خواتین کا وراثت میں حق
وراثت میں خواتین کا بھی حق ہو، ایسے قانون نافذ کیے جائیں کہ خواتین وراثت کے ذریعے سے ہی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں
ISLAMABAD:
تعلیم، شعور، آگہی، بیداری، تربیت، دین و دنیا، جہاں پر یہ تمام چیزیں پکی ہونے لگتی ہیں وہیں قومیں ترقی کے سفر میں آگے نکلنے لگتی ہیں، عدل و انصاف اور قانون برابری کی سطح پر جہاں یکجا ہونے لگتا ہے گویا انسانیت وہاں جاگ رہی ہوتی ہے۔ جسم و ذہن مردہ نہیں ہوتے ، ایک دوسرے کی سلامتی اور عزتیں محفوظ ہوتی ہیں، مگر بدقسمتی سے پاکستان 70 سال کے بعد بھی روح سے خالی جسم کی طرح ہے، ماڈرن، لبرل اور پتا نہیں کیا کیا ہونے کے باوجود بزرگ سے لے کر بچہ تک ہمارے ملک میں سفر کر رہا ہے۔
بڑے ایوانوں سے چھوٹے مقام تک، کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پر اطمینان ہو، کوئی جگہ ایسی نہیں جو ایک مثال بن کر ابھر رہی ہو، غروروتکبر دل و دماغ میں سما گیا، انسان چیونٹیوں کی طرح مسلے جانے لگے، چاہے وہ گھر ہو یا ایوان۔ معاشرہ مردہ بن کر رہ گیا، لوگ تماشائی بن گئے، دل ویران ہوگئے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی کہانی بنتی ہو، ہمارے اس مردوں کے معاشرے میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ایک عورت ہی ہے وہ گھر سے لے کر اپنے کام کی جگہوں تک، بے تحاشا پس رہی ہے۔
ایک مشین بنی ہوئی ہے اور سب سے زیادہ اسی عورت کے حقوق سلب ہو رہے ہیں، یقین جانیے اگر ہمارے معاشرے میں بھی یورپ کی طرح قانونی حقوق ملنے لگیں حالانکہ اسلام نے تو بے تحاشا عورت کو حقوق دیے ہیں مگر اتنے بھی ملنے لگیں تو نہ صرف ہمارے معاشرے کی عورت مضبوط ہوگی، بلکہ قانون بھی مضبوط ہوگا اور معاشرے سے کرپشن بھی کم ہوگی، جتنی باصلاحیت ہماری عورت ہے جتنی محنتی ہماری عورت ہے اگر ہم اور قانون صحیح حقوق دیں تو زندگی کچھ تو ڈگر پر آئے۔
حال ہی میں عائشہ گلالئی 4 سال ایک سیاسی پارٹی کا حصہ رہنے کے بعد اسی پارٹی کے چیئرمین پر ہراساں کرنے کا الزام باآواز بلند لگاتی ہے اور ستم دیکھیے کہ اتنی نمایاں ہونے پر اتنی آواز بلند کرنے پر اسی پارٹی کا ترجمان اس کو 24گھنٹے یا 48 گھنٹے والی عورت کا نام دیتا ہے۔
اختلافات اپنی جگہ، دشمنیاں اپنی جگہ، مگر کوئی تو اخلاقی کوئی تو قانونی حد ہوگی، اگر مضبوطی کے ساتھ قانون کی حکمرانی ہوگی تو معاملات الگ ہوں گے، یہ بالکل بھی کہنے کا مطلب نہیں کہ یورپ میں اگر عورت کو قانونی تحفظ حاصل ہے تو وہاں امن و سکون ہے، مگر کم ازکم عورت کو تحفظ ہے، مالی طور پر اور مارے جانے کا کوئی خوف بھی نہیں۔
یہاں کا عالم یہ ہے کہ عورت کو گھر میں تحفظ اور نہ باہر تحفظ، لالچ و حرص نے جس بھی مرد کے دماغ میں قبضے جمائے اس نے تباہی و بربادی کی، نہ صرف اپنے گھر میں بلکہ پورے معاشرے کو بگاڑ کر رکھ دیا، جائیدادوں کی وراثت کھا جانا، جائیدادوں کے لیے شادیاں نہ کرانا اور اگر جوانی میں ہی ہوگئی تو ہوگئی، ورنہ تو اپنا ایسا غلام بنانا کہ جانور بھی شرما جائے۔ کہیں زنجیروں میں جکڑ کر پاگل بنانا، کہیں فلاحی اداروں میں چھوڑ آنا۔
