انڈین پارلیمینٹ میں پرفارم کرنے والا اکلوتا فن کار ہوں

پاک و ہند کے نام وَر ستار نواز، استاد رئیس خان سے ایک یادگار ملاقات.

استاد رئیس خان۔ فوٹو: فائل

سُر باتیں کریں، اور باتوں سے خوش بُو آئے، ماحول مہک اٹھے، کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ایسا کوئی طلسماتی لمحہ حقیقتاً وجود رکھتا ہے؟

ہاں، اگر ستار استاد رئیس خان کے ہاتھوں میں ہو، تو یہ ناممکن بڑی سہولت سے ''ممکن'' میں ڈھل جاتا ہے۔ مہکتے سُروں کی رم جھم میں سامعین پر وجد طاری ہوجاتا ہے۔ جادو کا اظہار ہوتا ہے۔

رئیس خان کا شمار لیجنڈز میں ہوتا ہے۔ ستارنوازی کے میدان میں وہ یکتا ہیں۔ نہ تو اُن کا مقابلہ ممکن ہے، نہ ہی کسی کے فن کا اُن کی کلا سے موازنے کا امکان ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں،''حضرت امیر خسرو نے ستار بنایا، رئیس خان نے بجایا!'' جس طرح ایک خاص طرز سے ستار کے تار چھیڑتے ہیں، ٹھیک ویسے ہی ایک مخصوص ڈھنگ سے، دبنگ لہجے میں گفت گو کرتے ہیں، جو کبھی بے حد میٹھی ہوتی ہے، تو کبھی کڑوی کسیلی۔ تنازعات بھی موضوع بنتے ہیں۔ پھر ایک خاص لمحے میں ریکارڈنگ بند کرنے کا حکم ہوتا، پردہ اٹھتا ہے، کئی نام آتے ہیں۔ دوران گفت گو، کسی خاص پل، ابلاغی عمل میں یک دم رکاوٹ حائل ہوجاتی ہے، مگر پھر اُن کے سنائے ہوئے چٹکلے معاملہ سہل کردیتے ہیں۔



گذشتہ دنوں اِس منفرد فن کار سے اُن کی رہایش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ اِس دوران ہونے والی دل چسپ گفت گو قارئین کے نذر کی جا رہی ہے:

ایکسپریس: آپ کے والد، محمد خان صاحب کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اُن کی تربیت کا ڈھنگ کیا تھا؟

رئیس خان: بھئی، یہ مت پوچھیں، تو اچھا ہے (ہنستے ہوئے) بس، ہم ہوتے، والد ہوتے، اُن کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا، اور ہمارے ہاتھ میں ستار۔ صبح پانچ بجے والد صاحب ہمیں بیدار کردیتے۔ وہ ریاض کرتے، ہم اُنھیں سنتے۔ اُن کے جانے کے بعد ہم ستار بجاتے۔

ایکسپریس: دوران تربیت وہ کیا نصیحت کیا کرتے تھے؟

رئیس خان: وہ یہی کہتے تھے کہ سرگم پر ریاض کرو۔ میں نے یہ فن بڑی ریاضت سے سیکھا ہے۔ چھے چھے گھنٹے مشق کیا کرتا تھا۔

ایکسپریس: میوات گھرانے کو کلاسیکی موسیقی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اِس کی تاریخ پر کچھ روشنی ڈالیے؟

رئیس خان: ایک شعر سنانا چاہوں گا ؎

سر پر نہیں ہے تاج مگر تاج دار ہوں

میں شہر پُرخلوص کا سرمایہ دار ہوں

ہمارا گھرانا کلاسیکی گائیکی کا سرخیل ہے۔ جے پور، جودھ پور وغیرہ کا سارا علاقہ میوات ہی ہے۔ اِس گھرانے نے بڑے بڑے گائیک، ستارنواز، سربہار نواز اور بین کار پیدا کیے۔ استاد نذیر خان، استاد وزیر خان جودھ پور والے، استاد بابو خان، استاد مراد خان، استاد لطیف خان اور استاد رجب علی خان اِس کی مثال ہیں۔ لتا منگیشکر کے استاد، امانت خان صاحب میرے چچا تھے۔ ہمارے ہاں ہر ہفتے ''جمعہ'' ہوتا تھا، جس میں ہندوستان کے تمام گانے بجانے والے شرکت کرتے۔ وہیں اُنھیں استاد کا خطاب عطا ہوتا۔ اور یہاں میں ایک بات کہنا چاہوں گا، موسیقی کے جتنے بھی گھرانے ہیں، وہ ہمارے میوات گھرانے ہی کے شاگرد ہیں۔ چاہے وہ اٹاوا ہوا، پٹاوا ہو، کیرانہ ہو، پرانا ہو، آگرہ ہو، کوئی بھی ہو!

ایکسپریس: یہ بہت بڑا دعویٰ ہے خان صاحب؟

رئیس خان: جی ہاں، بالکل ہے۔ اور میں یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ ہر گھرانے نے ہمارے بزرگوں سے فیض حاصل کیا۔ اگر کسی کو اعتراض ہے، تو مجھ سے مباحثہ کر لے۔ دیکھیں، میں تفصیلات میں نہیں جائوں گا، یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے۔ بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ ایک مخصوص ''لے'' ہے، اُسے چھوڑ دیں، پھر چاہے آپ جس گھرانے سے شاگرد ہو جائیں۔ دیکھیں، گھرانا صدیوں میں بنتا ہے۔ ہمارے سگڑ دادا، سگڑ نانا تک کا سلسلہ موجود ہے۔ یہ لوگ، جو الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں، انھیں میں ایک ہی بات کہنا چاہوں گا کہ بھیا، خاندان باپ سے چلتا ہے، ماں سے نہیں۔ اور میں قوالوں کی اولاد نہیں ہوں، بس!

ایکسپریس: ممتاز ہندوستانی ستار نواز، استاد ولایت خان آپ کے سگے ماموں تھے؟

رئیس خان: ماموں میں اُنھیں کہتا نہیں ہوں، نہ میں مانوں گا۔ استاد، شاگرد کا رشتہ پہلے ہے، باقی رشتے بعد میں۔ بے شک وہ بہت اچھے فن کار تھے، بڑے استاد تھے، مگر وہ ہمارے گھرانے کے شاگرد تھے، اور ہیں۔ ہمارے والد سے اُنھوں نے نو برس سیکھا۔ وہ میرے باپ کا بجایا ہوا بجاتے تھے، اور وہی میں بجاتا ہوں۔ اگر میرا کہا ہوا ایک لفظ بھی غلط ہے، تو آپ ثابت کر دیں۔



ایکسپریس: جو سُر، آواز کے زیر بم سے، گلے سے برآمد ہوتے ہیں، اُن کی ساز کے باج میں صورت گری ''گائیکی انگ'' کہلاتی ہے، اِس منفرد صنف موسیقی کی ایجاد کا معاملہ بھی خاصا متنازع تصور کیا جاتا ہے؟

رئیس خان: آپ نے بہت اچھا سوال کیا۔ کوئی تنازع نہیں۔ گائیکی انگ ستار میں ہم نے اور ہمارے باپ نے ایجاد کیا۔ صرف ہمارے ہاں گائیکی انگ بجایا جاتا ہے۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اُن کی ایجاد ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اور یہ لوگ کس گائیکی انگ کی بات کرتے ہیں؟ ہر شے میں گائیکی انگ لگا دیتے ہیں۔ گائیکی انگ کی اصطلاح صرف اور صرف کلاسیکی موسیقی کے لیے استعمال ہوتی ہے، غزل اور گیت کے لیے نہیں۔ جب کوئی مجھے سے پوچھتا ہے کہ آپ کتنے فی صد گائیکی انگ بجاتے ہیں، تو میں کہتا ہوں کہ 97 فی صد۔ باقی تین فی صد کیوں نہیں؟ پہلی بات، سانس کے مقابلے میں ستار کا ''اسٹروک'' اتنا Lasting نہیں ہوتا۔ پھر گلے کی کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں، جو ساز میں نہیں آسکتیں، لیکن، ہم نے اپنے ساز میں وہ کام کر رکھا ہے کہ گانے والے پر بھاری نہ پڑے، تو رئیس خان نام نہیں۔ جو چور کی سزا، وہ میری۔ وہ بھی نہیں گا سکے۔

ایکسپریس: 86ء میں آپ پاکستان چلے آئے۔ کیا محبت کا تجربہ اتنے بڑے فیصلے کا اکلوتا سبب تھا؟

رئیس خان: مجھ سے انڈین پارلیمینٹ میں بھی سوال کیا گیا تھا کہ آپ ہندوستان سے چلے کیوں گئے، واپس کیوں نہیں آجاتے؟ میں نے وہاں بیٹھے لوگوں سے ایک ہی بات پوچھی، آپ میں کوئی ایک آدمی بھی ہے، جس نے کبھی محبت نہ کی ہو؟ پورے ہال کو سانپ سونگھ گیا۔ بس، محبت کی، اور ہم یہاں چلے آئے۔

ایکسپریس: پاکستان کے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں کوئی دقت پیش آئی؟

رئیس خان: دقت تو آج تک ہے۔ زیادہ بات نہیں کروں گا، بس ایک شعر سنا دیتا ہوں ؎

کیا پوچھتے ہو حال مرے کاروبار کا

آئینے بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں

ایکسپریس: تو آج ہندوستان چھوڑنے کا دُکھ ہوتا ہے؟

رئیس خان: بالکل ہوتا ہے۔ اب تو زیادہ ہوتا ہے۔ (بلقیس خانم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) میں اُن کی وجہ سے یہاں آیا، اور اب یہ پریشان رہتی ہیں۔ میرے دوست، رشتے دار، پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز، سب وہیں رہ گئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح مجھے یا مجھ جیسے دیگر فن کاروں کو پاکستان میں عزت دی جانی چاہیے تھی، ویسی عزت، ویسا احترام، ویسا مقام نہیں دیا گیا۔

ایکسپریس: خواہش ہوتی ہے کہ دوبارہ ہندوستان لوٹ جائیں؟

رئیس خان: ہر روز ہوتی ہے، البتہ یہاں چند لوگ ہیں، جو پیار کرتے ہیں۔ بس اﷲ کے بعد اُن ہی کے آسرے ہیں۔

