بے مقصد بڑی کابینہ

18 ویں ترمیم سے قبل اور منظوری کے بعد بھی وفاق اور صوبوں میں لا تعداد وزیروں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا


Muhammad Saeed Arain August 25, 2017

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وزیروں کی تعداد 47 ہوگئی ہے، جب کہ دو مزید وزیروں کی ابھی گنجائش باقی ہے اور یہ تعداد اٹھارہویں ترمیم کے مطابق طے شدہ تعداد ہوگی۔

18 ویں ترمیم سے قبل اور منظوری کے بعد بھی وفاق اور صوبوں میں لا تعداد وزیروں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا اور انتخابات سر پر تھے اس لیے 18 ویں ترمیم کے وقت طے کرلیا گیا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد جو حکومتیں قائم ہوں گی ،آئینی ترمیم کا اطلاق اس پر ہوگا۔ اس لیے مارچ 2013 تک پنجاب کے سوا وفاق اور باقی تین صوبوں میں سیکڑوں وزیر وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے اور سرکاری خزانے پر عیش کرتے رہے۔ 18 ویں ترمیم کے نتیجے میں ہر جگہ وزیروں کی تعداد تو محدود ہوگئی تو وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ نے اپنوں کو نوازنے کے لیے نئے طریقے ڈھونڈ لیے اور وزیروں، وزرائے مملکت، صوبائی وزیروں کے علاوہ مشیر اور معاونین خصوصی کی بھرتی جاری رہی۔

بلوچستان حکومت کا 2013 سے پہلے یہ منفرد ریکارڈ بھی بنا کہ وہاں صرف ایک رکن کے سوا تمام ارکان اسمبلی بلوچستان حکومت کا حصہ تھے، اس سب سے چھوٹے اور پس ماندہ صوبے میں اس سے قبل بھی یہی ہوتا رہا کیونکہ بلوچستان کی سیاست اور قبائلی صورتحال ایسی رہی ہے کہ وہاں زیادہ سے زیادہ وزیر، مشیر اور معاونین خصوصی بناکر سب کو نوازنا وزیراعلیٰ کی سیاسی مجبوری رہی ہے ۔ اس لیے ہر دور میں بلوچستان میں وزیروں کی تعداد دیگر صوبوں سے زیادہ رہی ہے اور بلوچستان میں کرپشن کے نئے نئے ریکارڈ بھی قائم ہوئے جس کا واضح ثبوت بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ کے گھر سے اربوں روپے مالیت کی رقم بر آمدگی ہے۔

2013کے بعد وفاق اور پنجاب میں وزیروں کی تعداد کم رکھی گئی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے حسب سابق اپنی کابینہ میں کم وزیر رکھے جس پر پنجاب کے ارکان اسمبلی ناراض بھی رہے جس کے بعد وہاں بھی وزیروں کی تعداد بڑھانا پڑی مگر سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اب بھی صرف دو مشیر ہیں۔

2013 کے بعد سندھ میں وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی تعداد سب سے زیادہ رہی کیونکہ آصف علی زرداری اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ فیاض اور دوست نواز ہیں۔ 2008 کے بعد وزیراعلیٰ سندھ تو قائم علی شاہ تھے مگر مرحوم پیر پگارا کے بقول سندھ میں چار وزیراعلیٰ تھے جو سندھ میں نہایت با اثر اور با اختیار تھے جن میں ایک زرداری صاحب کو اپنے عروج کے دور میں ہی چھوڑ گئے تھے، دوسرے بعد میں اسپیکر بنے، تیسرے کو ٹکٹ نہ ملا اور وہ اب غیر قانونی بھرتیوں کے کیس بھگت رہے ہیں ۔ قائم علی شاہ کے بعد مراد علی شاہ کی وزارت اعلیٰ میں سندھ میں معاونین خصوصی اور مشیروں کو وزیروں کی طرح وزارتوں سے نوازا گیا اور غیرمنتخب لوگ بھی سندھ کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے جو بعد میں سندھ ہائی کورٹ سے غیر قانونی قرار پائے۔

پہلے محکموں کی طرح وزیروں کی تعداد کم ہوتی تھی مگر سیاسی حکومتوں نے اپنے لوگوں کو نوازنا ضرور ہوتا تھا اس لیے ڈبل محکمے الگ کیے گئے کیونکہ پہلے ایک سے زیادہ وزیروں کو محکمے دیے جاتے تھے مثلاً خوراک و زراعت، صنعت و تجارت مگر بعد میں نہ صرف ڈبل محکمے ختم کیے گئے بلکہ وفاق اور صوبوں میں محکمے توڑنے کے علاوہ نئے محکمے بھی بنائے گئے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے تو زیادہ سے زیادہ محکمے اپنے پاس رکھنے کا ریکارڈ بھی بنایا تھا اور نواز شریف نے تو وزارت خارجہ ہی اپنے پاس رکھی اور چار سالوں میں سو کے لگ بھگ غیر ملکی دورے کیے اور نا اہلی سے قبل بھی مالدیپ گھوم آئے۔

