آپؐ کا عطا کردہ اعتدال پسند معاشرہ آخری حصہ
یہ ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کو نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی زبانوں میں عام کیا جائے۔
آج ہماری نوجوان نسل مغرب کی اندھی تقلید کررہی ہے، جب کہ دم توڑتی ہوئی تہذیب کے پیچھے چلنے والوں کو منزل نہیں ملا کرتی۔آج وہاں پر کونسی روشنی تلاش کی جائے جس طرح سابقہ قومیں بے حیائی اور غرور و تکبر میں ہلاک ہوئیں ان کا بھی انجام ایسا ہی ہوگا ۔ یہ تہذیب کب ٹوٹے گی یہ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کفر کو تو برداشت کرتے ہے مگر بے حیائی اور ظلم کو برداشت نہیں کرتا۔
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی
یہ ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کو نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی زبانوں میں عام کیا جائے۔ وہ تمام اقدامات جو غلط ہوں اور امہ کی بھلائی اور نفع رسانی کے لیے نہ ہو ان کو ختم کردیا جائے۔ قانون کی حکمرانی ہو تاکہ ہر فردکو انصاف بروقت مہیا ہو۔ اسلام کسی بھی طور سے تعلیم کے حصول کے لیے منع نہیں فرماتا بلکہ جتنی اہمیت تعلیم کی اسلام میں موجود ہے شاید ہی کسی اور مذہب میں موجود ہو ۔اس بات کی طرف توجہ دی جائے کہ تمام اداروں سے فرقہ وارانہ اور لسانی نمایندگی کا خاتمہ ہو۔ حکومت، علما اور صحافیوں کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اپنے فرائض بخوبی انجام دیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام امن وسلامتی، تحمل و برداشت، رواداری اور احترام آدمیت کا سب سے عظیم مذہب ہے، اسلام کی نگاہ میں سب انسان بغیرکسی تفریق و امتیاز کے احترام کے مستحق ہیں، اسلام میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کا کوئی تصور نہیں ہے۔اسلام وہ آفاقی عظیم مذہب ہے جس نے ساری کائنات کو امن وسلامتی اور بنی نوع انسان کے لیے احترام کا درس دیا ہے، یہ اسلام کی شان اور عظمت ہے کہ اس نے اشرف المخلوقات کے لیے پر امن بقائے باہم مذہب و ملت لکم دینکم ولی دین کا عظیم تصور پیش کیا، اسلام ہی نے انسانی عظمت کے مینار کو بلند کرتے ہوئے اس کو غیر جانبداری، اعتدال پسندی اور امن و سلامتی کا وہ منشور و فلسفہ عطا کیا جس پر اسلام کی عمارت تعمیر ہے۔ اسلام نے ساری کائنات کی مخلوق کو یہ درس دیا کہ ملت اسلامی کا رب سارے جہاں کا رب ہے، اس کی سب سے بڑی عظمت و شان یہ ہے کہ وہ رحمان و رحیم ہے، غفور الرحیم ہے۔
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری محبت کی فراوانی
بتانِ رنگ و خوں کو توڑکر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
آج ملک سے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے، فرقہ واریت سے نجات، دینی اور ملی یگانگت کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے اخوت و مساوات اور اتحاد و یگانگت، روشن خیال اور اعتدال پسندی کے پیغام کو عام کیا جائے۔
اعتدال پسند معاشرے کی تشکیل کے لیے تجاویز، اسلامی معاشرے میں امن کے قیام، مملکت کے استحکام اور پر امن بقائے باہم کے لیے ضروری ہے کہ تحمل و برداشت، عفو و درگزر، حلم و برد باری، رواداری، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو فروغ دیا جائے یہی وہ تعلیمات ہیں جن پر عمل کرکے ہم فرقہ واریت سے نجات اور مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کرسکتے ہیں، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فروغ بھی ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ اپنے ''عقیدے کو چھوڑومت اور دوسروں کے عقیدے کو چھیڑو مت۔''
رسول اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے: خطبۂ حجۃ الوداع کے تاریخی موقعے پر آپؐ نے فرمایا:
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اکرمؐ کو یہ فرماتے سنا خبردار میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔
غُلو، شدت پسندی اور مذہبی معاملات میں جذباتی پن، مذہبی انتہا پسندی کا حقیقی سبب اور بنیاد ہے، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ بندی سے سوائے اسلام اور مسلمانوں کے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔ اسلام کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو عصر حاضر کی روشنی میں عام کیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے۔اور سب ملک کر اﷲ کی رسی (ہدایت کی رسی) کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور باہم تفرقہ نہ ڈالناایک موقعے پر فرمایا گیا ''اور ان لوگوں کی طرف نہ ہونا جو متفرق ہوںگے اور واضح احکام آنے کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کرنے لگے، یہ وہ لوگ ہیں جنھیں قیامت کے دن بڑا عذاب ہوگا۔''
