ماں اور محبت
قدرت نے پیدائشی طور پر عورت کے دِل میں بچّے کی پیدائش سے لے کر پرورش تک نہ صرف فطری ذمہّ داری کا احساس رکھا ہے
کہا تو یہ جاتا ہے کہ عورت اپنی پہلی محبت کبھی نہیں بھول پاتی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت کا انتقام بڑا جان لیوا اور خطرناک ہوتا ہے۔
علم نفسیات کی رو سے اِن دونوں باتوں کا تعلق عورت کے مخصوص مزاج اور نفسیات سے ہوتا ہے۔ آپ نے یہ بات بھی سُنی یا پڑھی ہوگی کہ عورت کو ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ اُسے سیدھا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ تیسری بات بھی عورت کے اُسی خاص نفسیاتی پہلو کی عکاسی کرتی ہے۔ پھر ایک اور محاورہ بھی آپ کی نگاہ سے گزرا ہوگا ''راج ہٹ، بالک ہٹ، تریاہٹ''، بادشاہ، بچّے اور عورت کی ضد۔ عورت جب اپنی ضد پر آجائے تو بڑے سے بڑا عقل مند اور دانش ور تو درکنار، عورت کا قریب ترین رشتہ دار بھی اُسے صحیح بات نہیں سمجھا سکتا۔ عورت کی ضِد اور ہٹ دھرمی بھی عورت کی نفسیات کے اُس خاص زاویے سے جُڑے ہوتے ہیں جِسے ماہرین نفسیات نے اپنی اصطلاح میں FIXATIONکا نام دیا ہوا ہے۔
ماہرین نفسیات کی تحقیقات میں مرد اور عورت کے نفسیاتی مدافعتی نظام PSYCHOLOGICAL DEFENCE MECHANISMS کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں۔ دونوں اصناف میں یہ مدافعتی نظام مختلف جہتوں اور سمتوں میں کام کررہے ہوتے ہیں۔ قدرت نے مردوں میں کچھ مخصوص مدافعتی نظاموں کو زیادہ طاقت ور بنایا ہوا ہے اور عورتوں میں کچھ دیگر نفسیاتی مدافعتی نظام زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ نفسیاتی مدافعتی نظام سے مُراد ہمارے لاشعور میں پوشیدہ ایسی سوچ اور ایسے روّیے ہوتے ہیں جو نامناسب اور ناہم وار حالات و واقعات کے درمیان ہماری نفسیات اور شخصیت کو پہنچنے والی ضربوں، تکلیفوں اور دُکھوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قدرت نے ہر اِنسان میں یہ آٹومیٹک حفاظتی سسٹم رکھا ہوا ہے تاکہ ناگوار اور ناپسندیدہ اور تکلیف دہ باتیں ہمارے ذہن کو مستقل اضطراب، بے چینی اور دُکھ کی حالت میں نہ رکھیں۔ بہ صورت دیگر چلتے پھرتے ہر لمحے ہم کِسی نہ کِسی ناپسندیدہ اور تکلیف دہ بات یا واقعے سے متاثر ہوتے رہتے اور ہماری نفسیات میں ہمہ وقت منفی اور انتشاری خیالات اور احساسات کے بگولے اُٹھتے رہتے۔ مختلف ذہنی، اعصابی اور نفسیاتی امراض میں یہ قدرتی نفسیاتی مدافعتی نظام چوںکہ کم زور ہوجاتے ہیں اِسی لیے متاثرہ افراد ان گنت جذباتی اُلجھنوں اور نفسیاتی علامتوں میں مبتلا دِکھائی دیتے ہیں۔
مرد ہو یا عورت، ہر ایک میں چند دفاعی نظام زیادہ متحرک و مضبوط ہوتے ہیں اور دیگر نامحسوس طریقے سے اپنا کام کررہے ہوتے ہیں۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ زندگی کے مختلف ادوار میں یا مختلف نوعیّت کے حالات میں مختلف نظام زیادہ فعال ہوجاتے ہیں اور دیگر معاملات میں دوسری طرح کے نظاموں کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جِس طرح ہم اپنے دِل اور دیگر بدنی اعضاء کے 24 گھنٹے مستقل کاموں یا حرکات کو ذرّہ برابر بھی محسوس نہیں کرسکتے، اِسی طرح ہم اِن نفسیاتی مدافعتی نظاموں کی لاشعوری سطح پر حرکت اور آٹوفلٹریشن کے عمل کو بھی اپنے دائرہ احساس میں نہیں لاسکتے۔ البتہ اِس حرکت کے نتیجے میں جب اور جو سوچ، عمل اور روّیہ ہم ظاہر کرتے ہیں اُس کی ماہرانہ Interpretation کوئی سائیکولوجسٹ یا سائیکاٹرسٹ ہی کرسکتا ہے۔ جیسے کہ دِل کا چیک اپ ماہر امراض قلب یا کارڈیولوجسٹ کرتا ہے یا گُردوں کے معائنے کیلئے ہمیں یورولوجسٹ یا نیفرولوجسٹ کے پاس جانا پڑتا ہے۔ ہر فرد تو درکنار، حتیٰ کہ ہر ڈاکٹر بھی ہر طرح کے جِسمانی نظام کو مکمل طور پر نہ سمجھ سکتا ہے نہ اُس کے افعال پر روشنی ڈال سکتا ہے۔
نفسیات اور نفسیاتی عوامل اور دیگر بدنی نظاموں میں ایک اہم اور واضح فرق اور ہوتا ہے۔ دُنیا کے تمام اِنسانوں کے لگ بھگ تمام بدنی نظام ایک مخصوص دائرے میں اپنے اپنے مخصوص کام کررہے ہوتے ہیں۔ اُن کی ساخت اور اُن کے کاموں کے مخصوص پیٹرن بھی لگ بھگ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دُنیا بھر کے طب کے ماہرین اُن کے معائنوں اور اُن سے منسلک امراض کی تشخیص میں بھی ایک جیسے طریقے اور ٹیسٹ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہر انسان کی نفسیات اور شخصیت، اُس کے فنگر پرنٹس کی طرح، دوسرے اِنسان سے مختلف ہوتی ہے۔ نفسیاتی امراض کی علامتیں تو ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ایک سی ہوسکتی ہیں، لیکن ہر انسان کی سوچ اور روّیے اور احساسات و جذبات، دوسرے فرد سے کِسی نہ کِسی درجے میں مختلف ضرور ہوتے ہیں۔ ڈیفنس میکنزم تو ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن ہر فرد میں اُن کا ردّعمل دوسرے فرد سے الگ ہوتا ہے۔
جذبات و احساسات، خصوصاً محبت اور نفرت کے حوالے سے بھی مرد اور عورت، دونوں میں جُداگانہ نفسیات، نفسیاتی عوامل اور ذہنی مدافعتی نظام کے الگ الگ ردعمل چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو عورت اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی محبت بُھلاکر خود کو شادی کے بعد پوری کی پوری اپنے شریک حیات کے سُپرد کردیتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اُس نے اپنے ماضی کے تمام بندھن ختم کردیے ہیں، تو دوسری طرف وہی عورت پھر اپنے شوہر کے اتنے قریب آجاتی ہے کہ وہ اپنی محبت میں شوہر کی کِسی اور سے شراکت داری بھی برداشت نہیں کرپاتی۔ خواہ وہ اُس کی ساس ہو یا نند یا کوئی اور۔ غلطی سے شوہر اگر کِسی اور عورت میں دل چسپی لے بیٹھے تو پھر قیامت ہی اُٹھا بیٹھتی ہے۔
لیکن شادی کے سال بھر بعد وہی عورت جِس نے پہلے ماں باپ کی محبت کو پسِ پشت ڈالا تھا اور شوہر پر جی جان سے فریفتہ تھی، اولاد کے پیدا ہوتے ہی اُس کی تمام تر توجہ اور محبت کا محور اُس کا بچّہ ہوجاتا ہے۔ پھر کہاں کا شوہر اور کیسا شوہر۔ قدرت کا ودیعت کردہ اعصابی دفاعی نظام عورت کی نفسیات میں اِس طرح یکے بعد دیگرے مختلف رنگوں کے زاویے دِکھاتا رہتا ہے۔
بظاہر عورت کی توجہ ومحبت کے دائرے، زندگی کے مختلف مراحل میں، بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن اُس کے ذہن کے نہاں خانوں میں ہر فرد کے لیے علیحدہ علیحدہ محبت کے الگ الگ محفوظ خانے بنے ہوتے ہیں۔ ایک خانے میں بند محبت کو وہ دوسرے خانے کی محبت کی ہوا تک نہیں لگنے دیتی۔ ماں، باپ، بہن بھائی، شوہر، بچّے، سب کی محبت کو الگ الگ رکھ رکھ کر سب کو اُن کے حساب سے توجہ دیتی رہتی ہے۔ کم کم ایسا ہوتا ہے چند چند عورتوں میں کہ اُس کی محبتوں کی ڈوریاں گِڈمِڈ ہوجائیں۔ نفسیاتی حقیقت کی وجہ سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ عورت اپنی پہلی محبت کو نہیں بھول پاتی۔ نفسیاتی توجیہہ سے بظاہر یہ بات سچ دِکھائی دیتی ہے لیکن ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری اور طرح کی محبت جب اُس کی توجہ کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو لامحالہ تمام محبتوں کا Proportion کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ختم نہیں ہوتا، ما سوائے اولاد سے محبت کے۔
قدرت نے پیدائشی طور پر عورت کے دِل میں بچّے کی پیدائش سے لے کر پرورش تک نہ صرف فطری ذمہّ داری کا احساس رکھا ہے، بلکہ نفسیاتی سطح پر اُسے اتنا مضبوط بھی بنایا ہے کہ وہ اولاد کی خاطر بڑے سے بڑا دُکھ بھی جھیل جاتی ہے۔ اولاد کی محبت، عام طور پر اُسے اگلی، پچھلی تمام محبتیں بھولنے پر مجبور کردیتی ہے، کیا پہلی کیا دوسری۔ حتیٰ کہ والدین کی محبت بھی پس پُشت چلی جاتی ہے۔ نسلِ انسانی کی بقا کے لیے قدرت کا یہ انوکھا نظام ہے۔
اِس نظام کو مرد و زن دونوں کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور عملی زندگی میں اِس کو لاگو کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ شادی اور اولاد کی پیدائش کے بعد، مرد اگر عورت سے پہلی جیسی محبت اور توجہ مانگتا رہے گا یا پہلی جیسی محبت اور توجہ نہ ملنے پر شاکی رہے گا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی طرح اگر عورت فطری نظام کے برخلاف اولاد کی پرورش اور تربیت پر مناسب وقت و توجہ نہیں دیتی، تب بھی ان گنت خاندانی اور معاشرتی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
دُنیا کے ہر معاملے کی طرح محبتوں کی تقسیم میں بھی توازن رکھنا ضروری ہے۔ اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب مرد اور عورت دونوں محبت کی سائیکالوجی کو جانتے ہوں اور اُس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
علم نفسیات کی رو سے اِن دونوں باتوں کا تعلق عورت کے مخصوص مزاج اور نفسیات سے ہوتا ہے۔ آپ نے یہ بات بھی سُنی یا پڑھی ہوگی کہ عورت کو ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ اُسے سیدھا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ تیسری بات بھی عورت کے اُسی خاص نفسیاتی پہلو کی عکاسی کرتی ہے۔ پھر ایک اور محاورہ بھی آپ کی نگاہ سے گزرا ہوگا ''راج ہٹ، بالک ہٹ، تریاہٹ''، بادشاہ، بچّے اور عورت کی ضد۔ عورت جب اپنی ضد پر آجائے تو بڑے سے بڑا عقل مند اور دانش ور تو درکنار، عورت کا قریب ترین رشتہ دار بھی اُسے صحیح بات نہیں سمجھا سکتا۔ عورت کی ضِد اور ہٹ دھرمی بھی عورت کی نفسیات کے اُس خاص زاویے سے جُڑے ہوتے ہیں جِسے ماہرین نفسیات نے اپنی اصطلاح میں FIXATIONکا نام دیا ہوا ہے۔
ماہرین نفسیات کی تحقیقات میں مرد اور عورت کے نفسیاتی مدافعتی نظام PSYCHOLOGICAL DEFENCE MECHANISMS کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں۔ دونوں اصناف میں یہ مدافعتی نظام مختلف جہتوں اور سمتوں میں کام کررہے ہوتے ہیں۔ قدرت نے مردوں میں کچھ مخصوص مدافعتی نظاموں کو زیادہ طاقت ور بنایا ہوا ہے اور عورتوں میں کچھ دیگر نفسیاتی مدافعتی نظام زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ نفسیاتی مدافعتی نظام سے مُراد ہمارے لاشعور میں پوشیدہ ایسی سوچ اور ایسے روّیے ہوتے ہیں جو نامناسب اور ناہم وار حالات و واقعات کے درمیان ہماری نفسیات اور شخصیت کو پہنچنے والی ضربوں، تکلیفوں اور دُکھوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قدرت نے ہر اِنسان میں یہ آٹومیٹک حفاظتی سسٹم رکھا ہوا ہے تاکہ ناگوار اور ناپسندیدہ اور تکلیف دہ باتیں ہمارے ذہن کو مستقل اضطراب، بے چینی اور دُکھ کی حالت میں نہ رکھیں۔ بہ صورت دیگر چلتے پھرتے ہر لمحے ہم کِسی نہ کِسی ناپسندیدہ اور تکلیف دہ بات یا واقعے سے متاثر ہوتے رہتے اور ہماری نفسیات میں ہمہ وقت منفی اور انتشاری خیالات اور احساسات کے بگولے اُٹھتے رہتے۔ مختلف ذہنی، اعصابی اور نفسیاتی امراض میں یہ قدرتی نفسیاتی مدافعتی نظام چوںکہ کم زور ہوجاتے ہیں اِسی لیے متاثرہ افراد ان گنت جذباتی اُلجھنوں اور نفسیاتی علامتوں میں مبتلا دِکھائی دیتے ہیں۔
مرد ہو یا عورت، ہر ایک میں چند دفاعی نظام زیادہ متحرک و مضبوط ہوتے ہیں اور دیگر نامحسوس طریقے سے اپنا کام کررہے ہوتے ہیں۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ زندگی کے مختلف ادوار میں یا مختلف نوعیّت کے حالات میں مختلف نظام زیادہ فعال ہوجاتے ہیں اور دیگر معاملات میں دوسری طرح کے نظاموں کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جِس طرح ہم اپنے دِل اور دیگر بدنی اعضاء کے 24 گھنٹے مستقل کاموں یا حرکات کو ذرّہ برابر بھی محسوس نہیں کرسکتے، اِسی طرح ہم اِن نفسیاتی مدافعتی نظاموں کی لاشعوری سطح پر حرکت اور آٹوفلٹریشن کے عمل کو بھی اپنے دائرہ احساس میں نہیں لاسکتے۔ البتہ اِس حرکت کے نتیجے میں جب اور جو سوچ، عمل اور روّیہ ہم ظاہر کرتے ہیں اُس کی ماہرانہ Interpretation کوئی سائیکولوجسٹ یا سائیکاٹرسٹ ہی کرسکتا ہے۔ جیسے کہ دِل کا چیک اپ ماہر امراض قلب یا کارڈیولوجسٹ کرتا ہے یا گُردوں کے معائنے کیلئے ہمیں یورولوجسٹ یا نیفرولوجسٹ کے پاس جانا پڑتا ہے۔ ہر فرد تو درکنار، حتیٰ کہ ہر ڈاکٹر بھی ہر طرح کے جِسمانی نظام کو مکمل طور پر نہ سمجھ سکتا ہے نہ اُس کے افعال پر روشنی ڈال سکتا ہے۔
نفسیات اور نفسیاتی عوامل اور دیگر بدنی نظاموں میں ایک اہم اور واضح فرق اور ہوتا ہے۔ دُنیا کے تمام اِنسانوں کے لگ بھگ تمام بدنی نظام ایک مخصوص دائرے میں اپنے اپنے مخصوص کام کررہے ہوتے ہیں۔ اُن کی ساخت اور اُن کے کاموں کے مخصوص پیٹرن بھی لگ بھگ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دُنیا بھر کے طب کے ماہرین اُن کے معائنوں اور اُن سے منسلک امراض کی تشخیص میں بھی ایک جیسے طریقے اور ٹیسٹ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہر انسان کی نفسیات اور شخصیت، اُس کے فنگر پرنٹس کی طرح، دوسرے اِنسان سے مختلف ہوتی ہے۔ نفسیاتی امراض کی علامتیں تو ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ایک سی ہوسکتی ہیں، لیکن ہر انسان کی سوچ اور روّیے اور احساسات و جذبات، دوسرے فرد سے کِسی نہ کِسی درجے میں مختلف ضرور ہوتے ہیں۔ ڈیفنس میکنزم تو ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن ہر فرد میں اُن کا ردّعمل دوسرے فرد سے الگ ہوتا ہے۔
جذبات و احساسات، خصوصاً محبت اور نفرت کے حوالے سے بھی مرد اور عورت، دونوں میں جُداگانہ نفسیات، نفسیاتی عوامل اور ذہنی مدافعتی نظام کے الگ الگ ردعمل چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو عورت اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی محبت بُھلاکر خود کو شادی کے بعد پوری کی پوری اپنے شریک حیات کے سُپرد کردیتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اُس نے اپنے ماضی کے تمام بندھن ختم کردیے ہیں، تو دوسری طرف وہی عورت پھر اپنے شوہر کے اتنے قریب آجاتی ہے کہ وہ اپنی محبت میں شوہر کی کِسی اور سے شراکت داری بھی برداشت نہیں کرپاتی۔ خواہ وہ اُس کی ساس ہو یا نند یا کوئی اور۔ غلطی سے شوہر اگر کِسی اور عورت میں دل چسپی لے بیٹھے تو پھر قیامت ہی اُٹھا بیٹھتی ہے۔
لیکن شادی کے سال بھر بعد وہی عورت جِس نے پہلے ماں باپ کی محبت کو پسِ پشت ڈالا تھا اور شوہر پر جی جان سے فریفتہ تھی، اولاد کے پیدا ہوتے ہی اُس کی تمام تر توجہ اور محبت کا محور اُس کا بچّہ ہوجاتا ہے۔ پھر کہاں کا شوہر اور کیسا شوہر۔ قدرت کا ودیعت کردہ اعصابی دفاعی نظام عورت کی نفسیات میں اِس طرح یکے بعد دیگرے مختلف رنگوں کے زاویے دِکھاتا رہتا ہے۔
بظاہر عورت کی توجہ ومحبت کے دائرے، زندگی کے مختلف مراحل میں، بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن اُس کے ذہن کے نہاں خانوں میں ہر فرد کے لیے علیحدہ علیحدہ محبت کے الگ الگ محفوظ خانے بنے ہوتے ہیں۔ ایک خانے میں بند محبت کو وہ دوسرے خانے کی محبت کی ہوا تک نہیں لگنے دیتی۔ ماں، باپ، بہن بھائی، شوہر، بچّے، سب کی محبت کو الگ الگ رکھ رکھ کر سب کو اُن کے حساب سے توجہ دیتی رہتی ہے۔ کم کم ایسا ہوتا ہے چند چند عورتوں میں کہ اُس کی محبتوں کی ڈوریاں گِڈمِڈ ہوجائیں۔ نفسیاتی حقیقت کی وجہ سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ عورت اپنی پہلی محبت کو نہیں بھول پاتی۔ نفسیاتی توجیہہ سے بظاہر یہ بات سچ دِکھائی دیتی ہے لیکن ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری اور طرح کی محبت جب اُس کی توجہ کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو لامحالہ تمام محبتوں کا Proportion کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ختم نہیں ہوتا، ما سوائے اولاد سے محبت کے۔
قدرت نے پیدائشی طور پر عورت کے دِل میں بچّے کی پیدائش سے لے کر پرورش تک نہ صرف فطری ذمہّ داری کا احساس رکھا ہے، بلکہ نفسیاتی سطح پر اُسے اتنا مضبوط بھی بنایا ہے کہ وہ اولاد کی خاطر بڑے سے بڑا دُکھ بھی جھیل جاتی ہے۔ اولاد کی محبت، عام طور پر اُسے اگلی، پچھلی تمام محبتیں بھولنے پر مجبور کردیتی ہے، کیا پہلی کیا دوسری۔ حتیٰ کہ والدین کی محبت بھی پس پُشت چلی جاتی ہے۔ نسلِ انسانی کی بقا کے لیے قدرت کا یہ انوکھا نظام ہے۔
اِس نظام کو مرد و زن دونوں کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور عملی زندگی میں اِس کو لاگو کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ شادی اور اولاد کی پیدائش کے بعد، مرد اگر عورت سے پہلی جیسی محبت اور توجہ مانگتا رہے گا یا پہلی جیسی محبت اور توجہ نہ ملنے پر شاکی رہے گا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی طرح اگر عورت فطری نظام کے برخلاف اولاد کی پرورش اور تربیت پر مناسب وقت و توجہ نہیں دیتی، تب بھی ان گنت خاندانی اور معاشرتی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
دُنیا کے ہر معاملے کی طرح محبتوں کی تقسیم میں بھی توازن رکھنا ضروری ہے۔ اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب مرد اور عورت دونوں محبت کی سائیکالوجی کو جانتے ہوں اور اُس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