سیاسی جھوٹے
عوام نے آج تک دروغ گو سیاستدانوں کو اُن کے منہ پر کبھی جھوٹ نہیں گنوائے
میاں محمد نواز شریف اور عمران خان صاحب دونوں ہی جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ پانامہ فیصلے ہی کی مثال لے لیجیے۔ سپریم کورٹ سے نااہلی کے فیصلے کے بعد میاں صاحب نے فرمایا، ''مجھے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی وجہ سے نااہل کردیا گیا ہے۔ مجھے کہتے ہیں کہ تم اپنے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لیتے؟ بھلا کوئی بیٹے سے بھی تنخواہ لیتا ہے؟'' وغیرہ۔
میاں صاحب آپ پوری پاکستانی قوم سے سرِ عام جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کو تنخواہ نہ لینے کی وجہ سے نہیں بلکہ تنخواہ چھپانے اور جھوٹ بولنے کی بناء پر نا اہل کیا گیا ہے۔ لیکن میں آپ کی دیدہ دلیری پر حیران ہوں کہ آپ کس طرح دن دیہاڑے، سرِعام سینہ تان کر بائیس کروڑ عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرجھوٹ بول رہے ہیں؛ اور آپ کو ذرا سا بھی خوف نہیں کہ آپ کا یہ جھوٹ پکڑا جائے گا اور آپ عوام کے سامنے شرمندہ ہو جائیں گے۔
میاں صاحب کیوں دھڑلے سے جھوٹ بول رہے ہیں؟ اِس کا ذکر میں بلاگ کے اختتام پر کروں گا۔ فی الحال آپ ایک نظر عمران خان کے بیانات پر بھی ڈال لیجیے: اٹھائیس جولائی کو جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کو تنخواہ اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے نا اہل قرار دیا تو خان صاحب نے بیان دیا، ''نواز شریف کو کرپشن ثابت ہونے کی وجہ سے نا اہل کیا گیا ہے،'' جبکہ خان صاحب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ابھی تک کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہی میاں صاحب کو عدالتوں نے کرپشن کی وجہ سے نااہل کیا ہے۔ آپ خان صاحب کی بھی دیدہ دلیری دیکھیے کہ انہوں نے بھی نواز شریف کی طرح معصوم عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ جھوٹ اتنی مرتبہ بولا کہ آج کی تمام نوجوان نسل اِس بات پر ایمان لی آئی ہے کہ نواز شریف کو کرپشن ثابت ہونے ہر نااہل کیا گیا ہے۔
خان صاحب کیوں دھڑلے سے جھوٹ بول رہے ہیں؟ اِس کا ذکر بھی میں آگے چل کر کروں گا۔ فی الحال آپ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا تازہ ترین جھوٹ ملاحظہ کیجیے۔ دس اگست 2017ء کو خواجہ آصف نے ممتاز قادری کے جنازے کی تصویر لگا کر ٹویٹ کیا ہے، ''نواز شریف جمہوریت کا پیامبر، جی ٹی روڈ کی طرف رواں دواں۔۔۔۔۔۔ اہل راولپنڈی نے پیار کی نئی تاریخ رقم کردی۔'' آپ ہمارے وزیرِ خارجہ کی ہمت اور دیدہ دلیری دیکھیے کہ انہیں جھوٹی تصویر ٹویٹ کرتے وقت اِس بات کا بالکل بھی خوف نہیں تھا کہ اگر پاکستانی عوام نے اِس تصویر کو پہچان لیا تو وہ اپنے وزیرِ خارجہ کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ اور وہ دوبارہ عوام سے کس منہ سے ووٹ مانگنے جائیں گے؟ خوا جہ آصف کو جھوٹی تصویر لگانے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ اِس کا ذکر بھی میں بعد میں کروں گا۔
