کتنا کٹھن ہے جیون
ہاتھ پیر سے معذور نوجوان ایاز خان کی حالات سے نبردآزما زندگی کا قصہ.
KARACHI:
اسے دیکھ کر ہمت رقص کرتی، گنگناتی، مسکراتی ہے۔ حوصلہ اس پر فخر کرتا ہے۔
اس نے بے بسی کو پائے حقارت تلے روند ڈالا ہے۔ مایوسی اس کی لغت میں ہی نہیں ہے۔ اس نے اتنی سی عمر میں زمانے کے سفاک رویے دیکھے ہیں، عجیب سی نظروں کا سامنا کیا ہے، سرد وگرم جھیلے ہیں، لیکن وہ سربلند رہا ہے۔ سرخ رو رہنا وہ جانتا ہے۔ اس نے کسی باب رعایت کا انتخاب نہیں کیا، اپنی جواں مردی سے اپنے لیے راستہ چُنا ہے اور پھر اس پر استقامت اور ثابت قدمی سے روانہ ہوا ہے۔
بہت سے پڑاؤ آئے ہیں اس راہ میں، اور اتنی آسانی سے نہیں، بہت مشکلات سے گزرا، لیکن کوئی اس کی راہ کھوٹی نہیں کرسکا۔ اس کی نظریں منزل پر ہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ منزل ابھی دور ہے، لیکن اس کا پرعزم چہرہ، روشن آنکھیں اور ہمت یہ صاف بتاتی ہیں کہ وہ ضرور اپنی منزل پر پہنچ کر دم لے گا۔ یہ ایاز خان ہے۔ بہ ظاہر معذور اور ناتواں نظر آنے والا یہ جوان، صرف جواں ہی نہیں، جواں ہمت اور عالی حوصلہ بھی ہے۔ اس نے اپنی معذوری کو کم زوری نہیں، طاقت بنالیا ہے۔ اپنی دُھن میں مگن ایاز خان عزم وہمت کی چلتی پھرتی مثال اور ہمارے نوجوانوں کے لیے روشن مینار ہے۔
آئیے! ایاز خان سے ملتے ہیں۔ ایاز خان نے 1987 میں رئیس احمد کے گھر آنکھ کھولی۔ وہ سات بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر مُڑے ہوئے اور توانائی سے محروم ہیں۔
''میں معذور پیدا ہوا ہوں، بس اﷲ تعالیٰ کی مصلحت ہے وہ جو چاہے کرے، وہ بے نیاز ہے۔ میرے سارے بہن بھائی تن درست ہیں، میری پیدائش پر جہاں سب خوش ہوئے، وہیں انہیں اداسی و پریشانی نے بھی گھیر لیا۔ میری والدہ بتاتی ہیں یہ سب کچھ ۔ میرے والد صاحب چھوٹا موٹا تعمیرات کا کام کرتے ہیں، بہت پریشان ہوئے وہ، ظاہر ہے وہ اپنی اولاد کو اس حالت میں دیکھ کر افسردہ ہی ہوتے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو تھوڑا سا میں بھی پریشان ہوا، لیکن کیا ہوتا ہے پریشان ہونے سے؟ مصیبت تو نہیں ٹل جاتی۔ پھر میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب جو ہے سو ہے، میں اپنی اس معذوری کا مقابلہ کروں گا۔ لیکن اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنا مشکل ہوگا جیون۔ سب گھر والے میرا بے حد خیال رکھتے تھے، لیکن اصل زندگی تو باہر کی ہے۔ جب انسان گھر سے باہر قدم رکھے تب معلوم ہوتا ہے کہ کتنا کٹھن ہے جیون۔ میں لڑکی تو تھا نہیں کہ گھر میں بیٹھتا رہتا۔
مرد بچہ ہوں باہر تو نکلنا تھا۔ زمانے کا سامنا تو کرنا ہی تھا۔ سو میں باہر نکلا، میں نے دیکھا سب بچے اسکول جاتے ہیں، میں نے بھی پڑھنے کا فیصلہ کیا اور پھر مجھے اسکول میں داخل کرادیا گیا۔ پہلے تو داخلہ ہی اتنی مشکل سے ملا کہ ہم اسے کیسے سنبھالیں گے، باقی بچے اس کی وجہ سے پریشان ہوں گے، یہ ہوگا وہ ہوگا۔ داخلہ تو مل گیا، لیکن مجھے وہ اسکول چھوڑنا پڑا۔ وجوہات وہی کے سب پریشان ہوتے ہیں۔ پھر میں نے معلومات حاصل کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا کہ قریب ہی الشفاء اسکول ہے، جس میں معذور بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔
میں نے اس اسکول میں داخل لے لیا۔ بہت اچھے بہت ملنسار اور مخلص لوگ تھے وہ۔ سارے اساتذہ بہت شفیق اور مددگار، ہر وقت بچوں کی تربیت اور مد د کے لیے تیار۔ میں معذور تو تھا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے مجھے بہت اچھے ذہن سے نوازا ہے۔ کہتے ہیں ناں اور بالکل سچ کہتے ہیں کہ اگر اﷲ تعالیٰ کوئی کمی کرتا ہے ، اور ظاہر ہے وہ سب کچھ بہتر جانتا ہے، تو اس کمی کو دوسری اعلیٰ صلاحیت سے نوازتے ہوئے پورا کردیتا ہے۔ وہ رحیم و کریم ہے ناں۔ اس ربّ العالمین نے مجھے بہترین ذہن سے نوازا ہے۔ میری قوت مشاہدہ بھی انتہائی اچھی ہے۔ یادداشت بہت اچھی ہے۔ میں بہت جلد سیکھتا ہوں، بس آپ مجھے شروع کرادیں، تھوڑا سا بتادیں، باقی اسے انتہا پر میں خود پہنچا سکتا ہوں۔ یہ سب صلاحیتیں دیکھتے ہوئے الشفاء اسکول نے مجھے ابتداء ہی میں تیسری جماعت میں داخل کرلیا۔ 1997کا دور ہے جب میں نے باقاعدہ اسکول جانا شروع کیا۔ اسکول کے اساتذہ بہت محبت کرتے تھے مجھ سے۔
وہ تو سب کا خیال رکھتے تھے۔ آپ نے سنا ہے ناں! جس کا کوئی نہیں اس کا تو خدا ہے یارو! میں نہیں کہتا کتابوں میں لکھا ہے پیارو۔ سو فیصد صحیح بات ہے اور اب تو میرا یہ تجربہ بھی ہے۔ میں نے اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر پڑھنا شروع کیا۔ کچھ عرصے بعد الشفاء اسکول ہمارے علاقے سے ایئرپورٹ کے قریب منتقل ہوگیا۔ اب مجھے نیا مرحلہ درپیش تھا۔ بات ان کی بھی درست تھی کہ اس علاقے میں، میں واحد طالب علم تھا جو یہاں زیرتعلیم تھا اور باقی بچے دوسری جگہوں سے آیا کرتے تھے۔ اسکول انتظامیہ نے جب اسکول منتقل کیا تو میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے آمد و رفت کی سہولت فراہم کردیں، لیکن شاید یہ ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس طرح میرا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے شاہین اسکول جو ہمارے علاقے میں تھا داخلہ لیا اور 2006 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
مجھے ابتداء سے ہی کمپیوٹر پر کام کرنے کا شوق تھا اور میرا بیشتر وقت کمپیوٹر پر گزرتا تھا۔ اس دوران گھر والوں کو کسی نے مشورہ دیا کہ سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ مجھے کسی بہت اچھے ماہر ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔ گھر والوں نے ایک ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور میرا علاج شروع ہوا۔ علاج کیا تھا، اک عذاب تھا۔ وہ مجھے الیکٹرک شاک لگاتے تھے۔ اس سے مجھے اور زیادہ تکلیف ہونے لگی، پھر آپریشن کا کہا گیا اور ہم نے وہ آپریشن کرایا بھی، بہت زیادہ پیسے خرچ ہوگئے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ میں کمزور سے کم زور ہوتا چلا گیا۔ اب سوچتا ہوں کہ مجھے وہ علاج نہیں کرانا چاہیے تھا، لیکن اب تو یہ ہوچکا تھا۔ خیر پھر فزیو تھراپی کراتا رہا اور نتیجہ صفر، کسی اور نے مشورہ دیا کہ خاص قسم کے جوتے بنائے جاتے ہیں، جس سے پاؤں صحیح ہوجاتا ہے۔
ہم نے بھی بنوائے اور جب میں نے وہ جوتے استعمال کرنا شروع کیے تو اپنی تکلیف کا بتا نہیں سکتا، بہت تکلیفیں برداشت کیں میں نے۔ آخر تنگ آکر میں نے وہ جوتے بھی پہننا چھوڑ دیے۔ ناقابل برداشت تکلیف ہوتی تھی انہیں پہن کے۔ بس میں نے بیساکھیاں لیں اور میدان عمل میں نکل پڑا۔ کوئی کب تک آپ کا ساتھ نبھا سکتا ہے؟ زندگی بھر کا ساتھ نبھانا تو ممکن نہیں ہے ناں، میں نے خود اپنا ہر کام کرنا شروع کیا حالاںکہ میرے سارے گھر والے بہت زیادہ خیال رکھنے والے ہیں۔ میں اپنے کپڑے دھوتا، انہیں استری کرتا، اپنے سارے کام خود کرتا تھا، پھر باورچی خانے میں اپنی ماں کا ہاتھ بھی بٹاتا تھا۔ مجھے روٹی اور سالن بنانا بھی آتا ہے۔ پھر گھر والوں نے سوچا کہ اب میرے کام کا کوئی انتظام کریں تو اس طرح میں نے اپنے محلے ہی میں پرچون کی دکان کھول لی، آہستہ آہستہ کام چلنے لگا، معاشی حالات سب کے خراب ہیں تو لوگوں نے ادھار لینا شروع کردیا۔
میں نے بھی سوچا کہ چلو دے دیں گے، لیکن وہ کہتے ہیں ناں ادھار محبت کی قینچی ہے۔ درست کہتے ہیں۔ لیکن مجھے ایک مقولہ زیادہ پسند ہے اور وہ یہ کہ ''ادھار ایک ایسا جادو ہے کہ اگر ہم نے آپ کو دیا تو آپ غائب ہوجائیں گے۔'' یہ ہے بالکل صحیح بات۔ ایسا ہی ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوا بھی۔ ادھار لے کر لوگ غائب ہونا شروع ہوگئے۔ اب میں معذور بندہ کس کس کے پیچھے بھاگتا پھرتا۔ قصہ مختصر یہ کہ نقصان ہوگیا اور نقصان بھی تھوڑا نہیں، اچھا خاصا تقریباً ڈھائی تین لاکھ کا نقصان۔ دکان بند کرنا پڑی ۔ اب کیا کیا جائے پھر سوچا اور گرہ اس پر بندھی کہ موبائل فون کی دکان کھولی جائے۔ تو میں نے موبائل فون کی دکان کھول لی۔ کچھ عرصے میں دکان چلنے لگی، میں نے بھی نئے موبائل سے دکان بھرلی تھی اور شکر ہے مالک کا اچھی چل رہی تھی۔ پھر ایک مصیبت آن کھڑی ہوئی۔
ایک دن میں دکان میں تھا کہ تین لڑکے دکان میں داخل ہوئے، ایک نے میرے سر پر ٹی ٹی پستول رکھ دیا اور باقی دونوں نے سارے موبائل فون سمیٹنا شروع کردیے۔ میرے پاس جو پیسے تھے وہ بھی چھین لیے اور جاتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر تم نے پولیس میں ایف آئی آر درج کرائی تو ہم تمہیں جان سے ماردیں گے۔ لوجی پھر سے نقصان، اس بار تو زیادہ نقصان ہوا۔ اور پھر دکان بند کرنا پڑی۔ ٹھیک ہے میرے تجربات تلخ تھے۔ نقصان بھی ہوا۔ لیکن زندگی تو گزارنی تھی، کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ میں نے بہت سوچا اور ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لے لیا اور سیکھنا شروع کردیا۔ وہاں بہت اچھے ٹیچر مل گئے، ایک ماہ میں جو لوگ سیکھتے تھے میں نے ایک ہفتے ہی میں مکمل کرلیا، تو وہ بہت خوش ہوئے۔ اس طرح میں نے ایم ایس آفس، گرافک ڈیزائننگ، کمپیوٹر لینگویج اور دیگر کورس مکمل کیے۔
میرا سب سے زیادہ پسندیدہ شعبہ گرافک ڈیزائننگ ہے۔ جب میں یہ سیکھ گیا تو میں نے سوچا سرکاری ملازمت کرلیتا ہوں۔ میں نے نہ جانے کہاں کہاں درخواستیں دیں، نتیجہ صفر۔ یہ جو کہتے ہیں کہ حکومت نے معذوروں کا مخصوص کوٹا رکھا ہے۔ نہ جانے وہ کہاں رکھا ہے؟ کبھی سوچتا ہوں وہ کوٹا رکھ کر بھول گئے ہیں، ہنسی آتی ہے مجھے۔ نہ جانے کن معذوروں کو ملتی ہیں وہ ملازمتیں۔ اس دوران مجھے ایک صاحب ملے اور کہنے لگے دو لاکھ روپے کا انتظام کرلو تمہیں سرکاری ملازمت دلادوں گا۔ میں نے سوچا گھر والوں کا اتنا نقصان ہوگیا ہے اور اب دو لاکھ کا انتظام بھی وہ کریں۔ اچھا وہ کر بھی لیتے، لیکن اس کی کیا ضمانت تھی کہ وہ ملازمت مجھے مل بھی جاتی۔ اس طرح میں نے یہ خیال دل سے نکال دیا۔ میرٹ پر ملازمت ملی تو ضرور کروں گا، رشوت تو میں کسی حال میں نہیں دوں گا۔
پھر اﷲ کا کرنا یہ ہوا کہ میرا بھائی ایک کمپنی میں کام کرتا ہے۔ اس نے وہاں بات کی، میں نے انٹرویو دیا اور مجھے منتخب کرلیا گیا۔ اب میں یہاں کمپیوٹر آپریٹر ہوں، اکاؤنٹ کے شعبے میں اور میرے کام سے سب لوگ بہت خوش ہیں۔ میں محنت سے کام کرتا ہوں اور محنت کا پھل اﷲ ضرور دیتا ہے۔ جب میں برسر روزگار ہوا تو میری والدہ کو میری شادی کی فکر ستانے لگی۔ ہر والدہ کو اپنا ہی بیٹا اچھا لگتا ہے ناں۔ زیادہ فکر اس لیے ہوگئی کہ مجھ سے چھوٹے بھائی کی شادی ہوگئی اور اس سے چھوٹے کی منگنی۔ امی نے سوچا کہ میں افسردہ رہوں گا اور نہ جانے کیا سوچتا رہوں۔ وہ میری اداسی برداشت نہیں کرسکتی تھیں تو اس طرح میرے لیے لڑکی کی تلاش شروع کی گئی۔ قصہ طویل ہوجائے گا، بہت لوگوں نے رضامندی ظاہر کی اور پھر انکار کردیا۔ بالآخر ایک لڑکی نے حامی بھرلی۔ میں نے اسے سب کچھ صاف صاف بتادیا کہ جو کچھ ہوں تمہارے سامنے ہوں۔ اس نے اور اس کے گھر والوں نے کہا کہ جو قسمت نصیب میں ہوگا دیکھا جائے گا اور اس طرح میری منگنی ہوگئی۔
ہم سب بہت خوش تھے۔ میں تو بہت خوش تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ ہم اکثر ملتے تھے، باتیں کرتے تھے اور وہ میرا بہت خیال رکھتی تھی اور میں بھی اس کا۔ ہم ملتے اس لیے تھے کہ وہ مجھے اچھی طرح سے سمجھ لے اور مطمئن ہوجائے۔ ہم بہت گھومے پھرے، بہت اچھا وقت گزرا۔ آٹھ ماہ پلک جھپکتے میں گزر گئے، کہتے ہیں ناں کہ سہانا وقت جلد ہی خواب بن جاتا ہے، بس یہی ہوا۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہماری محبت کو، گذشتہ تیرہ دن سے وہ روٹھ گئی ہے۔ وجہ بھی نہیں بتاتی۔ اتنی کوشش کی کہ وجہ تو بتادو، اس نے رابطہ ہی منقطع کرلیا۔ اس کے گھر والوں سے پوچھا وہ کہتے ہیں لڑکی سے پوچھو۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ اصولاً تو انہیں بتانا چاہیے، کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے، تو بات چیت کے ذریعے رفع ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی بات ہی نہ کرنا چاہے تو کتنی اذیت ہوتی ہے۔ کسی کی محبت کا مذاق اڑانا کتنا بڑا اور سنگین گناہ ہے۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا، دلوں کا حال اﷲ تعالیٰ جانتا ہے۔ اب بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ میری زندگی میں خوشی بن کر آئی اور وہ ہمیشہ خوشی بن کر رہے ۔
اﷲ تعالیٰ ان کا دل صاف کردے، اس سے بات نہیں ہوتی تو میں اپنی اذیت بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے پورے اخلاص سے محبت سے اسے اپنایا ہے۔ کیسے بھول سکتا ہوں اسے؟ آپ بھی دعا کریں ناں میرے لیے۔ اتنا اداس تو میں زندگی بھر نہیں رہا، جتنا ان چند دنوں میں ہوگیا ہوں۔ یہ کچھ دن تو میرے لیے صدیاں بن گئے ہیں۔ میں اپنے کام خود کرتا ہوں، میں کسی پر بوجھ نہیں ہوں، اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے برسر روزگار ہوں۔ ہمارے پاس اﷲ کی ہر نعمت ہے، کام ہے، گھر ہے۔ گاڑی ہے، اب میں معذور ہوں تو کیا ہوا، اﷲ تعالیٰ کی مرضی ہے یہ تو۔
میں گاڑی بھی چلا سکتا ہوں، گھومتا پھرتا ہوں ۔ اچھے لوگ بھی ہیں دنیا میں، کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ میں اسٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑا تھا، تو لوگوں نے آکر مجھے پیسے دینے کی کوشش کی، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ میں کام کرتا ہوں۔ آپ کا بہت شکریہ! کچھ نے تو بہت اصرار بھی کیا کہ تم ہمارے بھائی ہو، ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں، لیکن میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور محبت سے ٹال دیا۔ اب تو مجھے ہماری کمپنی کے مالک عارف صاحب نے بہت آرام دہ جوتے لاکر دیے ہیں۔ بہت سہولت ہوگئی ہے۔ پہلے میرے پاؤں بہت زخمی ہوجاتے تھے، کبھی کانٹا لگ جاتا تھا، کبھی کانچ سے زخمی ہوجاتا تھا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور کبھی نہیں ہاروں گا۔ میں زندگی کا سامنا کروں گا۔
مجھے جہاں تلخ تجربات ہوئے ہیں وہیں بہت خوب صورت لمحات بھی دیکھے ہیں۔ دنیا اسی کا نام ہے، مستقبل میں گرافک ڈیزائنر بن کر ملک و قوم کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں، انشاء اﷲ کروں گا۔ میں ایک مثال بن کر دکھاؤں گا، میں فارغ وقت میں کمپیوٹر کی کلاسز لیتا ہوں اور اپنی استعداد بڑھاتا ہوں۔ گھومتا پھرتا ہوں، گھر والوں کا ہاتھ بٹاتا ہوں، خوش رہتا ہوں، خوش رکھتا ہوں۔ اگر آپ کو خوش رہنا ہے تو دوسروں کی خوشی کا ضرور خیال رکھیے۔ بس آپ دعا کریں کہ وہ مجھے اپنی زندگی میں قبول کرلے۔ میں اسے ہر حال میں خوش رکھوں گا۔ اس سے زیادہ میں آپ کو اپنی کہانی کیا سناؤں؟ آپ سدا خوش رہیں۔
میں نے اسے گلے لگایا، ہاں میں ضرور دعا کروں گا کہ وہ (ایاز کی منگیتر) تمہارے جیون میں خوشیوں کی بہار اور گلوں کا نکھار بن کر آئے، میں چلتا ہوں، ہاں وہ ضرور آئے گی۔''
یہ سراب مجھ پہ کھلا نہیں
کسی روز مجھ کو بتا ہی دو کہ کہاں ہو تم
سر ریگ ہو کہ نظر میں ہو؟
مرے پاس ہو کہ مری نگاہ کی پیاس ہو؟
کسی روز خود سے نکل پڑو
مجھے دیکھ لو