وفاقی حکومت میں پہلے جو محکمہ مواصلات ہوتا تھا اس میں مواصلات کے ساتھ جہاز رانی، ڈاکخانہ جات و ٹیلی فون اور ریلوے بھی شامل ہوتا تھا مگر سیاسی حکومتوں میں محکمے کم پڑتے رہے اور محکموں کو توڑ توڑ کر الگ الگ وزارتیں بناکر اپنوں اور حلیفوں کو نوازا جاتا رہا اور سرکاری خزانہ اور عوام کے خون پسینے کی کمائی کا خیال کسی کو نہ آیا۔ آئینی گنجائش نہ ہوتے ہوئے زرداری صاحب نے ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ تخلیق کیا تو میاں نواز شریف نے اسحاق ڈار کو غیر اعلانیہ اپنا نائب بنائے رکھا اور وہ تھے تو وزیر خزانہ مگر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا اعلان بھی خود کرتے تھے اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین، نجکاری کمیشن کے سربراہ اور اقتصادی رابطہ کمیٹی میں بھی شامل تھے ۔

بڑی بڑی کابیناؤں نے ملکی معیشت اور صوبوں کی مالی حالتیں تباہ کرنے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا اور یہ ملک و قوم پر بھی بوجھ بنی ہوئی ہیں کیونکہ سیاسی حکومتوں نے اپنے حامیوں کو سیاسی رشوتیں دینا ہوتی ہیں اور ایک بار جو وزیر بن جائے اس کے خاندان ہی کے نہیں بلکہ دوستوں اور حلقہ احباب کے جاننے والوں کے بھی وارے نیارے ہوجاتے ہیں اور مال کما کماکر وزرا ہی نہیں ان کے عزیزوں اور دوستوں تک کے مقدر سنور جاتے ہیں اور کبھی کبھی ان وزیروں، مشیروں کا حشرکچھ بہتر نہیں ہوتا ہے۔

بڑی کابیناؤں سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ بوجھ اور سیاسی ضرورت بنی ہوئی ہے۔ اسلام آباد میں قومی اسمبلی اور سینیٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے جہاں وزیراعظم سمیت تمام وزیروں اور خاص کر متعلقہ وزیروں کی موجودگی ضروری ہے اور آئین کے مطابق مقررہ تعداد میں سینیٹروں کو وفاقی وزیر یا وزیر مملکت بھی بنایا جاتا ہے مگر وفاق میں وزیروں کا یہ حال ہے کہ وہ سینیٹ کو تو کیا قومی اسمبلی ہی کو اہمیت نہیں دیتے اور ارکان متعلقہ وزارتوں سے متعلق جو سوالات پوچھتے اور معلومات چاہتے ہیں ان کے جوابات خود دینے کے لیے متعلقہ وزیر ایوان میں نہیں آتے اور موجود دیگر غیر متعلقہ وزیروں کو ان کی طرف سے جواب دینا پڑتے ہیں اور متعلقہ وزیروں کی ایوان سے غیر حاضری اور عدم دلچسپی کے باعث ارکان مہینوں اپنے سوالات کے جوابات سے محروم رہتے ہیں دونوں ایوانوں میں وزیروں کی غیر حاضری اور عدم دلچسپی پر متعدد بار اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ برہمی کا بھی اظہار کرچکے ہیں مگر وزیر پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ہر محکمے کا وزیر اور سیکریٹری ہوتا ہے۔ سیکریٹری سرکاری اور مستقل ہوتے ہیں جب کہ وزیر عارضی اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے وزیروں کو اپنے محکمے کے سیکریٹریوں سے بناکر رکھنا پڑتی ہے۔ پاکستان میں قابل لوگوں کی بجائے خوشامدی اور من پسند لوگوں کو وزیر بنایا جاتا ہے انھیں اپنے محکموں سے زیادہ سرکاری گاڑی پر جھنڈے، پروٹوکول، خوشامد اورکمائی کی زیادہ فکر ہوتی ہے اور ایسے وزیروں کو ان کے سیکریٹری نہ صرف اپنے اشاروں پر چلاتے ہیں بلکہ غیر قانونی کاموں اور کمائی کے راستے بھی بتاتے ہیں مگر وہ اپنے ہاتھ پاؤں بچا کر رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں وقت آنے پر پھنستا وزیر ہے اور سیکریٹری ہمیشہ بچ جاتا ہے جس کی ایک مثال سندھ میں متعدد سابق ہی نہیں بلکہ موجودہ وزیر بھی ہیں جن پر کیس بھی چل رہے ہیں مگر وہ اب بھی وزارتوں پر موجود ہیں ، جن پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ کرپشن میں کے پی کے، کے وزیر بھی سندھ سے مختلف نہیں ہیں۔

وفاقی اور صوبائی وزرا اپنے ایوانوں سے زیادہ اپنے دفاتر میں خوش گپیوں میں مصروف ملتے ہیں یا دعوتوں میں، اپنے ووٹروں سے ملنے کا وقت انھیں کم ہی ملتا ہے۔ اپنے قائدین کی بھی انھیں خوشامد کرنا پڑتی ہے کیونکہ کابیناؤں میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار جیسے لوگ کم ہی ملیںگے زیادہ تعداد خوشامدیوں ہی کی ملتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں