استعماریت اور پاکستان پانچواں حصہ

25صدیوں کے دوران یہاں کی تہاذیب میں قبل از تاریخ کے دیوتاؤں کے کسی بھی سلسلے کا تسلسل رونماء ہوتے ہوئے نہیں ملتا۔

چین کی نظریاتی تشنگی : معلوم تاریخ کی ابتدائی 25 صدیوں کے دوران قدیم تہذیب ہندوستان اور چائنہ اپنی جغرافیائی حدود سے نہ صرف باہر نہ نکل سکیں بلکہ اپنے وجود میں وہ حصوں بخروں میں تقسیم بھی ہوتی رہیں ۔کیونکہ ان 25صدیوں کے دوران یہاں کی تہاذیب میں قبل از تاریخ کے دیوتاؤں کے کسی بھی سلسلے کا تسلسل رونماء ہوتے ہوئے نہیں ملتا۔

ہاں البتہ ہندوستان کے ایک مہابیر(جسمانی طور سب سے طاقتور) نامی دیوتائی تسلط کے حامل خاندان کے چشم وچراغ کو مہاتما (روحانی طور سب سے طاقتور) بنتے دیکھا جاسکتا ہے اور چین میں درویش صفت کنفیوشس نے بھی گوتم بدھ کی طرح دنیا پر صدیوں سے رائج دیوتائی تسلط کی توسیع وتوثیق نہیں کی، لیکن بعد کی تاریخ میں ان شخصیات کی تحقیقات وتعلیمات کو تحریفی مذاہب کی شکل دے دی گئی ۔ جس کے بھیانک نتائج ہم نیپال میں بدھ بھکشوؤں کے روہنگیائی انسانوں سے روا رکھے جانے والے مظاہروں میں ملاحظہ کرچکے ہیں ۔ جب کہ موجودہ جدید چائنہ نے کنفیوشس کی تعلیمات کو ریاستی منصبوں کے لیے لازمی ہونے کی شرائط کو ختم کرکے ایک نئی جہت اختیارکی ہوئی ہے۔

تاریخ کا طالب علم یہ ملحوظ خاطر رکھ سکتاہے کہ دیوتائی بربریت کے بجائے قطع تعلق کے نظریے پر صدیوں سے کاربند چین جدید یورپی نشاۃ ثانیہ میں مرتب کیے گئے مادی نظریات کے مدمقابل اپنے حالیہ ارتقائی مرحلے کے وجود میں نظریاتی طور بہت بڑی تشنگی کومحسوس کررہا ہے ۔


تہذیبوں کے خالق : اقوام اور تہاذیب میں اس قسم کی یکساں ترجیحات وترغیبات پر مشتمل صورتحال کیونکر پیدا ہوتی آئی ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے انہی 25 صدیوں کے ابتدائی مراحل کے بابل کی نمرودی تہذیب میں موجودہ استعماری قوم کے جد امجد اور تاریخ کی برگزیدہ ترین ہستی جناب ابراہیم ؑ(نبی) کے نام سے ایک ایسے مدبر، مفکر، منتظم ، حکیم وداناء کا وجود ملتا ہے۔ جنھوں نے اپنی تحقیقات کی بنیاد پر انسان کے ہاتھوں انسانوں کو غلام بنائے رکھنے اور مادی ضرورتوں کی خاطر انسانوں کی جانب سے ان کی کورنش بجا لانے سمیت تذلیل انسانیت پر مشتمل تمام تر اقدارکو مسترد کیا تھا ۔انھوں ؑ نے واضح کیا تھا کہ حیات کائنات کا ایک خالق و پروردگار ہے جو انسانوں کو اپنا دوست رکھتا ہے ۔ان کے سوچنے سمجھنے پر پابندیوں کے بجائے ان کے دلی سکون کی خاطر ان کی تحقیقات میں ان کونصرت فراہم کرتا ہے۔ جس کے بتائے اوربنائے گئے اصولوں پر عمل کرنے سے کائنات کی دلنیشینیاں انسان پر آشکار ہوتی ہیں ، جوعظمت انسانیت کی سب سے بڑی گواہی بھی ہے تو خود انسان کے مخلوق ہونے کی سب سے بڑی دلیل بھی ہے۔اس لیے کسی انسان کو غلام بنانا یا زیر تسلط لینا اس خالق عظیم کے بنائے گئے اصولوں کی نہ صرف منافی ہے بلکہ اس سے حیات کائنات پر منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں ۔جس کے عملی اظہار کے لیے انھوں نے عالم انسانیت کو اس خالق کائنات کی قوت وقدرت سمجھانے کی خاطر اپنی تحقیقات کی روشنی میں نظام معاشرت اور انتظام کائنات کے اغراض ومقاصد کی خاطر فکری ونظریاتی طور قدیم ارض کنعان پرجدیدتہذیب فلسطین اور زمین کے ذی ذرہ حصے یعنی ارض حجاز پر اپنے اور حیات کائنات کے پروردگارکے گھر کی تعمیر سے تہذیب خانہ کعبہ کی بنیادیں رکھیں تھیں ۔