ایکسپریس: یہاں آنے کے بعد معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟

رئیس خان: یہ مجھے کیا دیں گے۔ اﷲ کا شکر ہے، اچھا کھاتا ہوں، اچھا پہنتا ہوں۔ ہزاروں سے اچھی زندگی گزار رہا ہوں۔ کسی سے کوئی توقع نہیں۔

ایکسپریس: آج کل کچھ لوگ شاہ رخ خان کو پاکستان آنے کا مشورہ دے رہے ہیں، آپ اِس معاملے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

رئیس خان: شرم آنی چاہیے۔ یہ کون ہیں اُسے مشورہ دینے والے۔ کیا یہ لوگ شاہ رخ خان جیسے فن کار کو سنبھال سکتے ہیں؟ اُس نے جواب میں سچ کہا ہے کہ ''میں ہندوستان میں محفوظ ہوں، یہیں سے مجھے پیار ملا، مقام ملا!'' دیکھیں، ہندوستان کا کوئی مسلمان آرٹسٹ پاکستان نہیں آنا چاہتا۔ ابھی چار ہندوستانی آرٹسٹوں کو میں نے دعوت دی تھی۔ اُنھوں نے کہا، دس کروڑ بھی دو گے، تب بھی ہم پاکستان نہیں آئیں گے۔



ایکسپریس: موسیقی پر بات کرتے ہیں۔ ستار آپ کا ساز ہے، اِس کی تاریخ کے بارے میں کچھ فرمائیں؟

رئیس خان: ستار حضرت امیر خسرو کی ایجاد ہے۔ اُس وقت اس کے تین تار تھے، اِس لیے اس کا نام ''سہ تار'' تھا۔ بعد میں ہمارے بزرگ ہدُو خان،حُسوخان، نتھو خان اور دیگر نے اُسے آگے بڑھایا۔

ایکسپریس: پاکستان اور ہندوستان کی موسیقی کا تقابلی جائزہ لیا جائے، تو آپ پاکستان کو کہاں دیکھتے ہیں؟

رئیس خان: بہت اچھا سوال کیا آپ نے۔ دیکھیں، پاکستان یہاں ہے (ہاتھ سے نیچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) اور ہندوستان (اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) وہاں ہے۔ بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں۔

ایکسپریس: کیا ہمارے ہاں سنجیدگی کی کمی ہے؟

رئیس خان: بھیا، کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ یہاں تو انگریزی چلتی ہے۔ جو انگریزی بولتا ہے، اُسے بڑا آرٹسٹ تصور کیا جاتا ہے، بڑا انسان تصور کیا جاتا ہے، اور خاندانی تصور کیا جاتا ہے۔

ایکسپریس: تو کیا آپ پاکستانی کلچر کو موسیقی دشمن کلچر تصور کرتے ہیں؟

رئیس خان: بالکل۔ اور اِس بات کا مجھے دُکھ ہے۔

ایکسپریس: کیا بٹوارے کے بعد پاکستان میں موسیقی کے بڑے نام پیدا نہیں ہوئے؟

رئیس خان: پیدا ہوئے ہیں، میں انکار نہیں کر رہا، لیکن وہ بھی وہیں (ہندوستان) سے آئے تھے، اُن کی جڑیں بھی وہیں تھیں، جیسے عاشق علی خان، بڑے غلام علی، امانت علی خان، فتح علی خان۔

ایکسپریس: آپ کے خیال میں پاکستان میں موسیقی اور موسیقار کی ہندوستان کے ڈھب پر کیوں پرورش نہیں کی گئی؟

رئیس خان: سچ بولو، صرف ایک سبب ہے۔ مذہبی اور روایتی سوچ۔ پوری دنیا کے دانش وَر یہ کہتے ہیں کہ جو ملک اپنے فن کاروں کی عزت نہیں کرتا، وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اور اِس کام میں پہلا نمبر ہے پاکستان کا۔

ایکسپریس : کیا ہندوستان میں ستار کی مقبولیت کل کی طرح آج بھی قائم ہے؟

رئیس خان: بالکل۔ نہ تو اِس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، نہ آئے گی۔ موسیقی اُن کے خون میں رچ بس گئی ہے۔ وہاں مقابلہ بھی ہے۔ یہاں کیا ہے۔ ہر ایرا غیرا ستار بجا رہا ہے۔ جن کا ستار پر ہاتھ بھی نہیں بیٹھتا، جنھیں نشست کا بھی علم نہیں، آج وہ استاد بنے پھرتے ہیں۔ ستار کا مستقبل بھی ہندوستان ہی سے وابستہ ہے۔

ایکسپریس: مغرب میں ستار کی بڑھتی مقبولیت کا کیا سبب ہے؟

رئیس خان: صرف ایک سبب ہے، روی شنکر۔ روی شنکر وہ پہلا فن کار تھا، جس نے ستار کی مقبولیت پوری دنیا میں پھیلائی۔

ایکسپریس: کیا مغرب میں اِس ساز کی مقبولیت مزید بڑھے گی؟

رئیس خان: دیکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہو، تو اچھی بات ہے۔ نہیں ہو، تو خدا حافظ!

ایکسپریس: عام خیال ہے کہ گھرانے اپنا فن منتقل نہیں کرتے؟

رئیس خان: ہاں، صرف یہاں (پاکستان) کے گھرانے۔ وہ کہتے ہیں، ہم اپنی اولاد کو سِکھائیں گے۔ (اپنی بیگم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) خانم صاحبہ سے پوچھیے، یہ آپ کو بتائیں گی۔ ایسا ہی ہے۔

ایکسپریس: آج پاکستان میں چند ادارے کمرشل بنیادوں پر یہ فن سِکھا رہے ہیں۔۔۔

رئیس خان: (بات کاٹتے ہوئے) کون سِکھا رہا ہے؟ ایسے لوگوں کا نام مت لیجیے، جو فن کی الف بے بھی نہیں جانتے۔ اُنھیں کچھ نہیں آتا۔ یہاں ایسے ایسے ادارے ہیں، جو تین سال میں ایک ستار نواز بھی پیدا نہیں کرسکے۔ اور جو اچھے لوگ ہوتے ہیں، اُنھیں نکال دیا جاتا ہے۔ یہ ادارے نہیں، یہ تو دفاتر ہیں۔ میں اُن لوگوں کی بات نہیں کر رہا، جو واقعی موسیقی کی سمجھ رکھتے ہیں، فتح علی لاہور والے، فتح علی خان حیدرآباد والے۔ سنا ہے، عاشق علی خان صاحب بھی تھے یہاں۔ یہ چند لوگ مستند ہیں۔ ورنہ اکثریت کو تمیز نہیں ہے۔

ایکسپریس: آپ کے خیالات ہمارے لیے بے حد قیمتی ہیں۔ یہ فرمائیے، کیا گائیک کو بھی ساز کا علم ہونا چاہیے؟

رئیس خان: بالکل ہونا چاہیے۔ یہ ضروری ہے۔ اگر ساز کو نہیں سمجھیں گے، تو گائیں گے کیسے؟ میں کہیں اور جا رہا ہوں، اور آپ کہیں اور جا رہے ہیں، تو بات نہیں بنے گی۔ البتہ کچھ اچھے لوگ بھی ہیں۔ پنڈت جسراج لاجواب سنگر تھے۔ وہ ہمارے ہی گھرانے کے شاگرد تھے۔

ایکسپریس: آپ نے سیکڑوں جگہ پرفارم کیا، کوئی ایسی پرفارمینس، جو خوش گوار یاد کی صورت ذہن میں محفوظ ہو؟


رئیس خان: کئی ہیں۔ کسی ایک کا ذکر مناسب نہیں۔ خدا کا شکر ہے، اگر دس پروگرام کیے، تو سات آٹھ بہت ہی اچھے گئے۔

ایکسپریس: انڈین پارلیمینٹ میں دی جانے والی پرفارمینس کا تو ذکر ہونا چاہیے؟

رئیس خان: اچھا سوال کیا آپ نے۔ میں نے وہ کام کیے ہیں، جو برسوں یاد رکھے جائیں گے۔ میں پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کا اکلوتا فن کارہوں، جس نے انڈین پارلیمینٹ میں پرفارم کیا۔ اِس کا سہرا امرناتھ کی بیٹی بُندو چاولا کو جاتا ہے۔ یہ مارچ 2011 کا واقعہ ہے۔ میں نے وہاں ڈیڑھ گھنٹے ستار بجایا۔ کسی میں دم ہے، تو ایسا کرکے دکھائے۔ کوئی پاکستانی صدر اور وزیر اعظم بھی وہاں نہیں گیا۔ وہیں مجھے پنڈت امرناتھ سے موسوم ہندوستان کے سب سے بڑا ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ایکسپریس: 55ء میں آپ نے پولینڈ کا دورہ کیا تھا۔ وہاں ہونے والے مقابلے میں اول انعام حاصل کیا، اُس کے بارے میں کچھ فرمائیں؟

رئیس خان: پولینڈ کے شہر وارسا میں انٹرنیشنل یوتھ فیسٹیول منعقد ہوا تھا۔ وہاں میں نے ہندوستان کی نمایندگی کی۔ 111 ممالک کے فن کاروں کے درمیان مقابلہ تھا، وہاں میں نے فرسٹ پرائز حاصل کیا۔ مجھے گولڈ میڈل اور ڈپلوما ملا۔ وہاں ایک اور صاحب تھے، جنھیں لوگ ہندوستان کا بڑا ستار نواز کہتے ہیں، پنڈت نکھیل بینرجی۔ اُنھیں چودہواں پرائز ملا۔

ایکسپریس: دو سال قبل آپ کی والدہ کا انتقال ہوا۔ اُس وقت آپ ہندوستان میں تھے، اِس سانحے کی اطلاع ملنے کے بعد پرفارم کرنا خاصا دشوار رہا ہوگا؟

