرسن رضا ربانی سال میں کئی بار طلبا یونین کی بحالی کے حق میں تقریریں کرتے رہتے ہیں۔ میاں نواز شریف بھی خود کو جمہوری جماعت کہتے ہیں یہ بھی طلبا اور مزدور انجمنوں پر خاموش ہیں۔ حالانکہ اب وہ انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں اور (ن) لیگ کی صدارت کر رہے ہیں۔ اس وقت میاں صاحب کی برطرفی کے بعد جو امریکی رویہ ہے کہ اب فوجی امداد میں تقریباً بندش اس بات کا عندیہ ہے کہ یہ در پردہ امریکی حمایت ن لیگ کی وفاداری کا مسئلہ ہے۔ مگر اس سے پاکستان کی سیاست میں کوئی واضح تبدیلی نہ آئے گی کیونکہ پاکستان روس اور چین کے لیے نرم گوشہ پیدا کررہا ہے اور خارجہ امور پر ن لیگ کا کنٹرول کمزور تر ہوتا جا رہا ہے اور داخلہ امور میں بھی ن لیگ کا زور کم ہو جانے کا عندیہ مل رہا ہے۔