کوئی کچھ بھی کہے سابق آقا انگریز نے قانون کھرا دیا سپریم کورٹ
الزام جرم سے ملاپ نہ کھائے تو زیرحراست نہیں رکھا جاسکتا، جسٹس دوست کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس
سپریم کورٹ کے جسٹس دوست محمد خان نے ایک مقدمہ قتل میں ملزم کی ضمانت کی درخواست کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ چاہے کوئی کچھ بھی کہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے سابق آقا انگریز نے قانون بہت کھرا دیا ہے۔
جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے گندی گڑھ ضلع دیر بالا میں قتل کے ملزم عقیل خان کی درخواست ضمانت منظورکرتے ہوئے قرار دیا کہ محض الزام پرکسی کے حق آزادی کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے ایک سابقہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ تفتیشی افسرکیلیے الزام کو ثبوت کے ذریعے جرم سے جوڑنا لازمی ہے، ٹھوس مواد کے بغیر الزام جرم سے ملاپ نہ کھا رہا ہو تو ملزم کو زیر حراست نہیں رکھا جا سکتا۔
ملزم عقیل خان کے وکیل ضیا الرحمن تاجک نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل پر ذاکراللہ کے قتل کا الزام ہے لیکن نہ تو واقعے کا کوئی عینی شاہدہے اور نہ دونوں کے درمیان وجہ عناد ثابت ہے۔ لاش ملزم کے گھر سے برآمد ہوئی لیکن واردات کے وقت ملزم گھر میں موجود نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے اغوا اور قتل میں ملوث پولیس افسر اسماعیل لاشاری کا مقدمہ انسداد دہشتگردی کی عدالت کے بجائے عام عدالت میں چلانے کی درخواست واپس لینے پر خارج کردی۔
واضح رہے کہ کراچی میں جماعت دہم کے طالب علم17 سالہ انیس الرحمن سومرو سمیت 3 افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے پریہ مقدمہ درج کیاگیا تھا۔ ایس ایچ او اسماعیل لاشاری نے طالب علم کے والد سے 5 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا اور رقم نہ ملنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی، جب لڑکے کی بازیابی کیلیے عدالت سے رجوع کیاگیا تو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ جرائم میں سندھ پولیس کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے متعددکیس سامنے آچکے ہیں، چند دن پہلے ایک صوبائی وزیرکے بیٹے کو کراچی سے اغوا کیا گیا اور جب چھاپہ مارا گیا تو وہاں سے پولیس اہلکار گرفتار ہوا۔ فاضل جج نے کہاکہ سندھ پولیس میں جرائم پیشہ افراد گھس گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے توہین مذہب سے متعلق مقدمے کے ملزم کو سنائی گئی 3سال سزا معطل کرنے کا تحریری آرڈرجاری کردیا ہے۔
جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل بینچ نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ملزم مروت حسین کی درخواست ضمانت پر تحریری حکم جاری کرتے ہوئے ملزم کی درخواست ضمانت منظورکرلی ہے اور اسے ایک لاکھ روپے کے 2 مچلکے ٹرائل کورٹ یا ڈیوٹی مجسٹریٹ کے پاس جمع کرانے پررہا کرنے کاحکم دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وکیل صفائی ذوالفقارنقوی نے دلائل میں کہا کہ ملزم اسلام پر مکمل ایمان و یقین کامل رکھتا ہے اور ریکارڈ کے مطابق اس نے جوکچھ کہا وہ ''صحیح بخاری'' کی مستند حدیث کے مطابق ہے، جس جرم کی ملزم کو سزا دی گئی ہے وہ جرم ثابت نہیں ہوسکا۔
جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے گندی گڑھ ضلع دیر بالا میں قتل کے ملزم عقیل خان کی درخواست ضمانت منظورکرتے ہوئے قرار دیا کہ محض الزام پرکسی کے حق آزادی کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے ایک سابقہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ تفتیشی افسرکیلیے الزام کو ثبوت کے ذریعے جرم سے جوڑنا لازمی ہے، ٹھوس مواد کے بغیر الزام جرم سے ملاپ نہ کھا رہا ہو تو ملزم کو زیر حراست نہیں رکھا جا سکتا۔
ملزم عقیل خان کے وکیل ضیا الرحمن تاجک نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل پر ذاکراللہ کے قتل کا الزام ہے لیکن نہ تو واقعے کا کوئی عینی شاہدہے اور نہ دونوں کے درمیان وجہ عناد ثابت ہے۔ لاش ملزم کے گھر سے برآمد ہوئی لیکن واردات کے وقت ملزم گھر میں موجود نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے اغوا اور قتل میں ملوث پولیس افسر اسماعیل لاشاری کا مقدمہ انسداد دہشتگردی کی عدالت کے بجائے عام عدالت میں چلانے کی درخواست واپس لینے پر خارج کردی۔
واضح رہے کہ کراچی میں جماعت دہم کے طالب علم17 سالہ انیس الرحمن سومرو سمیت 3 افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے پریہ مقدمہ درج کیاگیا تھا۔ ایس ایچ او اسماعیل لاشاری نے طالب علم کے والد سے 5 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا اور رقم نہ ملنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی، جب لڑکے کی بازیابی کیلیے عدالت سے رجوع کیاگیا تو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ جرائم میں سندھ پولیس کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے متعددکیس سامنے آچکے ہیں، چند دن پہلے ایک صوبائی وزیرکے بیٹے کو کراچی سے اغوا کیا گیا اور جب چھاپہ مارا گیا تو وہاں سے پولیس اہلکار گرفتار ہوا۔ فاضل جج نے کہاکہ سندھ پولیس میں جرائم پیشہ افراد گھس گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے توہین مذہب سے متعلق مقدمے کے ملزم کو سنائی گئی 3سال سزا معطل کرنے کا تحریری آرڈرجاری کردیا ہے۔
جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل بینچ نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ملزم مروت حسین کی درخواست ضمانت پر تحریری حکم جاری کرتے ہوئے ملزم کی درخواست ضمانت منظورکرلی ہے اور اسے ایک لاکھ روپے کے 2 مچلکے ٹرائل کورٹ یا ڈیوٹی مجسٹریٹ کے پاس جمع کرانے پررہا کرنے کاحکم دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وکیل صفائی ذوالفقارنقوی نے دلائل میں کہا کہ ملزم اسلام پر مکمل ایمان و یقین کامل رکھتا ہے اور ریکارڈ کے مطابق اس نے جوکچھ کہا وہ ''صحیح بخاری'' کی مستند حدیث کے مطابق ہے، جس جرم کی ملزم کو سزا دی گئی ہے وہ جرم ثابت نہیں ہوسکا۔