رئیس خان: دہلی کا بہت بڑا پروگرام تھا۔ جب میں ہندوستان کے لیے روانہ ہوا، میری والدہ شدید علیل تھیں، اور اسپتال میں ایڈمٹ تھیں۔ میں منع کرکے گیا تھا کہ اگر کچھ ایسا ویسا ہو جائے، تو مجھے اطلاع مت دینا، لیکن عین پروگرام والے روز مجھے بتا دیا گیا۔ دیکھیں، جب آپ کمٹ مینٹ کرتے ہیں، تو لوگوں کو اِس کی پروا نہیں ہوتی کہ آپ کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے، یا باپ مر گیا ہے۔ آپ کو کمٹ مینٹ پوری کرنی ہوتی ہے۔ میں نے بھی یہی کیا۔ اُس دن دہلی میں طوفان آیا۔ پانچ ہزار درخت گر گئے۔ کمر تک پانی کھڑا تھا، مگر سامعین، جن میں حاملہ خواتین بھی تھیں، مجھے سُننے آئیں، کیوں کہ میں کئی برس بعد بجا رہا تھا۔

ایکسپریس: کلاسیکی گائیکی میں کسی کا کام پسند ہے؟

رئیس خان: کئی لوگ ہیں۔ بہرے وحید خان صاحب تھے۔ امیر خان صاحب ہیں۔ میرے دادا، رجب علی خان صاحب ہیں۔ جسراج ہیں۔ امانت خان صاحب ہیں۔ اور بھی لوگ ہیں۔

ایکسپریس: فلمی گائیکی میں کسی کی آواز اچھی لگی؟

رئیس خان: عام طور سے لوگ دو ناموں کے پیچھے بھاگتے ہیں، جنھوں نے اچھے اچھے سنگرز کو برباد کر دیا، اُن کے نام میں نہیں لینا چاہتا۔ ہاں، میڈم نورجہاں بڑی سنگر تھیں۔ اُن کا فن بے حد وسیع تھا۔

ایکسپریس: اپنے ہم عصروں میں کسی نے متاثر کیا؟

رئیس خان: (چند لمحوں کے توقف کے بعد) سوری، نوکومینٹس!

ایکسپریس: ستار کے علاوہ کوئی اور مشرقی ساز بھی پسند ہے؟

رئیس خان: ''سورنگی!'' (سارنگی) دہلی اور کلکتا میں بڑے بڑے سورنگی نواز گزرے ہیں۔ بڑے صابری خان صاحب، چھوٹے صابری خان صاحب، رام نارائن۔ اور بھی اچھے بجانے والے ہیں۔

ایکسپریس: کوئی مغربی ساز، جس کے سُروں نے دل کو چھو لیا ہو؟

رئیس خان: ہاں، پیانو بہت اچھا ساز ہے۔ وائلن ہے۔

ایکسپریس: کوئی غیرملکی آواز، جس نے متاثر کیا؟

رئیس خان: بالکل، ایرانی گلوکارہ، خانم گوگوش بہت سُریلی عورت ہے۔ وہ میری بہت اچھی دوست ہے۔ بہت احترام کرتی ہے۔

ایکسپریس۔ گو آپ حکومت پاکستان سے مطمئن نہیں، مگر آپ کو پرائیڈ آف پرفارمینس اور پی ٹی وی ایوارڈ سے تو نوازا گیا؟

رئیس خان: یہ ایوارڈز دراصل اِس خوف سے دیے گئے کہ اتنا بڑا آرٹسٹ ہے، اگر اُسے ایوارڈ نہیں دیا، تو دنیا والے کیا کہیں گے۔ اور ویسے بھی، اہم ایوارڈ انھیں دیے جاتے ہیں، جو اُس کے حق دار نہیں ہوتے۔

ایکسپریس: کچھ ادب پر بات ہوجائے۔ آپ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں، کس کے کلام سے محظوظ ہوتے ہیں؟

رئیس خان: بہت سے نام ہیں۔ غالب، مومن، داغ کا تو سب ہی ذکر کرتے ہیں، اور اپنی فوقیت جتاتے ہیں۔ ہمیں بھی اُن کا علم ہے، البتہ مجھے آج کے وہ شعرا پسند ہیں، جنھوں نے سادہ زبان میں اظہار کیا، جیسے ناصر کاظمی ہیں، فراز ہیں۔ اُن کا کلام پسند ہے۔

ایکسپریس: کس قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں؟

رئیس خان: زیادہ تر شعر و شاعری۔ موسیقی کے حوالے سے لکھی ہوئی کتابیں زیادہ نہیں پڑھتا۔ ناول، افسانوں میں پہلے دل چسپی تھی۔ بہت پڑھا، مگر اب نہیں۔

ایکسپریس: کوئی ایسا ادیب، جسے پڑھنے کا نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں؟

رئیس خان: بالکل، خلیل جبران کو پڑھیں، فکشن میں اُس کا کام معیاری ہے۔ مگر بچوں کو اُسے نہیں پڑھنا چاہیے، ورنہ برباد ہوجائیں گے، خودکشی بھی کر سکتے ہیں۔ اُس کی تحریروں میں یہ اثر ہے کہ انسان خودکشی کی طرف راغب ہوتا ہے۔

ایکسپریس: آپ کی ذاتی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ بلقیس خانم صاحبہ آپ کی چوتھی بیگم ہیں؟

رئیس خان: جی ہاں، یہ قصّہ بھی سن لیں۔ پہلی شادی ہوئی، ختم ہوگئی۔ دوسری ہوئی، تیسری ہوئی، وہ بھی ختم ہوگئیں۔ اب چوتھی ہوئی ہے۔ دیکھتے ہیں، یہ کب ختم ہوتی ہے۔ (قہقہہ!)

ایکسپریس: چار شادیوں سے کتنے بچے ہیں؟

رئیس خان: باقیوں کا ذکر ضروری نہیں۔ خانم صاحبہ سے میرے دو بیٹے ہیں۔ فرحان رئیس اور حضور حسنین۔

ایکسپریس: آپ کے صاحب زادے، فرحان ستازنوازی کے میدان میں تیزی سے اپنا نام پیدا کر رہے ہیں، آپ اُن کے تعلق سے پُرامید ہیں؟

رئیس خان: فرحان پروفیشنل آرٹسٹ ہے۔ ٹھیک ٹھاک کام کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں باپ کبھی بیٹے کی تعریف نہیں کرتا۔ مجھے بھی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ اِس سے اولاد کی پرواز میں خلل آتا ہے۔ بس یہ کہوں گا کہ مجھے ہٹا دیں، اور اُسے بٹھا دیں۔ بات ختم ہوئی۔

ایکسپریس: مستقبل کے حوالے سے کوئی خاص منصوبہ؟

رئیس خان: اب ہمارے بچے ستار بجا رہے ہیں۔ بس خواہش ہے کہ اُن کا نام ہو۔ یہ اچھا کام کریں، فتح کریں، ہاریں نہیں۔ اور تہذیب و ادب کے دائرے میں رہیں۔

٭ جیون کتھا:

فن ستارنوازی میں اعلیٰ ترین منصب پر فائز، استاد رئیس خان کا تعلق میوات گھرانے سے ہے۔ وہ نام وَر فن کار، استاد محمد خان کے سپوت ہیں، جو ستار، بین اور سُربہار میں یک ساں مہارت رکھتے تھے۔ سیکڑوں افراد نے اُس نابغۂ روزگار شخصیت سے اکتساب فیض کیا۔ خود محمد خان نے اپنے ماموں، استاد لطیف خان، استاد مجید خان اور دیگر بزرگوں سے یہ فن سیکھا۔

بھوپال، مدھیہ پردیش، اُن کا آبائی وطن ہے کہ والد وہیں پیدا ہوئے۔ بھوپال سے 120میل دور شہر اندور ہے، جہاں 25 نومبر 1939 کو رئیس خان نے آنکھ کھولی۔ شعور کی دہلیز بمبئی میں عبور کی۔ والدہ ممتاز ستار نواز، عنایت علی خان کی بیٹی اور ولایت خان کی بڑی بہن تھیں۔ کھیلوں کے میدان میں رئیس خان بچپن ہی سے متحرک رہے۔ گھر کی تربیت نے تمام خرافات سے دُور رکھا۔ شمار شرمیلا بچوں میں ہوتا تھا، البتہ شرارتیں بھی خوب کیں، جس پر ٹھیک ٹھاک سزا ملا کرتی۔ والدہ بھی غلطیوں پر سرزنش کرتیں۔ بمبئی ہی سے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی، بعد کی زندگی اپنے اندر کے فن کار کو تراشتے گزری۔

سُروں کی سمجھ بہ درجۂ اتم موجود تھی۔ تین بہنوں کے بڑے بھائی، رئیس خان نے ڈھائی برس کی عمر میں ستار سے دوستی کر لی۔ والد نے اُن کے لیے ناریل کے خول کو ستار کے قالب میں ڈھالا تھا، جس پر وہ مشق کیا کرتے۔ یہ ستار آج بھی اُن کے پاس ہے۔ پانچ برس کی عمر میں پہلی پرفارمینس دی۔ بمبئی کے سندر بائی ہال میں، جس مجمعے کے سامنے فن کا مظاہرہ کیا، اُس میں شہر کے گورنر، مہاراجا سنگھ اور لیڈی مہاراجا سنگھ بھی شامل تھے۔ نو برس کی عمر میں وہ اپنی شناخت بنا چکے تھے۔ تیرہ برس کی عمر میں ریڈیو پر پرفارم کرنے لگے۔ ریڈیو کے سب سے کم عمر آرٹسٹ تھے۔ اسی زمانے میں والد سے جدائی کا کرب سہنا پڑا۔ یہ بڑا سانحہ تھا، مگر رئیس خان نے ہمت ہارنے کے بجائے، خاندانی فن کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ سفر جاری رکھا۔

چند ہی برسوں میں اُنھوں نے شایقین فن کے دلوں میں گھر کر لیا۔ موسیقی کی محفلوں میں مدعو کیے جانے لگے۔ شہرت کو سرحدیں عبور کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ پہلا غیرملکی دورہ پولینڈ کا تھا۔ پھر روس کا رخ کیا۔ یورپ کے کئی ملکوں میں پرفارم کیا۔ ہر مقام پر اُنھیں سراہا گیا۔ 63ء میں رئیس صاحب پہلی بار پاکستان آئے اور کراچی میں پرفارم کیا۔

ہندوستانی فلم انڈسٹری نے بھی اُن کے فن سے بھرپور استفادہ کیا۔ آغاز میں موسیقار، روشن کے کمپوز کردہ ایک گیت میں ستار بجایا، جو فلم ''ہیرا موتی'' کا حصہ بنا۔ پھر نوشاد، مدن موہن، شنکر جے کشن جیسے قدآور فن کاروں کے ساتھ کام کیا۔ جن گیتوں میں اُن کا ستار سنائی دیا، اُنھوں نے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ ''بیّاں نہ دھرو''، ''آج سوچا تو آنسو بھر آئے''، ''میں تلسی تیرے آنگن کی''، ''رم جھم برستا ساون'' اِس کی چند مثالیں ہیں۔ ''مغل اعظم''، ''پاکیزہ'' اور ''میرے حضور'' جیسی فلموں میں اُن کا فن اپنے اوج پر نظر آیا۔

استاد رئیس خان نے انڈسٹری سے وابستگی کے زمانے میں ایسے کئی گانوں کی دھنیں ترتیب دیں، جنھوں نے فلم بینوں کو مسحور کر دیا، مگر آج وہ اُن کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ میوزک ڈائریکٹر نہ بننے کا بھی کوئی سبب رہا ہوگا، مگر اس موضوع پر بات کرنے سے اجتناب برتتے ہیں۔ ستار کا جادو جگانے کے علاوہ غزل کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ غزل ''گھنگرو ٹوٹ گئے'' پہلی بار 68ء میں اُن ہی کی آواز میں، لندن میں ریکارڈ ہوئی۔ بعد میں اِسے کئی فن کاروں نے گایا۔

86ء میں، جب وہ اوج پر تھے اور چار سُو ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا، تو اُنھوں نے ہندوستان چھوڑ دیا، اور پاکستان آگئے۔ محبت کا پراسرار تجربہ اِس فیصلے کا سبب بنا۔ 79ء میں اُن کی معروف پاکستانی گلوکارہ، بلقیس خانم سے ملاقات ہوئی۔ جلد ہی ملاقاتوں میں انسیت در آئی۔ 80ء میں اُن کی شادی ہوگئی۔ یہ پہلا موقع تھا، جب پاکستان اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے دو فن کار شادی کے بندھن میں بندھے۔ بس، یہی رشتہ پاکستان لے آیا، جہاں صورت حال ہندوستان سے خاصی مختلف تھی۔ شایقین فن کی تعداد محدود تھی اور اُس طرز پر پزیرائی کا سلسلہ نہیں تھا۔ الغرض انہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی ہندوستان آنا جانا رہتا ہے، جہاں وہ 65 ہزار سامعین کے سامنے پرفارم کرتے ہیں، جب کہ یہاں تعداد سیکڑوں تک محدود رہتی ہے، جس کا اُنھیں قلق ہے۔

بیڈمنٹن اور سوئمنگ چیمپیئن، لگاتار تین برس:

موسیقی کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد شاذ ہی اسپورٹس کے شعبے میں فعال نظر آتے ہیں، مگر رئیس خان کا معاملہ مختلف ہے۔ فن کے ساتھ انھوں نے اسپورٹس کے میدان بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے اور خود کو فاتح ثابت کیا۔

کھیلوں میں دل چسپی، وہ بھی اِس درجے کی، سبب کیا تھا؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''موسیقی سے تعلق رکھنے والے 99 فی صد افراد عام طور سے اسپورٹس کی جانب نہیں آتے۔ وہ زیادہ وقت اپنے فن کو دیتے ہیں۔ البتہ میرا معاملہ دوسرا تھا۔ بچپن ہی سے کھیلوں میں دل چسپی تھی۔ اور میں جس کام کے پیچھے پڑ جائوں، اُسے مکمل کرکے ہی دم لیتا ہوں۔''

سات برس کی عمر میں بیڈمنٹن کے سحر نے انھیں جکڑ لیا تھا۔ بمبئی میں اُن کے گھر کے سامنے ایک میدان تھا، جہاں بیڈمنٹن کے کھلاڑی مشق کیا کرتے تھے۔ اُن کا باقاعدگی سے وہاں جانا رہتا۔ ریاض سے فارغ ہو کر ریکٹ اٹھاتے، اور میدان کی طرف نکل جاتے۔ پھر شوق ویلنگٹن کلب لے گیا۔ اُس کے رکن بن گئے۔ سی سی آئی کلب میں پریکٹس کی۔ ملک کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا۔ جلد ہی اپنی شناخت بنا لی۔ 53ء میں مہاراشٹر کی سطح پر ہونے والے ٹورنامینٹ میں فتح اپنے نام کی۔ لگاتار تین برس چیمپیئن رہے۔

سوئمنگ کا شوق بیڈمنٹن کے ساتھ ہی پروان چڑھا۔ چوپاٹی پر ایک سوئمنگ کلب تھا، جہاں وہ مشق کیا کرتے۔ پختگی حاصل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ فری اسٹائل اور بیک اسٹروک میں مہارت حاصل کی۔ ریاستی سطح پر ہونے والے مقابلے میں وہ 53ء تا 55ء چیمپیئن رہے۔

ہزار ہزار روپے کی شرطیں، رقص، نشانے بازی:

رئیس خان بلیرڈ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ مقابلوں میں باقاعدگی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ ہزار ہزار روپے کی شرطیں لگاتے۔ اور اکثر وہی جیتتے۔ اِس کھیل میں استاد ولایت خان بھی ساتھ ہوتے۔