فی الحال آپ رانا ثناء اللہ کا گرما گرم جھوٹ ملاحظہ کیجیے۔ گیارہ اگست کو جی ٹی روڈ ریلی میں میاں صاحب کی پروٹوکول کی گاڑی کے نیچے آکر بارہ سالہ حامد جاں بحق ہوگیا جس کی ویڈیو پوری دنیا نے سوشل میڈیا پر دیکھی، لیکن رانا ثناء اللہ نے ویڈیو ثبوت کو جھٹلاتے ہوئے بیان دیا کہ بچے کی ہلاکت پروٹوکول کی گاڑی سے ٹکرانے کی وجہ سے نہیں ہوئی اور وجہ تلاش کرنے کے لیے کمیٹی بنادی گئی ہے۔ رانا صاحب کو یہ جھوٹ بولتے وقت ذرّہ برابر ملامت نہیں ہوئی۔ اِن بیانات کے علاوہ ہمارے سیاستدانوں کے ہزاروں ایسے جھوٹ ہیں جنہیں سُن کر شیطان بھی شرما جائے۔ اِن کا ذکر میں کسی اور موقعے کےلیے اُٹھا رکھتا ہوں۔ فی الحال اب میں اِن وجوہ کی طرف آتا ہوں جن کی بنیاد پر میاں نواز شریف، عمران خان، خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ سمیت بیشتر سیاستدان پاکستانی عوام کے سامنے سینہ چوڑا کر کے دھڑلے سے دروغ گوئی کرتے ہیں اورجھوٹ پکڑے جانے پر معافی مانگنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ تمام سیاست دانوں کو یقین ہے کہ جو عوام ہم جیسے جھوٹوں، چور اچکوں، عیاروں، مکاروں، غداروں، لٹیروں، دھوکے بازوں، جاہلوں، وعدہ فراموشوں، موقع پرستوں اور ضمیر فروشوں کی اصلیت کو جاننے کے باوجود ہمیں بار بار ووٹ دے کر حکمران بنا دیتے ہیں تو اُن سے زیادہ بے وقوف پوری دنیا میں کہیں نہیں ہوں گے۔ لہذا ہم اِن کے سامنے کوئی بھی جھوٹ بولیں، یہ قوم آنکھیں بند کر کے ہماری بات مان جائے گی اور ہم سے یہ پوچھنے کی ہمت بھی نہیں کرے گی کہ ہم نے جھوٹ کیوں بولا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی نظروں عوام کے ضمیر کی قیمت ایک بریانی کی پلیٹ سے زیادہ نہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان عوام کو جاہل، گنوار اورکُند ذہن سمجھتے ہیں۔ وہ عوام کو بھیڑوں کا وہ ریوڑ سمجھتے ہیں جسے کسی بھی وقت ہانک کر کہیں بھی لے جایا جاسکتا ہے۔ چوتھی اور آخری وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان خود کو دنیا کے سب سے زیادہ ذہین، فطین، قابل اور اعلیٰ نسل کا انسان قرار دیتے ہیں اور اُن کے نزدیک عوام تیسرے درجے کی مخلوق ہے، جس کے ساتھ جتنا چاہے جھوٹ بولو، جتنا چاہے مارو، پیٹو اور دھتکارو لیکن پھر ایک مرتبہ انہیں پکارو تو وہ اِن کی ساری زیادتیاں ایک ہی لمحے میں بھول کر اُن کی طرف چلے آئیں گے۔
اِن تمام وجوہ کا ذکر کرنے کے بعد میں آپ کی توجہ عوامی رویوں کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں؛ کیونکہ اوپر بیان کی گئی سچائیوں کے علاوہ یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی اِس سوچ کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ عوام خود ہیں کیونکہ عوام نے آج تک اِن سیاستدانوں کو اُن کے منہ پر کبھی جھوٹ نہیں گنوائے، عوام نے کبھی بھی بریانی کی پلیٹ کو نظر انداز کر کے اُن سے کارکردگی اور منشور کی رپورٹ نہیں مانگی۔ عوام نے وعدہ خلافی کرنے والے سیاستدانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے جانے کے لیے کبھی کوئی مہم نہیں چلائی اور عوام نے جھوٹ بولنے والے سیاستدانوں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے کبھی کوئی متحدہ کوشش نہیں کی۔
اِن تمام حقائق کے پیش نظر میری پاکستانی عوام سے گزارش ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری کا خیال کیجیے اور آج ہی سے جھوٹ بولنے والے سیاستدانوں کو غدار قرار دینے، اُن کو سزا دلانے کیلئے قانون سازی کرنے اور اِس قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیجیے؛ اور جب تک اِس مہم کے مقاصد حل نہ ہوجائیں، آپ پیچھے نہ ہٹیے ہٹیں کیونکہ اگر آپ نے آج یہ قدم نہ اٹھایا تو مؤرخ سیاستدانوں کو سیاسی جھوٹے لکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی بزدل اور ضمیر فروش قرار دے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
