ایک کالم یاور مہدی کے نام
اس مقالے کا پورا نام ’’ہم کا استعارہ‘‘ یاور مہدی، سوانح اور کارنامے ہے۔
آرٹس کونسل کراچی کے اوپن ایئر تھیٹر میں ایک اہم کتاب ''ہم کا استعارہ'' کی رسم اجرا ہوئی۔ جس کے مصنف سید عون عباس ہیں اور یہ کتاب ان کے شعبہ ابلاغ عامہ کے لیے ماسٹرزکا مقالہ ہے۔ اس مقالے کا پورا نام ''ہم کا استعارہ'' یاور مہدی، سوانح اور کارنامے ہے۔ یہ کتاب کراچی کی ہردلعزیزاور کئی نسلوں کی شخصیت ساز، جن کے تربیت یافتہ افراد نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی بے حد فعال، پراعتماد اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین ہونے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کا نام روشن کر رہے ہیں۔
یاور بھائی کا یہ تعارف میں سمجھتی ہوں کہ ابھی تشنہ تکمیل ہے۔ کیونکہ یاور مہدی نہ صرف ریڈیو پاکستان کراچی (کچھ عرصہ خضدار میں بھی) بلکہ کراچی آرٹس کونسل میں بھی اخلاقی اقدار، ادب و فن، معاشرتی اصلاح اور شخصیت سازی کے حوالے سے بے حد فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ہم کیونکہ اپنے اظہاریے میں یاور بھائی کی نابغہ روزگار شخصیت کے بارے میں نہیں بلکہ اس تقریب کے بارے میں لکھ رہے ہیں جو ان پر لکھی گئی کتاب کے اجرا کے سلسلے میں منعقد ہوئی۔
تقریب کی صدارت سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی نے کی جب کہ نظامت کا فریضہ محترمہ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے اپنے مخصوص و دل نشیں انداز میں ادا کیا۔ کتاب پر اظہار خیال کرنے والوں میں نسرین پرویز، پروفیسر اعجاز فاروقی، انیس زیدی، ڈاکٹر نثار احمد زبیری، جاوید اقبال، خوش بخت شجاعت، ڈاکٹر پروفیسر شاداب احسانی، کتاب کے مصنف سید عون عباس اور دیگر مقررین نے یاور مہدی کی شخصیت اورکارناموں کو ازسر نو تازہ کیا، اپنے اپنے انداز اور تجربے کے لحاظ سے۔
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبولؐ پیش کرنے کی سعادت تحریم منیبہ شیخ نے اپنی دلکش آواز میں حاصل کی۔ اس کے بعد نسرین پرویز نے اپنی گفتگو میں یاور بھائی سے اپنی دیرینہ عقیدت اور ان کے انداز رہنمائی کو سراہتے ہوئے ماضی کی مشہور مقررہ زلیخا واحد، جو اب زلیخا یوسف ہیں کے طویل تحریری اظہار عقیدت جو انھوں نے امریکا سے بطور خاص اس تقریب کے لیے بھیجا تھا سے دو مختصر اقتباس پڑھ کر سنائے جس میں موصوفہ نے کہا تھا کہ بہت سی شخصیات اہم اور قابل احترام ہوتی ہیں مگر ان میں یاور بھائی ایسی اہم شخصیت ہیں جو معاشرے کا جھومر ہیں یہ سب کی پسندیدہ شخصیت ہیں کیونکہ انھوں نے کراچی ہی نہیں کراچی سے باہر ان کے پروگرامز سننے والوں تک رہنمائی کی اور صلاحیتوں کو جلا بخشی ہے۔ اعتماد اور اظہار رائے، آزادی فکر کی دولت سے مالا مال کیا۔
جو باالواسطہ معاشرے کو سنوارنے اور نکھارنے کا عمل تھا اس اقتباس کو پڑھنے کے علاوہ نسرین پرویز نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یاور بھائی نے نوجوانوں کی کردار و شخصیت سازی کے ذریعے گویا معاشرے کی مثبت تعمیر کا فریضہ ادا کیا۔ ان کے تربیت یافتہ طلبا نے زندگی اور معاشرے کے ہر شعبے میں اعلیٰ اخلاقی، ادبی اور انتظامی خدمات خوش اسلوبی سے انجام دیں۔
بعد میں ایوان کی جانب سے مشترکہ قرارداد پیش کی گئی کہ یاور مہدی کو کسی اعلیٰ پاکستانی اعزاز سے نوازا جائے۔ جس پر تقریب کی ناظمہ نے کہا یاور بھائی کا سب سے بڑا اعزاز ان کی مقبولیت ہے پورے ملک بلکہ دنیا بھر میں ان کو چاہنے والوں کی محبت سے بڑا کیا اعزاز ہوسکتا ہے۔ پروفیسر اعجاز فاروقی (صدر آرٹس کونسل) نے یاور بھائی کی خدمات کو مختصراً یوں بیان کیا کہ شاید ہی کوئی اہم لیڈر، معتبر شخصیت، شاعر و ادیب ہو جس نے ''بزم طلبا'' سے استفادہ نہ کیا ہو۔ جن میں رضا ربانی بھی شامل ہیں۔ ۔
کتاب کے نوجوان مصنف سید عون عباس نے پہلے تو کتاب کے نام ''ہم کا استعارہ'' پر اظہار خیال کیا جس کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ یاورمہدی نے اتنے افراد کو بنایا سنوارا، سکھایا ان کے گرد اتنے لوگ اور ان سے محبت کرنے، عقیدت رکھنے اور استفادہ کرنے کے دعویدار اتنے ہیں کہ وہ ''میں'' نہیں ہم ہی ہوسکتے ہیں۔ براڈ کاسٹنگ کے شعبے میں دنیا بھر کی اردو سروس پر یاور بھائی کے شاگرد چھائے ہوئے ہیں، یاور بھائی ایسی شخصیت ہیں جنھوں نے بلاامتیاز خلوص اور بے غرضی سے ''سب کو سب کچھ بنادیا۔''
پروفیسر انیس زیدی نے کہا کہ کوئی ادارے بناتا ہے، کوئی صنعتیں لگاتا ہے کوئی فلاحی ادارے یتیم خانے بناتا ہے، مگر یاور مہدی شخصیت بناتے ہیں جو ان سب صنعتی فلاحی اداروں کے لیے کام کرتے ہیں۔ یاور بھائی وہ شجر سایہ دار ہیں جن کی چھاؤں میں سب کو سکون ملتا ہے، مگر خود شجر دھوپ اور موسم کی سختیاں برداشت کرتا ہے۔ بقول انیس زیدی کے باتیں تو لوگ بہت کرتے ہیں مگر عمل کچھ نہیں۔
بات کرنے سے کچھ نہیں ہوتا
کام کرنے سے بات بنتی ہے
جاوید اقبال نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ ادارے ہی نہیں رہے جو آدمی کو انسان بناتے تھے جس میں سب سے معتبر اور فعال ادارہ یاور مہدی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ سے کہوں گا کہ وہ تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز بحال کرائیں، تاکہ طلبا اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایک بار پھر معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ یاور مہدی نے نسلوں کی تربیت کی شخصیتوں کو بنانے اور نکھارنے کا کام بخوبی ادا کیا، اس کام میں ان کا مقصد دراصل معاشرے کو نکھارنے اور سنوارنے سے متعلق تھا لہٰذا یاور بھائی کا کام یک رخی کے بجائے کئی جہات رکھتا ہے۔ پروفیسر نثار احمد زبیری نے فرمایا کہ میں ایک روزنامے میں بچوں کے صفحے کا انچارج تھا۔
یاور بھائی باصلاحیت افراد کی تلاش میں رہتے ہی تھے آج یاور بھائی کے لیے یہ تقریب ہمارے لیے خوشی کا موقع ہے کہ یاور بھائی نے ہمیں آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم کیے ۔ یاور مہدی نے اپنی پوری زندگی ریڈیو میں بتا دی۔ انھوں نے دن رات کام کیا اور ایسے لوگ تیار کیے جو آج بھی ہر شعبہ زندگی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فی البدیہہ مباحثے اور مشاعرے کرائے جس سے طلبا میں ہر موضوع پر بولنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے کہ بات کرو تاکہ تم پہچانے جاؤ۔ آج لوگوں کو میڈیا پر بات کرتے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ کاش یہ یاور مہدی کے شاگرد ہوتے۔ کچھ ان سے سیکھا ہوتا۔
ملک میں ایک دور ریڈیو کا ہی تھا۔ اخبارات اور ریڈیو ہی ذرایع ابلاغ تھے۔ ریڈیو کا دائرہ اثر اخبارات سے زیادہ تھا ناخواندہ افراد بھی ریڈیو سنتے اور سمجھتے تھے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں ریڈیو کی رسائی تھی۔ جب پاکستان میں ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو وہاں بھی ریڈیو کے تربیت یافتہ افراد ہی چھائے ہوئے تھے۔ ریڈیو ایک بنیادی تربیتی ادارے کا مقام رکھتا تھا۔ کراچی سینٹر پر تو صد فی صد یاور بھائی کے شاگرد بطور پروڈیوسر ہدایات کار، اداکار، گلوکار سب ہی کچھ تھے ریڈیو کا دور، معاشرتی، اخلاقی، ادبی و ثقافتی دور تھا۔ والدین و اساتذہ طلبا سے کہتے تھے کہ اگر درست زبان اور انداز گفتگو سیکھنا ہے تو ریڈیو سنا کرو۔ جب کہ آج کہا جاتا ہے کہ اگر لب و لہجہ اور اخلاق بگاڑنا ہے تو ٹی وی دیکھا کرو۔ آخر میں بس یہی کہوں گی ''ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے''۔