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (مرحوم) رسول اکرمؐ کے اسوۂ حسنہ کے متعلق کیا خوب لکھتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے رسول اکرمؐ کو جس اعلیٰ درجے کے اخلاق اور اعلیٰ درجے کے طبعی و خلقی موزونیت سے نوازا تھا وہ آنے والی صدیوں اور موجودہ و آیندہ نسلوں کے لیے معراج کمال ہے اور اسے ہم اعتدال فطرت(اعتدال پسندی، میانہ روی) سلامت ذوق لطافت شعور، توازن و جامعیت اور افراد و تفریط سے پاک تعبیرکرسکتے ہیں۔''
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ کو جب دو کاموں میں کسی ایک کو ترجیح دینی ہوتی تو آپؐ ہمیشہ اسے اختیار فرماتے جو زیادہ سہل ہوتا۔ بشرطیکہ اس میں گناہ کا شائبہ نہ ہو، اگر اس میں گناہ ہوتا تو آپؐ اس سے سب سے زیادہ دور ہوتے۔دین میں شدت پسندی، انتہا پسندی، غُلو، مبالغہ آمیزی تمام ناپسندیدہ ہیں، اسلام اعتدال پسندی کا دوسرا نام ہے وہ آسانی، لوگوں کو بشارت دینے اور منافرت سے روکنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اعتدال پسندی اور میانہ روی اسلامی تعلیمات کی روح ہے، قرآن کریم نے امتِ محمدیہؐ کے متعلق وکذلک جعلنا کم امۃ وسطاً فرماکر اس کی وضاحت کی اور رسول اکرمؐ نے خیر الامور اوسطہا فرماکر امت مسلمہ کو اعتدال پسندی، میانہ روی اور اعتدال کی راہ اپنانے کی ہدایت فرمائی، قرآن کریم کی متعدد آیات مبارکہ میں اعتدال پسندی اور میانہ روی کی تعلیم دیتے ہوئے اسے امت مسلمہ کا خاص وصف قرار دیا گیا ہے۔
رسول اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے''حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا دین آسان ہے اور جو بھی دین سے زور آزمائی کرے گا وہ اس پر غالب آئے گا، اس لیے میانہ روی (اعتدال پسندی) اختیار کرو اور اعتدال کے ساتھ چلو، قریب کے پہلوؤں کی رعایت کرو اور انبساط رکھو اور صبح و شام اورکسی قدر تاریکی شب کی عبادت سے تقویت حاصل کرو۔ہم اس نبی آخر الزماںؐ کے امتی ہیں جنھیں قرآن نے رحمت للعالمین بناکر مبعوث فرمایا۔ آپؐ کی سیرت طیبہ کا ہرگوشہ اور اسوۂ حسنہ کا ہر پہلو صبر وبرداشت، تحمل و برد باری، عفوودرگزر، رواداری، مساوات اور اعتدال پسندی سے مزین ہے، میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ، فتح مکہ، سیرت طیبہ، کے وہ شاہکار ہیں جن پر تاریخ اسلام کی شاندار عفو ودرگزر اور اعتدال پسندی کی عمارت کھڑی ہے۔
بدقسمتی سے آج امت مسلمہ خصوصاً پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی اپنے عروج پر ہے، عصر حاضر کا تقاضا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی تفرقہ،گروہی و لسانی فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے اسوۂ حسنہ پر عمل کیا جائے اور اس کے فروغ کے لیے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوا جائے اور یہی آج کے مسائل کا حل ہے۔سرکار دو عالمؐ رحمت للعالمین، محسن اعظم کی سیرت طیبہ اور تعلیمات و صبر و برداشت، عفو و درگزر، میانہ روی، رواداری، مساوات و بھائی چارہ، تحمل اور اعتدال پسندی سے عبارت ہے آج کے تمام معاشرتی و سیاسی سماجی مذہبی مسائل کا حل سیرت میں موجود ہے اس لیے سیرت طیبہ اور اسوۂ حسنہ کی تعلیم کو عام کیا جائے۔تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اسلام کے پیغام امن و سلامتی، رواداری، عفو و درگزر اور اعتدال پسندی کو عام کریں۔
فرقہ وارانہ اختلاف کے خاتمے کے لیے تمام مسالک و مکاتب کے علمائے کرام اپنے وعظ و تقریر میں تحمل و برداشت اور اعتدال پسندی جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے کو فروغ دیں۔معاشرے سے غربت، جہالت، بے روزگاری اور لا قانونیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے اسوۂ حسنہ اور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے ملک میں انصاف اور قانون کی بالادستی عام کی جائے۔اسلام کی رواداری اور اعتدال پسندی کو فروغ اور عام کیا جائے۔زندگی کے ہر شعبے میں سیرت طیبہ پر عمل کو یقینی بنایا جائے۔سیرت طیبہؐ کی پیروی اور اطاعت ہی میں عالم اسلام، ملت اسلامیہ اور دنیا کے انسانوں کے مسائل کا حل موجود ہے اور اسی اسوۂ حسنہؐ پر دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