کائو بوائے فلموں نے اُنھیں شوٹنگ کی جانب متوجہ کیا۔ پسٹل، بندوق اور چاقو سے نشانے بازی کی مشق کی۔ رقص کے میدان میں بھی صلاحیتوں کے خوب جوہر دکھائے۔ بمبئی کے ایک کلب سے تربیت حاصل کی۔ تین مختلف فورمز میں انعام جیتا۔

اسپورٹس میں دل چسپی کا بنیادی سبب وہ والدین کی تربیت کو قرار دیتے ہیں۔ ''ہمارے ماں باپ نے ہمیں اچھے لوگوں میں اٹھایا، بٹھایا۔ جس سے یہ عادت پیدا ہوئی کہ ہر اچھی بات ہم اپنے اندر جذب کر لیتے تھے۔''

فارمولا ون ریسنگ اور فلائنگ لائسینس:

کلکتا میں ہونے والے ''فارمولا ون ریسنگ'' کے مقابلوں نے اِس جانب متوجہ کیا۔ 60-61 میں اِس میدان میں قدم رکھا۔ تیررفتاری کا بھرپور تجربہ کیا۔ یہاں بھی فتح کے جھنڈے گاڑنے کی عادت برقرار رکھی۔ ہیرالڈ، اسٹویٹ بیکر اور الارڈ جیسی گاڑیوں کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی، اور ہندوستان کی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں ٹرافی اپنے نام کی۔

یہ اسپورٹس مین فقط زمین تک محدود نہیں رہا۔ ہوائوں میں بھی اڑان بھری۔ یہ قصّہ اندور کا ہے۔ اُن کے ایک شاگرد فلائنگ کلب کے رکن تھے۔ رئیس صاحب اُن کے ساتھ چلے جاتے۔ دیکھ دیکھ کر شوق پیدا ہوا۔ سترہ، اٹھارہ برس کی عمر میں فضائوں کی سیر کی۔ دو برس تربیت حاصل کی۔ جس دن اُنھیں لائسینس ملا، والد صاحب ساتھ ہی تھے۔ اتفاقاً اُس روز فلائنگ کلب میں ایک افسوس ناک حادثہ پیش آگیا، جس میں دو افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ اُن کے والد کو اِس سانحے سے شدید صدمہ پہنچا۔ اُنھوں نے اپنے سپوت کا لائسینس پرزے پرزے کر دیا، اور قسم دے دی کہ وہ کبھی فلائنگ نہیں کریں گے۔ یوں یہ شوق اپنے اختتام کو پہنچا۔

اٹھارہ گھنٹے پر محیط پرفارمینس:

کیا کوئی فن کار لگاتار اٹھارہ گھنٹے پرفارم کر سکتا ہے؟

جی ہاں! اور یہ کارنامہ بھی استاد رئیس خان ہی نے انجام دیا۔

واقعے کی تفصیلات اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں،''یہ 71ء کا واقعہ ہے۔ بمبئی کے برلا ہال میں ایک شو ہوا، جس میں ہندوستان کے بہت بڑے ڈانسر، گوپی کرشن نے ساڑھے سات گھنٹے رقص کیا تھا۔ اُس کا بہت چرچا ہوا۔ ہم نے سوچا کہ کوئی ستار نواز یا سرود بجانے والا مقابلے پر آئے گا۔ چھے سات ماہ گزرے گئے، مگر کوئی سامنے نہیں آیا۔ پھر گوپی کرشن کی پھوپھی، ستارہ دیوی نے ایک شو میں مسلسل ساڑھے نو گھنٹے رقص کیا۔ ہم نے کہا، اب کوئی آئے گا۔ مگر کوئی نہیں آیا۔ تب ہم نے یہ چیلنج قبول کیا۔ وگیان بھون سَپرو ہائوس، دہلی میں ہم نے بغیر رکے اٹھارہ گھنٹے ستار بجایا۔''

اِس ناقابل یقین پرفارمینس کے دوران تین طبلے والے بدلے۔ حاضرین آتے رہے، جاتے رہے۔ ایک جانب برف رکھی ہوئی تھی، جس میں وہ وقفے وقفے سے اپنی انگلیاں ڈبو دیتے کہ وہ کٹ گئی تھیں۔ مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ کہتے ہیں،''یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے، کوئی مانے یا نہیں مانے، مجھے اس کی پروا نہیں!''

خوش لباسی کا چرچا:

خوش لباس فن کاروں کی فہرست مرتب کی جائے، تو استاد رئیس خان بلاشبہہ پہلے نمبر پر ہوں گے۔ نفیس لباس اُن کی پہچان ہے۔ ہندوستان بھر میں اُن کی خوش لباسی کا چرچا تھا۔ ہر نوع کا لباس پہنا، اور اپنے پہناوے سے فیشن کے نئے ٹرینڈز متعارف کروائے۔ بتاتے ہیں، بالی وڈ کے بڑے بڑے ہیرو اُن کے انداز کو اپنایا کرتے تھے۔ موسیقی سے تعلق رکھنے والوں نے بھی اُن کے انداز کی تقلید کی۔ وہ سلک کے کرتے پہننے لگے، تو یہ فیشن اپنا لیا گیا۔ خان صاحب کے بہ قول، اُن کے جملوں اور بات کرنے کے انداز کی بھی کاپی کی گئی۔
Load Next Story