یاور بھائی کا یہ تعارف میں سمجھتی ہوں کہ ابھی تشنہ تکمیل ہے۔ کیونکہ یاور مہدی نہ صرف ریڈیو پاکستان کراچی (کچھ عرصہ خضدار میں بھی) بلکہ کراچی آرٹس کونسل میں بھی اخلاقی اقدار، ادب و فن، معاشرتی اصلاح اور شخصیت سازی کے حوالے سے بے حد فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ہم کیونکہ اپنے اظہاریے میں یاور بھائی کی نابغہ روزگار شخصیت کے بارے میں نہیں بلکہ اس تقریب کے بارے میں لکھ رہے ہیں جو ان پر لکھی گئی کتاب کے اجرا کے سلسلے میں منعقد ہوئی۔
تقریب کی صدارت سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی نے کی جب کہ نظامت کا فریضہ محترمہ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے اپنے مخصوص و دل نشیں انداز میں ادا کیا۔ کتاب پر اظہار خیال کرنے والوں میں نسرین پرویز، پروفیسر اعجاز فاروقی، انیس زیدی، ڈاکٹر نثار احمد زبیری، جاوید اقبال، خوش بخت شجاعت، ڈاکٹر پروفیسر شاداب احسانی، کتاب کے مصنف سید عون عباس اور دیگر مقررین نے یاور مہدی کی شخصیت اورکارناموں کو ازسر نو تازہ کیا، اپنے اپنے انداز اور تجربے کے لحاظ سے۔
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبولؐ پیش کرنے کی سعادت تحریم منیبہ شیخ نے اپنی دلکش آواز میں حاصل کی۔ اس کے بعد نسرین پرویز نے اپنی گفتگو میں یاور بھائی سے اپنی دیرینہ عقیدت اور ان کے انداز رہنمائی کو سراہتے ہوئے ماضی کی مشہور مقررہ زلیخا واحد، جو اب زلیخا یوسف ہیں کے طویل تحریری اظہار عقیدت جو انھوں نے امریکا سے بطور خاص اس تقریب کے لیے بھیجا تھا سے دو مختصر اقتباس پڑھ کر سنائے جس میں موصوفہ نے کہا تھا کہ بہت سی شخصیات اہم اور قابل احترام ہوتی ہیں مگر ان میں یاور بھائی ایسی اہم شخصیت ہیں جو معاشرے کا جھومر ہیں یہ سب کی پسندیدہ شخصیت ہیں کیونکہ انھوں نے کراچی ہی نہیں کراچی سے باہر ان کے پروگرامز سننے والوں تک رہنمائی کی اور صلاحیتوں کو جلا بخشی ہے۔ اعتماد اور اظہار رائے، آزادی فکر کی دولت سے مالا مال کیا۔
جو باالواسطہ معاشرے کو سنوارنے اور نکھارنے کا عمل تھا اس اقتباس کو پڑھنے کے علاوہ نسرین پرویز نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یاور بھائی نے نوجوانوں کی کردار و شخصیت سازی کے ذریعے گویا معاشرے کی مثبت تعمیر کا فریضہ ادا کیا۔ ان کے تربیت یافتہ طلبا نے زندگی اور معاشرے کے ہر شعبے میں اعلیٰ اخلاقی، ادبی اور انتظامی خدمات خوش اسلوبی سے انجام دیں۔
بعد میں ایوان کی جانب سے مشترکہ قرارداد پیش کی گئی کہ یاور مہدی کو کسی اعلیٰ پاکستانی اعزاز سے نوازا جائے۔ جس پر تقریب کی ناظمہ نے کہا یاور بھائی کا سب سے بڑا اعزاز ان کی مقبولیت ہے پورے ملک بلکہ دنیا بھر میں ان کو چاہنے والوں کی محبت سے بڑا کیا اعزاز ہوسکتا ہے۔ پروفیسر اعجاز فاروقی (صدر آرٹس کونسل) نے یاور بھائی کی خدمات کو مختصراً یوں بیان کیا کہ شاید ہی کوئی اہم لیڈر، معتبر شخصیت، شاعر و ادیب ہو جس نے ''بزم طلبا'' سے استفادہ نہ کیا ہو۔ جن میں رضا ربانی بھی شامل ہیں۔ ۔
