وزارت ریلوے کا کراچی سرکلر ریلوے پر تحفظات کا اظہار
سرکلر ریلوے کی اراضی نہ دینے کیلیے مخصوص نوکر شاہی حربے استعمال کیے جارہے ہیں، سندھ حکومت
لاہور:
وزارت ریلوے کراچی سرکلر ریلوے(کے سی آر) کی تعمیر نو میں دیوار بن گئی ہے، مختلف حیلہ و بہانے سے منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سی پیک سے منسلک منصوبوں سے متعلق گزشتہ روز اسلام آباد میں اہم اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت سیکریٹری کمیونیکشن صدیق میمن نے کی، اجلاس میں وفاقی و سندھ حکومت ، پاکستان ریلوے اور دیگر اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی، اجلاس میں کے سی آر منصوبہ میں حائل رکاوٹوں پر بھی بات چیت کی گئی۔
اس موقع پر سندھ حکومت کے متعلقہ افسران نے اجلاس کو بتایا کہ منصوبہ میں صرف کے سی آر کی اراضی اور کراچی اربن ٹرانسپورٹ کمپنی کی منتقلی کا معاملہ حائل ہے جو وزارت ریلوے کو سندھ حکومت کے حوالے کرنا ہے، وزارت ریلوے کے اعلیٰ حکام نے منصوبہ پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت نے منصوبہ کی فزیبیلٹی رپورٹ وزارت ریلوے میں جمع نہیں کرائی ہے جس کی وجہ سے وہ منصوبہ کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔
دوسری جانب سندھ حکومت کے افسران نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فزیبیلٹی رپورٹ پر وزیر ریلوے کی آرا صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ تک پہنچ چکی ہیں اس لیے یہ کہنا کہ وزارت ریلوے تک رپورٹ نہیں پہنچی لغو بات ہے، اجلاس میں سیکریٹری کمیونیکیشن نے وزارت ریلوے کو ہدایت کی ہے کہ کے سی آر کے معاملات فوری طور پر سندھ حکومت کے ساتھ طے کیے جائیں تاکہ منصوبہ کا آغاز ہوسکے۔
ذرائع نے بتایا کہ کے سی آر کے احیا کے منصوبے پر12سال سے کام ہورہا ہے، 2016 تک یہ منصوبہ پاکستان ریلوے کے ذیلی ادارے کراچی اربن ٹرانسپورٹ کمپنی کی زیر نگرانی تھا تاہم رواں سال سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے اسے سندھ حکومت کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا، اس لیے پاکستان ریلوے کا یہ کہنا کہ وہ اس منصوبہ کے خدوخال سے آگاہ نہیں ہے ، مناسب بات نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ پاکستان ریلوے سندھ حکومت کو کے سی آر کی قیمتی اراضی دینا نہیں چاہتی، ماضی میں ریلوے کے کرپٹ افسران نے گلشن اقبال وگلستان جوہر اور دیگر علاقوں میں ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر مبینہ طور پر یہ اراضی کمرشل بنیادون پر فروخت کرکے اپنی جیبیں بھری ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزارت ریلوے کے اعلیٰ حکام نے وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر قائم کردہ کے سی آر کمیٹی سے ممبر پلاننگ کمیشن کا نام حذف کردیا ہے تاکہ کمیٹی پر اپنا اثر رسوخ بڑھایا جاسکے ، وزیر اعظم پاکستان کو مطمئن کرنے کیلیے ریلوے حکام نے ریلوے کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کراچی کو مکتوب ارسال کیا ہے کہ سندھ حکومت کے ساتھ کے سی آر کی اراضی سے متعلق معاملات طے کیے جائیں، پاکستان ریلوے کا یہ اقدام کراچی کے شہریوں کے ساتھ سنگین مذاق ہے کیونکہ ڈی ایس کراچی اراضی منتقل کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے، ریلوے کی اراضی منتقل کرنے کا اختیار صرف پاکستان ریلوے کے مرکزی دفتر کے پاس ہے جو لاہور میں قائم ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ سندھ حکومت نے منصوبہ کے آغاز کیلئے تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں جبکہ چینی حکومت بھی منصوبے کی تعمیر نو کیلیے بے تابی سے انتظار کررہی ہے۔