حالانکہ یہ مرد زندگی کی کسی بھی شکل میں ہو عورت کے ساتھ ہی بسر کرتا ہے، مگر نہ جانے کیوں بھول جاتا ہے، ماں ہو، بہو ہو، بیوی ہو، بیٹی ہو، یا محبوبہ ہو وہ کس مقام پر کھڑا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ تہذیب یافتہ کلچر و روایات چھوڑ کر ایسی دوڑ میں لگا ہے کہ منزل بھی کہیں اور کہاں چلا گیا۔
اس اسلامی ریاست میں سب سے زیادہ تکلیف میں مبتلا عورت ہی ہے کیونکہ ہر طرف سے اسے دبایا جا رہا ہے ہر طرف سے اسے نوچ کر کھایا جا رہا ہے۔ کیونکہ عورت کو مختلف طریقوں سے دبایا جا رہا ہے، ہراساں کیا جا رہا ہے، اس پر بوجھ بڑھایا جا رہا ہے۔ اسی لیے اولاد کی تربیت بھی اب وہ کمال نہیں رکھتی کہ کوئی ٹیپو سلطان، کوئی قاسم ابھرے، ماں کی گود اور گھر بچوں کی پہلی درس گاہ، جوائنٹ فیملی سسٹم، بزرگوں کا ساتھ، رسولوں اور خلفائے راشدین کے واقعات، ایمان دیانت داری، اصول، سچائی کی سچی کہانیاں سب کچھ کہیں گم ہوگیا اور ایک جنگل کا سماں بندھ گیا، اسمبلیوں میں کئی مرتبہ زبردست تقاریر خواتین کے حق میں ہوئیں۔
52 فیصد کی موجودگی بھی عورت کو اس کا حق دلوانے میں کیوں ناکام ہو رہی ہے؟ ایک بہت ہی نمایاں وجہ جو نظر آتی ہے، گھٹن اور بے تحاشا مقابلہ بازی کی فضا نے عورت کو شدید بے حال کیا ہوا ہے، ضروریات زندگی، آسائشوں کا حصول، اپنے ہی گھر میں ناانصافی، معاشرتی دباؤ، وراثت میں حصہ نہ ملنا، شدید جدوجہد۔
ادھر مرد کا جو رول ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی خواتین کے حوالے سے بہت زیادہ مثبت نظر نہیں آتا، مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے ایک بحث و مباحثے میں کچھ باتیں اشتہارات کے حوالہ سے بہت ابھری تھیں ۔
بہرحال چاروں طرف سے ہی خواتین کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، گاؤں دیہاتوں میں بچوں کی پیدائش سے لے کر اچھے اسپتال تک کا ہونا ضروری ہے مگر ان خواتین کو صحت و صفائی کے بارے میں تعلیم دینا بھی ضروری ہے، نہ صرف ان خواتین کو بلکہ ان کے مردوں کو بھی۔ انتہائی محنتی خواتین ہمارے گاؤں دیہاتوں کی ان پر بہت زیادہ توجہ اور قوانین کو نافذ کرنا ہوگا، ہمارے معاشرے کے مرد حضرات کو بھی عورت کو ایک شو پیس کے طور پر لینے کی بجائے ایک شخصیت ایک اہم کردار کا درجہ دینا چاہیے جو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے بہت اہم ہے۔
وراثت میں خواتین کا بھی حق ہو، ایسے قانون نافذ کیے جائیں کہ خواتین وراثت کے ذریعے سے ہی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں اور کوئی ان کی مجبوری کا فائدہ نہ اٹھا سکے، ایک بہترین قوم کے لیے ایک بہترین معاشرے کے لیے خواتین کے ساتھ ناانصافیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ بہتر کام کے مواقعے پورے خلوص کے ساتھ ان کی عزت و حرمت، ہم جاگیں گے تو ہی مسئلے حل ہوں گے اس معاشرے کو جنگل ہونے سے بچا سکیں گے۔