کتاب کے نوجوان مصنف سید عون عباس نے پہلے تو کتاب کے نام ''ہم کا استعارہ'' پر اظہار خیال کیا جس کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ یاورمہدی نے اتنے افراد کو بنایا سنوارا، سکھایا ان کے گرد اتنے لوگ اور ان سے محبت کرنے، عقیدت رکھنے اور استفادہ کرنے کے دعویدار اتنے ہیں کہ وہ ''میں'' نہیں ہم ہی ہوسکتے ہیں۔ براڈ کاسٹنگ کے شعبے میں دنیا بھر کی اردو سروس پر یاور بھائی کے شاگرد چھائے ہوئے ہیں، یاور بھائی ایسی شخصیت ہیں جنھوں نے بلاامتیاز خلوص اور بے غرضی سے ''سب کو سب کچھ بنادیا۔''
پروفیسر انیس زیدی نے کہا کہ کوئی ادارے بناتا ہے، کوئی صنعتیں لگاتا ہے کوئی فلاحی ادارے یتیم خانے بناتا ہے، مگر یاور مہدی شخصیت بناتے ہیں جو ان سب صنعتی فلاحی اداروں کے لیے کام کرتے ہیں۔ یاور بھائی وہ شجر سایہ دار ہیں جن کی چھاؤں میں سب کو سکون ملتا ہے، مگر خود شجر دھوپ اور موسم کی سختیاں برداشت کرتا ہے۔ بقول انیس زیدی کے باتیں تو لوگ بہت کرتے ہیں مگر عمل کچھ نہیں۔
بات کرنے سے کچھ نہیں ہوتا
کام کرنے سے بات بنتی ہے
جاوید اقبال نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ ادارے ہی نہیں رہے جو آدمی کو انسان بناتے تھے جس میں سب سے معتبر اور فعال ادارہ یاور مہدی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ سے کہوں گا کہ وہ تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز بحال کرائیں، تاکہ طلبا اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایک بار پھر معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ یاور مہدی نے نسلوں کی تربیت کی شخصیتوں کو بنانے اور نکھارنے کا کام بخوبی ادا کیا، اس کام میں ان کا مقصد دراصل معاشرے کو نکھارنے اور سنوارنے سے متعلق تھا لہٰذا یاور بھائی کا کام یک رخی کے بجائے کئی جہات رکھتا ہے۔ پروفیسر نثار احمد زبیری نے فرمایا کہ میں ایک روزنامے میں بچوں کے صفحے کا انچارج تھا۔
یاور بھائی باصلاحیت افراد کی تلاش میں رہتے ہی تھے آج یاور بھائی کے لیے یہ تقریب ہمارے لیے خوشی کا موقع ہے کہ یاور بھائی نے ہمیں آگے بڑھنے کے مواقعے فراہم کیے ۔ یاور مہدی نے اپنی پوری زندگی ریڈیو میں بتا دی۔ انھوں نے دن رات کام کیا اور ایسے لوگ تیار کیے جو آج بھی ہر شعبہ زندگی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فی البدیہہ مباحثے اور مشاعرے کرائے جس سے طلبا میں ہر موضوع پر بولنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے کہ بات کرو تاکہ تم پہچانے جاؤ۔ آج لوگوں کو میڈیا پر بات کرتے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ کاش یہ یاور مہدی کے شاگرد ہوتے۔ کچھ ان سے سیکھا ہوتا۔
ملک میں ایک دور ریڈیو کا ہی تھا۔ اخبارات اور ریڈیو ہی ذرایع ابلاغ تھے۔ ریڈیو کا دائرہ اثر اخبارات سے زیادہ تھا ناخواندہ افراد بھی ریڈیو سنتے اور سمجھتے تھے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں ریڈیو کی رسائی تھی۔ جب پاکستان میں ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو وہاں بھی ریڈیو کے تربیت یافتہ افراد ہی چھائے ہوئے تھے۔ ریڈیو ایک بنیادی تربیتی ادارے کا مقام رکھتا تھا۔ کراچی سینٹر پر تو صد فی صد یاور بھائی کے شاگرد بطور پروڈیوسر ہدایات کار، اداکار، گلوکار سب ہی کچھ تھے ریڈیو کا دور، معاشرتی، اخلاقی، ادبی و ثقافتی دور تھا۔ والدین و اساتذہ طلبا سے کہتے تھے کہ اگر درست زبان اور انداز گفتگو سیکھنا ہے تو ریڈیو سنا کرو۔ جب کہ آج کہا جاتا ہے کہ اگر لب و لہجہ اور اخلاق بگاڑنا ہے تو ٹی وی دیکھا کرو۔ آخر میں بس یہی کہوں گی ''ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے''۔