وزارت ریلوے کراچی سرکلر ریلوے(کے سی آر) کی تعمیر نو میں دیوار بن گئی ہے، مختلف حیلہ و بہانے سے منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سی پیک سے منسلک منصوبوں سے متعلق گزشتہ روز اسلام آباد میں اہم اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت سیکریٹری کمیونیکشن صدیق میمن نے کی، اجلاس میں وفاقی و سندھ حکومت ، پاکستان ریلوے اور دیگر اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی، اجلاس میں کے سی آر منصوبہ میں حائل رکاوٹوں پر بھی بات چیت کی گئی۔
اس موقع پر سندھ حکومت کے متعلقہ افسران نے اجلاس کو بتایا کہ منصوبہ میں صرف کے سی آر کی اراضی اور کراچی اربن ٹرانسپورٹ کمپنی کی منتقلی کا معاملہ حائل ہے جو وزارت ریلوے کو سندھ حکومت کے حوالے کرنا ہے، وزارت ریلوے کے اعلیٰ حکام نے منصوبہ پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت نے منصوبہ کی فزیبیلٹی رپورٹ وزارت ریلوے میں جمع نہیں کرائی ہے جس کی وجہ سے وہ منصوبہ کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔
دوسری جانب سندھ حکومت کے افسران نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فزیبیلٹی رپورٹ پر وزیر ریلوے کی آرا صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ تک پہنچ چکی ہیں اس لیے یہ کہنا کہ وزارت ریلوے تک رپورٹ نہیں پہنچی لغو بات ہے، اجلاس میں سیکریٹری کمیونیکیشن نے وزارت ریلوے کو ہدایت کی ہے کہ کے سی آر کے معاملات فوری طور پر سندھ حکومت کے ساتھ طے کیے جائیں تاکہ منصوبہ کا آغاز ہوسکے۔
ذرائع نے بتایا کہ کے سی آر کے احیا کے منصوبے پر12سال سے کام ہورہا ہے، 2016 تک یہ منصوبہ پاکستان ریلوے کے ذیلی ادارے کراچی اربن ٹرانسپورٹ کمپنی کی زیر نگرانی تھا تاہم رواں سال سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے اسے سندھ حکومت کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا، اس لیے پاکستان ریلوے کا یہ کہنا کہ وہ اس منصوبہ کے خدوخال سے آگاہ نہیں ہے ، مناسب بات نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ پاکستان ریلوے سندھ حکومت کو کے سی آر کی قیمتی اراضی دینا نہیں چاہتی، ماضی میں ریلوے کے کرپٹ افسران نے گلشن اقبال وگلستان جوہر اور دیگر علاقوں میں ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر مبینہ طور پر یہ اراضی کمرشل بنیادون پر فروخت کرکے اپنی جیبیں بھری ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزارت ریلوے کے اعلیٰ حکام نے وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر قائم کردہ کے سی آر کمیٹی سے ممبر پلاننگ کمیشن کا نام حذف کردیا ہے تاکہ کمیٹی پر اپنا اثر رسوخ بڑھایا جاسکے ، وزیر اعظم پاکستان کو مطمئن کرنے کیلیے ریلوے حکام نے ریلوے کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کراچی کو مکتوب ارسال کیا ہے کہ سندھ حکومت کے ساتھ کے سی آر کی اراضی سے متعلق معاملات طے کیے جائیں، پاکستان ریلوے کا یہ اقدام کراچی کے شہریوں کے ساتھ سنگین مذاق ہے کیونکہ ڈی ایس کراچی اراضی منتقل کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے، ریلوے کی اراضی منتقل کرنے کا اختیار صرف پاکستان ریلوے کے مرکزی دفتر کے پاس ہے جو لاہور میں قائم ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ سندھ حکومت نے منصوبہ کے آغاز کیلئے تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں جبکہ چینی حکومت بھی منصوبے کی تعمیر نو کیلیے بے تابی سے انتظار کررہی ہے۔