بچوں کے بعد بڑے بھی گم ہونے لگے
ہمارے ملک میں کسی شہنشاہ کی حکومت تو نہیں ، مگر ایسی جمہوریت بھی نہیں جسے مثالی جمہوریت کا نام دیا جا سکے۔
جمہوری عمل کے تجربے اور بہت سارے ممالک میں جمہوری نظام کے بعد بھی ایسے کئی ممالک موجود ہیں، جہاں خاندانی اور روایتی طرز حکومت قائم ہے اور ایسے ممالک میں بادشاہ کے خاندان یا اس کی پالیسیوں کے خلاف بات کرنا بغاوت میں شمارکیا جاتا ہے۔
ایک اسلامی ملک کی ہی مثال لے لیجیے جہاں حکومت سے اختلاف رکھنے کے جرم میں ایسے تین شہزادوں کی خوفناک کہانیاں میڈیا کے ذریعے ہمارے سامنے آئیں، جنھیں حکومت کی ایما پر راتوں رات غائب کردیا گیا تھا یا انھیں مختلف مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ حکومت وقت سے اختلاف کرنے یا اس پر تنقید کے نتیجے میں غائب ہونے والے شہزادوں کی خبریں تو ہم تک اس لیے پہنچ گئیں کہ وہ اپنے ملک میں بیٹھے بٹھائے لاپتا ہونے والے عام شہری نہیں تھے بلکہ شاہی خاندانوں سے تعلق رکھنے کے علاوہ دنیا کے مہنگے ترین ممالک میں رہائش کی استطاعت بھی رکھتے تھے، لیکن غریب ممالک کے ان شہریوں کا پرسان حال شایدکوئی بھی نہیں جو نہ تو مالدار ہیں اور نہ ہی کسی کھاتے پیتے یا با اثر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک ایسا شخص جس کی عمر پچاس سال بھی زائد ہو، بیمار بھی ہو اور خاندان کی کفالت کا بھی ذمے دار بھی ہو جب گھر سے اچانک غائب ہوجائے تو اس کے بیوی بچوں کے ذہن میں بے شمار سوالات گردش کرسکتے ہیں لیکن اس کے اپنے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی نہ اٹھا ہوکہ اگر ضمیرکے ہاتھوں مجبور ہوکر''نامعلوم افراد'' کے ہاتھوںاٹھائے جانے والے افراد کی آزادی کے لیے میں نے آواز بلند کی تو مجھے اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس لیے کہ ایشیا کے بہت سارے دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ملک کی سیاسی ، سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد جب اس میدان میں اترتے ہیں تو انھیں پہلے سے ہی اس بات کا علم ہوتا ہے۔
برصغیر سے شہنشاہوں اور انگریز وں کے جانے کے بعد بھی ہمارے ملک سمیت یہاں کے کچھ ممالک سے بادشاہت جیسے نظام کا خاتمہ نہ ہو سکا اور وقفے وقفے سے جمہوریت کی گاڑی کو روک کر اس میں اپنی مرضی کاایندھن بھرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ ہمارے ملک میں کسی شہنشاہ کی حکومت تو نہیں ، مگر ایسی جمہوریت بھی نہیں جسے مثالی جمہوریت کا نام دیا جا سکے۔
سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ آمریت کی طویل مدت کے دوران پروان چڑھنے والے بہت سارے نا سمجھ جہاں آمریت کو ہی سب دکھوں کا مداوا سمجھتے ہیں وہاں ہر آمرانہ اور غیر جمہوری اقدام کو جائز قرار دینا بھی ان کی عادت بن چکا ہے شاید اسی وجہ سے تحریر و تقریر اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی دیکھتے ہی دیکھتے اپنے بیوی بچوں کی نظر سے اوجھل کر دیا جاتا ہے۔
تقسیم کے زمانے میں ایک ملک سے دوسرے ملک میں آتے جاتے جہاں ہزاروں بچے اپنے ماں باپ سے بچھڑکر دوبارہ نہ مل سکے وہاں بردہ فروشوں کے ہاتھوں بچوں کے اغوا اور ان سے بیگار لینے کا غم بھی والدین کے دل کا زخم بن گیا ، پھر یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ دہشت گردوں نے بچوں اور نوجوانوں کو اغوا کرکے انھیں خود کش حملہ آورکی ٹریننگ دینا شروع کر دی ہے اور ایسے بہت سارے واقعات دیکھنے کو بھی ملے جن میں کم عمر خود کش حملہ آوروں نے اپنے ساتھ کئی افراد کو خاک اور خون میں ملا دیا ، اس کے باوجود کچھ بچھڑے ہوئے بچوں کی ماؤں کی اس آس نے دم نہ توڑا کہ ان کے بچے کسی نہ کسی دن ان سے ضرور آ ملیں گے۔
آزادی کے بعد لوگوں نے یہ سوچا تھا کہ اب ہمارے حقوق کی پاسداری اس ریاست کا فرض ہے جسے ہم اپنی ماں کا درجہ دیتے ہیں، لیکن انھیں یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کہ اسی ریاست میں بچوں کے بعد بڑے بھی لاپتا ہونے لگے ہیں۔ لوگوں کے لاپتا ہونے کا سلسلہ جب بلوچستان سے شروع ہوا تو متاثرہ خاندانوں نے اپنے عزیزوں کی بازیابی کے لیے اسلام آباد تک پیدل سفر بھی کیا ۔
لاپتا افراد کی تعداد میں اضافے کی خبروں کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں اور پروگرام منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا، مگرایسی ہی ایک اہل قلم کانفرنس کے دوران لاپتا افراد کا پتا کرتے کرتے انسانی حقوق کا ایک کارکن خود لاپتا ہوگیا جس کی گمشدگی سے ایک اشارہ تو یہ ملتا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد چپ چاپ اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں اور دوسرا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کے مقتدر حلقوں سے نہ تو کوئی شخص اختلاف کرسکتا ہے اور نہ ہی ان سے کوئی سوال پوچھ سکتا ہے ۔
ملک کی موجودہ صورت حال میں اگر ہماری سیاسی پارٹیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نظر چرا کراقتدارکی دوڑ میں ہی شریک رہیں تو مستقبل میں نہ ہی کوئی مضبوط حکومت بر سر اقتدار آ سکتی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق سے جڑے مسائل میں کمی ممکن ہے۔ امریکا کی نئی جنوب ایشائی پالیسی کے اعلان اور دھمکیوں نے اس خطے کی صورت حال کو ایک دفعہ پھر ڈانواں ڈول کردیا ہے۔ اس صورت حال میں جہاں خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہاں داخلی طور پر اپنے شہریوں کی آزادی اور خوش حالی کی بھی اشد ضرورت ہے ورنہ ترقی کا جو خواب آج کل عوام کو دکھایا جا رہا ہے، اس کی سنہری تعبیر کے لیے طویل انتظار کرنا پڑے گا۔