میاں صاحب آپ پوری پاکستانی قوم سے سرِ عام جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کو تنخواہ نہ لینے کی وجہ سے نہیں بلکہ تنخواہ چھپانے اور جھوٹ بولنے کی بناء پر نا اہل کیا گیا ہے۔ لیکن میں آپ کی دیدہ دلیری پر حیران ہوں کہ آپ کس طرح دن دیہاڑے، سرِعام سینہ تان کر بائیس کروڑ عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرجھوٹ بول رہے ہیں؛ اور آپ کو ذرا سا بھی خوف نہیں کہ آپ کا یہ جھوٹ پکڑا جائے گا اور آپ عوام کے سامنے شرمندہ ہو جائیں گے۔
میاں صاحب کیوں دھڑلے سے جھوٹ بول رہے ہیں؟ اِس کا ذکر میں بلاگ کے اختتام پر کروں گا۔ فی الحال آپ ایک نظر عمران خان کے بیانات پر بھی ڈال لیجیے: اٹھائیس جولائی کو جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کو تنخواہ اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے نا اہل قرار دیا تو خان صاحب نے بیان دیا، ''نواز شریف کو کرپشن ثابت ہونے کی وجہ سے نا اہل کیا گیا ہے،'' جبکہ خان صاحب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ابھی تک کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہی میاں صاحب کو عدالتوں نے کرپشن کی وجہ سے نااہل کیا ہے۔ آپ خان صاحب کی بھی دیدہ دلیری دیکھیے کہ انہوں نے بھی نواز شریف کی طرح معصوم عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ جھوٹ اتنی مرتبہ بولا کہ آج کی تمام نوجوان نسل اِس بات پر ایمان لی آئی ہے کہ نواز شریف کو کرپشن ثابت ہونے ہر نااہل کیا گیا ہے۔
خان صاحب کیوں دھڑلے سے جھوٹ بول رہے ہیں؟ اِس کا ذکر بھی میں آگے چل کر کروں گا۔ فی الحال آپ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا تازہ ترین جھوٹ ملاحظہ کیجیے۔ دس اگست 2017ء کو خواجہ آصف نے ممتاز قادری کے جنازے کی تصویر لگا کر ٹویٹ کیا ہے، ''نواز شریف جمہوریت کا پیامبر، جی ٹی روڈ کی طرف رواں دواں۔۔۔۔۔۔ اہل راولپنڈی نے پیار کی نئی تاریخ رقم کردی۔'' آپ ہمارے وزیرِ خارجہ کی ہمت اور دیدہ دلیری دیکھیے کہ انہیں جھوٹی تصویر ٹویٹ کرتے وقت اِس بات کا بالکل بھی خوف نہیں تھا کہ اگر پاکستانی عوام نے اِس تصویر کو پہچان لیا تو وہ اپنے وزیرِ خارجہ کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ اور وہ دوبارہ عوام سے کس منہ سے ووٹ مانگنے جائیں گے؟ خوا جہ آصف کو جھوٹی تصویر لگانے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ اِس کا ذکر بھی میں بعد میں کروں گا۔
فی الحال آپ رانا ثناء اللہ کا گرما گرم جھوٹ ملاحظہ کیجیے۔ گیارہ اگست کو جی ٹی روڈ ریلی میں میاں صاحب کی پروٹوکول کی گاڑی کے نیچے آکر بارہ سالہ حامد جاں بحق ہوگیا جس کی ویڈیو پوری دنیا نے سوشل میڈیا پر دیکھی، لیکن رانا ثناء اللہ نے ویڈیو ثبوت کو جھٹلاتے ہوئے بیان دیا کہ بچے کی ہلاکت پروٹوکول کی گاڑی سے ٹکرانے کی وجہ سے نہیں ہوئی اور وجہ تلاش کرنے کے لیے کمیٹی بنادی گئی ہے۔ رانا صاحب کو یہ جھوٹ بولتے وقت ذرّہ برابر ملامت نہیں ہوئی۔ اِن بیانات کے علاوہ ہمارے سیاستدانوں کے ہزاروں ایسے جھوٹ ہیں جنہیں سُن کر شیطان بھی شرما جائے۔ اِن کا ذکر میں کسی اور موقعے کےلیے اُٹھا رکھتا ہوں۔ فی الحال اب میں اِن وجوہ کی طرف آتا ہوں جن کی بنیاد پر میاں نواز شریف، عمران خان، خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ سمیت بیشتر سیاستدان پاکستانی عوام کے سامنے سینہ چوڑا کر کے دھڑلے سے دروغ گوئی کرتے ہیں اورجھوٹ پکڑے جانے پر معافی مانگنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ تمام سیاست دانوں کو یقین ہے کہ جو عوام ہم جیسے جھوٹوں، چور اچکوں، عیاروں، مکاروں، غداروں، لٹیروں، دھوکے بازوں، جاہلوں، وعدہ فراموشوں، موقع پرستوں اور ضمیر فروشوں کی اصلیت کو جاننے کے باوجود ہمیں بار بار ووٹ دے کر حکمران بنا دیتے ہیں تو اُن سے زیادہ بے وقوف پوری دنیا میں کہیں نہیں ہوں گے۔ لہذا ہم اِن کے سامنے کوئی بھی جھوٹ بولیں، یہ قوم آنکھیں بند کر کے ہماری بات مان جائے گی اور ہم سے یہ پوچھنے کی ہمت بھی نہیں کرے گی کہ ہم نے جھوٹ کیوں بولا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی نظروں عوام کے ضمیر کی قیمت ایک بریانی کی پلیٹ سے زیادہ نہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان عوام کو جاہل، گنوار اورکُند ذہن سمجھتے ہیں۔ وہ عوام کو بھیڑوں کا وہ ریوڑ سمجھتے ہیں جسے کسی بھی وقت ہانک کر کہیں بھی لے جایا جاسکتا ہے۔ چوتھی اور آخری وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان خود کو دنیا کے سب سے زیادہ ذہین، فطین، قابل اور اعلیٰ نسل کا انسان قرار دیتے ہیں اور اُن کے نزدیک عوام تیسرے درجے کی مخلوق ہے، جس کے ساتھ جتنا چاہے جھوٹ بولو، جتنا چاہے مارو، پیٹو اور دھتکارو لیکن پھر ایک مرتبہ انہیں پکارو تو وہ اِن کی ساری زیادتیاں ایک ہی لمحے میں بھول کر اُن کی طرف چلے آئیں گے۔
اِن تمام وجوہ کا ذکر کرنے کے بعد میں آپ کی توجہ عوامی رویوں کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں؛ کیونکہ اوپر بیان کی گئی سچائیوں کے علاوہ یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی اِس سوچ کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ عوام خود ہیں کیونکہ عوام نے آج تک اِن سیاستدانوں کو اُن کے منہ پر کبھی جھوٹ نہیں گنوائے، عوام نے کبھی بھی بریانی کی پلیٹ کو نظر انداز کر کے اُن سے کارکردگی اور منشور کی رپورٹ نہیں مانگی۔ عوام نے وعدہ خلافی کرنے والے سیاستدانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے جانے کے لیے کبھی کوئی مہم نہیں چلائی اور عوام نے جھوٹ بولنے والے سیاستدانوں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے کبھی کوئی متحدہ کوشش نہیں کی۔
اِن تمام حقائق کے پیش نظر میری پاکستانی عوام سے گزارش ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری کا خیال کیجیے اور آج ہی سے جھوٹ بولنے والے سیاستدانوں کو غدار قرار دینے، اُن کو سزا دلانے کیلئے قانون سازی کرنے اور اِس قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیجیے؛ اور جب تک اِس مہم کے مقاصد حل نہ ہوجائیں، آپ پیچھے نہ ہٹیے ہٹیں کیونکہ اگر آپ نے آج یہ قدم نہ اٹھایا تو مؤرخ سیاستدانوں کو سیاسی جھوٹے لکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی بزدل اور ضمیر فروش قرار دے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی