کھلا کھائیں گے کھلا نہائیں گے
ڈائنوسار کتنے طاقتور تھے لیکن انھوں نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق تبدیل نہیں کیا اور آج ان کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے
نامور شاعر الیگزینڈر پوپ لکھتا ہے کہ ''فرشتے جہاں چلتے ہوئے ڈرتے ہیں احمق وہاں دوڑتا ہے'' آئین ، قانون تبدیل کرنے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے بلکہ رویے تبدیل کرنے سے حالات تبدیل ہوا کرتے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی ہیرا قلیطس کہتا تھا کہ ہم مجموعی طور پرایک ایسا نظام ہے جو مسلسل تبدیلی کی حالت میں ہے یہ ہی تصور ڈارون اور ڈیوی کا بھی تھا جو انھوں نے ہیرا قلیطس سے ہی لیا تھا جو اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتا پھر وہ ڈائنو سار کی طرح مٹ جاتا ہے۔ ڈائنوسار کتنے طاقتور تھے لیکن انھوں نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق تبدیل نہیں کیا اور آج ان کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے ،ظاہر ہے ہم ڈائنو سار کی طرح طاقتور نہیں ہیں۔
ہم توان کے سامنے چیونٹی کے برابر ہیں لیکن چونکہ انسان اپنے آپ کو برابر حالات کے مطابق تبدیل کرتا رہا اسی لیے وہ آج موجود ہے لیکن اس سچائی اور حقیقت کے باوجود انسانی تاریخ میں جو لوگ اپنے آپ کو ناگزیر اور طاقتور سمجھنے کی عبرتناک غلطی کرتے رہے ہیں وہ اس طرح مٹے کہ آج ہم ان کی کہانیاں مزے لے لے کر پڑھتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم میں سے بہت سے اب بھی یہ سبق یاد رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ آج بھی اپنے آپ کو طاقتور اور ناگزیر سمجھے بیٹھے ہیں ۔
'' دی لائف آف ریزن '' میں فلسفی جارج سانتا یانہ لکھتا ہے کہ ''جو لوگ ماضی یاد نہیں رکھ سکتے انھیں اس کو دہرانے کی سزا دی جاتی ہے'' اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے ملک میں بہت سے طاقتور اور اعلیٰ منصب رکھنے والے آج بھی یہ ہی سزا کاٹ رہے ہیں تو کیا غلط ہوگا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ سزاواروں کو یہ احساس تک نہیں ہے کہ سزا بھگت رہے ہیں وہ ملک میں مارے مارے پھر ر ہے ہیں چیخ و پکار کررہے ہیں۔ سوال کے جواب کو جانتے بوجھتے بھی وہ ہی سوال بار بار پوچھ رہے ہیں اور اتنی بار سوال پوچھا گیا کہ آسمان کو اس کا جواب پمفلٹ کی صورت میں دینا پڑگیا جو اب ملنے کے بعد اب وہ پریشان گھوم رہے ہیں اور جواب ہے کہ قہقہے پہ قہقے لگاتا نہیں تھک رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کبھی ہم نے یہ سوچنے کی گستاخی کی ہے کہ آخر ہم دنیا بھرکی قوموں کی فہرست میں سب سے آخر میں کیوں کھڑے ہیں اور ہم 70 سال بعد بھی اسی پوزیشن پر کیوں برقرار ہیں ہم آخر کسی دوسری قوم کو یہ پوزیشن لینے نہیں دے رہے ہیں۔ آخر ہمارے ملک میں ہر شخص تاحیات کسی بھی عہدے یا منصب پر کیوں بیٹھا رہنا چاہتا ہے۔ آخر ہم عوام کے اقتدار اور اختیارکو اپنا کاروبار کیوں سمجھے بیٹھے ہیں ہم اپنے آپ کو تبدیل کرنے پر کیوں تیار نہیں ہوتے ہیں۔
آئیں!گلزار کی لکھی کتاب '' مرزا غالب '' کا ایک اقتباس پڑھتے ہیں '' دروازے پر لٹکا ٹاٹ کا پردہ ہلا بوڑھے سے دو پیر نمودار ہوئے موجڑی پرانی تھی ایڑھی کے پاس دبی ہوئی ۔ انھیں گھسیٹتے ہوئے ، موٹی سی ، مضبوط سی لاٹھی کے سہارے غالب مسجد کی طرف بڑھے فجرکے الفاظ ابھی تک فضا میں گونج رہے تھے یہ ایمان والوں کے لیے بلاوا تھا، غالب نے گلی پار کی مسجد کے پاس پہنچ کر ایک آہ بھری ۔ سیڑھیوں کے پاس جوتیاں اتاریں پہلی سیڑھی چڑھے اور رک گئے۔ اذان اب پوری ہوچکی تھی ایک خاموشی ! چہرہ اوپر اٹھا کر دیکھا سامنے مسجد کا کھلا ہوا دروازہ اس کے اوپر محراب ، اس کے پیچھے آسمان! غالب نے پھر آہ بھری ۔ آنکھیں کچھ نم ہوگئیں مرزا الٹے پیروں لوٹ آئے موجڑی پہنی اور گلی پارکر کے، اپنے گھر کی طرف چل دیے کسی آدمی نے گلی پارکرتے ہوئے مرزا کو آداب کہا۔ مرزا نے ہاتھ اٹھایا جواب میں '' آداب '' دیا ۔
گھر کے دروازے کی چوکھٹ کے نیچے پتھر پر بیٹھ گئے ۔ اندر سے بیگم کی آواز آئی '' لوٹ آئے '' مرزا نے بیگم کی طرف دیکھا بھی نہیں ، بس بیٹھے رہے، '' بڑے تڑکے اٹھ گئے تھے آج تو '' ! بیگم ہم عمر تھیں مرزا کی ۔ مرزا نے جواب میں کچھ نہیں کہا ۔ بس اپنی لاٹھی زمین پر ٹاپتے رہے بیگم پردے کے پیچھے سے جھانک رہی تھیں مرزا کو لگا کہ بیگم کی نظریں ان کی پیٹھ میں گڑھ رہی ہیں، بیگم کچھ مایوس سی ہوئیں ۔ ''گئے نہیں '' پھر رک کر بولیں '' ابھی بھی وقت ہے ، صلح کر لو اللہ سے ''اب جا کے مرزا نے منہ کھولا ، جیسے اپنے آپ سے مخاطب ہوں ۔ ''کس منہ سے جاؤں ؟ ستر سال سے بلا رہا ہے ۔ دن میں پانچوں وقت آواز دی اس نے ...میں ... اس کے وفاداروں میں نہ تھا بیگم، اب اس سے نہیں خود سے شرمندہ ہوتا ہوں '' ساری عمر ہم اپنے آپ کو طرم خان سمجھتے رہتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اسی طرح سے زندگی گذرتی ہی رہے گی کبھی بھی ہمارا وقت نہیں بدلے گا لیکن جب ہم اپنے آپ کو تبدیل کرنے کو تیار ہوتے ہیں تو اس وقت خود سے سوائے شرمندگی کے باقی کچھ نہیں بچتا ہے ۔
ہم میں سے جنہیں تبدیل ہونے کی فوری ضرورت ہے وہ تقریبا سب کے سب غالب کی عمر کو پہنچ چکے ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ ان میں سے کوئی بھی غالب جتنا نہ تو سمجھ دار ہے اور نہ ہی دانش مند ہے جب غالب کو ستر سال کی عمر میں '' بات '' سمجھ میں آگئی تھی تو سمجھ میں نہیں آتا کہ انھیں وہ ہی '' بات '' آج کیوں نہیں سمجھ میں آرہی ہے یا پھر یہ کہ وہ یہ ''بات ''سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں یا پھر انھیں دنیا میں رہنے کی ایک ہزار سال تک مہلت مل گئی ہے۔
اس لیے یہ سب کے سب مطمئن ہیں کہ آخری وقت میں ''بات '' کو سمجھ ہی لیں گے اور اپنے گناہوں کی خداسے معافی بھی مانگ لیں گے اس لیے ابھی تبدیل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بس خوب لوٹ مار کرتے رہو لوگوں کو جتنا ذلیل و خوار کرسکتے ہوکرتے رہو عیاشی پہ عیاشی کرتے رہو بدمعاشی پر بدمعاشی کرتے رہو یہ ملک کے جتنے ایماندار، دیانت دار اور قانون پسند ہیں یہ تو سب کے سب عارضی ہیں آج نہیں کل انھوں نے چلے ہی جانا ہے اور ہم تومستقل ہیں پورے ایک ہزار سال تک کے لیے ۔ اس لیے کونسا قانون ،کیسا آئین، کہاں کی ایمانداری ،کہاں کا سچ کہاں کی نااہلی کہاں کی پکڑ دھکڑ سب بیکار کی باتیں ہیں دیوانوں کا خواب ہیں ۔ کچھ عرصہ صبر کرلو پھر نیا آئین بنائیں گے یاقانون بنائیں گے جس میں ، لوٹ مار ، کر پشن کرنے کی کھلی اجازت ہوگی پھر نہ کوئی نااہل ہوگا نہ کوئی قانون کی گرفت میں آسکے گا کھلا کھائیں گے کھلا نہائیں گے۔