بہن کے جنازے پر جانے والا پاکستانی

اسے ذرا روک کر رکھیئے گا بھائی صاحب، آج میں اِس کا ٹکٹ کروا ہی دیتا ہوں

جو حقیقی طور پر مدد کے مستحق ہیں وہ بھی اِس قسم کے دھوکا بازوں کی وجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI:






ایک عرصے سے میں شارجہ میں مقیم ہوں، تین روز قبل میں نے ایک پٹرول پمپ پر گاڑی روکی تو اچانک ایک نوجوان لڑکا میرے پاس آکر پوچھنے لگا کہ آپ پاکستانی ہیں؟ میں نے کہا جی پاکستانی ہوں۔ کہنے لگا کہ میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے، میرا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور میں فوری پاکستان جانا چاہتا ہوں۔ یہ میرا پاسپورٹ اور ٹکٹ ہے۔ ساتھ ہی وہ زار و قطار رونے لگا۔ میرے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا اُس کا دل پسیجا تو کہنے لگا پاپا اِس کی مدد کیجیے۔ میں نے پوچھا ٹکٹ آپ کے پاس ہے اور پاسپورٹ بھی تو پھر مسئلہ کیا ہے اب؟


میرے استفسار پر اُس نے بتایا کہ میں چار دن پہلے وِزٹ ویزے پر آیا ہوں اور نوکری تلاش کررہا تھا کہ اچانک میری جوان بہن کے انتقال کی اطلاع ملی ہے، اور اب مجھے واپس جانا پڑے گا۔ آج رات میری بہن کی تدفین ہے اور پھر زار و قطار رونے لگا۔ اُس کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا کہ کیا میں کچھ مدد کرسکتا ہوں؟ اُس نے آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے مجھے دیکھا اور کہا کہ مجھے 170 درہم چاہیئں، ٹکٹ کی تاریخ تبدیل کروانی ہے۔ میں نے اُسے گاڑی ساتھ بٹھایا اور سیدھا دوبئی میں واقع پی آئی اے کے آفس کی راہ لی۔ دورانِ سفر وہ کہنے لگا کہ میرے والد بہت پریشان ہیں، میری اُن سے بات کروادیں۔ میں نے اپنا موبائل اُسے تھمادیا، اُس نے نمبر ملایا اور بات کرنا شروع کردی۔


وہ بات بھی کررہا تھا اور ساتھ رو بھی رہا تھا۔ اُس نے اپنے والد کو حوصلہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک پاکستانی بھائی سے ملاقات ہوئی ہے اور اِس مشکل وقت میں یہ میری مدد کررہے ہیں۔ اِس وقت یہ میرا ٹکٹ تبدیل کروانے لے جارہے ہیں۔ میرا ٹکٹ تبدیل ہوگیا تو میں آج رات تک بہن کی تدفین کیلئے پہنچ جاؤں گا۔ اُس نے پھر مجھے اپنا فون تھمادیا کہ میرے والد صاحب سے بات کیجئے۔ اُس کے والد رو رہے تھے اور میرا شکریہ ادا کررہے تھے۔ مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہنے لگے کہ کسی طرح میرے بیٹے کو واپس بھجوا دیں۔ میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ فکر نہ کریں ہم تھوڑی دیر میں ٹکٹ تبدیل کروادیں گے اور جو بھی فلائٹ دستیاب ہوگی اُس کے ذریعے آپ کا بیٹا پاکستان پہنچ جائے گا۔


اُس وقت میں نوٹ کیا سوائے اُس کے والد کی آواز کے پس منظر میں کسی قسم کے شور و غُل کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، جو عموماً اس مواقعوں پر رشتہ داروں اور اہل خانہ کے جمع ہونے سے ہوا کرتا ہے۔ خیر میں نے اُن کو دِلاسہ دیتے ہوئے مرحومہ کی مغفرت کی دعا دے کر فون بند کردیا۔ پی آئی اے آفس بھی آ ہی چکا تھا، میں نے اُس کا پاسپورٹ اور ٹکٹ کاؤنٹر پر دیا اور گزارش کی کہ لاہور، اسلام آباد، کی کسی بھی فلائٹ کا ٹکٹ کردیجیئے، چاہے جتنا بھی اضافی خرچہ آئے۔


آفس اسٹاف نے چیک کر کے بتایا کہ کراچی کی فلائٹ دستیاب ہے، اِس میں سیٹ مل جائے گی جس کے بعد آپ شام تک لاہور پہنچ سکتے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، اسی وقت آپ فوری ٹکٹ تبدیل کردیں پھر ہم ائیر پورٹ روانہ ہوجائیں گے( یاد رہے کہ پی آئی اے آفس سے ائیر پورٹ کا فاصلہ صرف تین چار کلومیٹر تک کا ہوگا)۔


یہ تمام صورت حال دیکھ کر وہ لڑکا کہنے لگا ٹھہرئیے! مجھے تھوڑا وقت دیجیے، میں اپنے باپ سے بات کر کے آپ کو حتمی فیصلہ بتاتا ہوں۔ ایک بار پھر میں نے اسے نمبر ملا کر موبائل فون دے دیا۔ وہ دو منٹ بات کرنے بعد اُس نے فون مجھے واپس تھماتے ہوئے بتایا کہ میرے والد صاحب کہہ رہے ہیں کراچی والی فلائٹ سے تم دیر سے پہنچو گے، تدفین اِس پہلے ہی کردی جائے گی، لہذا پھر تمہارا واپس آنا بیکار ہے، لہذا اب جو اللہ کو منظور ہے وہی ہونا ہے۔ اب میں واپس نہیں جاؤں گا یہیں نوکری کی تلاش جاری رکھوں گا۔ یہ کہہ کر وہ پھر روتے ہوئے واپسی کیلئے مڑا، میں نے اسے آواز دی اور سو درہم دیئے کہ یہ لیتے جاؤ شاید کچھ کام آسکیں۔



میں نے پی آئی اے اسٹاف کے چہروں پر معنی خیز تاثرات دیکھے تو پوچھنا ہی پڑا کہ یہ آج میرے ساتھ ہی ہوا ہے یا ایسا ہوتا رہتا ہے؟ اُنہوں نے بتایا کہ جناب یہ آپ کے ساتھ پہلی بار ہوا ہے جب کہ ہم آئے روز یہ سب دیکھتے ہیں۔ خیر یہ جان کر میرا ضمیر مطمئن تھا کہ میں نے ایک مجبور شخص کی مدد کرنے کی سچے دل سےکوشش کی تھی، اُس کی دھوکا دہی سے افسوس ضرور ہوا۔


دوستوں اُس شخص کو پاکستان نہیں جانا تھا بلکہ اُس کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح کہانیاں سنا کر170 درہم مل جائیں لیکن اسے یہ اُمید نہیں تھی کہ اُس کا واسطہ ایسے انسان سے پڑے گا جو اپنا کام کاج چھوڑ کر نہ صرف اِس کے ساتھ پی آئی اے آفس جائے گا بلکہ اُس کو ائیرپورٹ بھی چھوڑ کر آنے کے لیے تیار تھا۔


اللہ کی شان دیکھئے، تین بعد وہ پھر یہی واردات کررہا تھا تو میں نے اسے دیکھ لیا۔ ایک پاکستانی ریستوران کے باہر ایک فیملی کو ٹکٹ اور پاسپورٹ دِکھا کر بات کررہا تھا۔ میں نے گاڑی سے ہی آواز لگائی بھائی صاحب، اِس کو ذرا روک کر رکھیئے، آج میں اِس کا ٹکٹ کروا ہی دیتا ہوں، بس دو منٹ میں گاڑی پارک کر کے آیا۔ اُس لڑکے نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو فوراً رفوچکر ہوگیا۔ گاڑی پارک کر کے جب میں آیا تو وہ فیملی بھی حیران تھی کہ وہ شخص مجھے دیکھ کر بھاگ کیوں گیا، میں نے انہیں ساری کہانی سنائی تو وہ کہنے لگے کہ ہم اُس کو ابھی رقم دینے ہی والے تھے۔


آپ کو یہ ساری کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اب لوگ اپنی بہن کا جنازہ اٹھا کر بھیک مانگ رہے ہیں، اور دیارِ غیر میں اپنے ہی بھائیوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اب انسان کس پر اعتماد کرے؟ جو حقیقی طور پر مدد کے مستحق ہیں وہ بھی اِس قسم کے دھوکا بازوں کی وجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بس یہی دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔



آمین


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے


اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی





Load Next Story