بربریت کا سفر: آج اقوام عالم پر جدید امریکی تہذیب استعماریت کے زیر سایہ اپنے ڈیرے ڈالے تاریخی ومقامی تہاذیب کوفرسودہ قرار دے چکی ہے، لیکن تہاذیب جناب ابراہیم ؑ کا تسلسل آج لگ بھگ 41/42 صدیوں کے بعد بھی اپنی کامل صحت مندی کے ساتھ جاری وساری دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ کا کتنا حیرت انگیز پہلو ہے کہ جناب ابراہیم نبیؑ سے پہلے اور بعد کی 25 صدیوں میں تشکیل پانے والی ان تمام تر مشرقی ومغربی تہاذیب میںانسانی برتری کے ذاتی جبلی وسفلی جذبات کے طور بربریت اور خونریزی کی یکساں ترجیحات وترغیبات دیکھنے کو ملتی ہی۔ حالانکہ موجودہ ترقی یافتہ ارتقائی مرحلے پر زمین کی خشکی وتری سمیت فضاؤں کا سینہ چیرکر نت نئی معلومات تقسیم کرتے استعماری انسان نہ تو ان تہاذیب کے ابتدائی ایام و ناقابل تردید اختتامی اسباب کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی گزشتہ وحالیہ اقوام کی وجہ تسمیہ کوہی بیان کرنے کے قابل ہیں ۔ جس سے اقوام عالم کی جدید نسلوں کے لیے اپنے تاریخی مقصود حیات کو سمجھا جانا ممکن بنتا ۔جب کہ تہذیب اہرام مصرکی تمام تر تفصیلات ان کے کھنڈروں پر آویزاں ہونے کے باوجود ان کے متعلق بھی ہم فقط اتنا جانتے ہیں کہ ان اہرام کو ابتدائی فراعین نے ''دنیا کی معلوم مافوق المادہ قوتوں'' کے دم قدم سے تعمیرکیا/کرایا تھا۔کیونکہ اس تہذیب میںابتدائی فراعین کا نسبی سلسلہ تو جاری وساری رہا لیکن ان میں Pyramid بنانے جیسی صلاحیتوں کا فقدان ہوتا چلا گیا۔جس نے انھیں دیوتائی بربریت کی جانب گامزن ہونے پر مجبورکیا تھا۔

بدترین وجدید تحریف: جدید اصطلاح میں کہاجاسکتا ہے کہ ان تہاذیب میں مادی طور انتظام معاشرت کی جو بنیاد تھی اس پرنااہل افراد کے براجمان ہونے سے مادیت پر مشتمل تحریفی مذاہب کو پنپنے کا موقعہ فراہم ہوا ۔ جنھوں نے انسانوں کو دیوتائی تسلط فراہم کرکے زمین پر خون کی ندیاں بہانے کو جائز قرار دیاہوا تھا۔ جس کی روشنی میں یہ منظر واضح طور دکھائی دیتا ہے کہ گردش لیل ونہار نے ان دیوتائی تہذیبوں کوانسانی خون کی ندیاں بہانے کی پاداش میںوقت کے بے رحم کولہو میں پیس ڈالا یا پھران کے استحکام کی صدیوں کو مختصر وقت میں محدود کرکے انھیں ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ان کے حوالوں کی بنیاد پر آج ریاستی معاملات کو ان تحریفی مذاہب سے دور رکھے جانے کی کوششیں کی جانے لگی ہیںتو یہ قابل ستائش عمل ہے ۔ مزیدار پہلو کہ ان مذاہب میں سرفہرست علمائے شریعت موسوی ؑ کے آئین یعنی توراۃ میں تحریف کرنے والی استعماری قوم کو رکھا جا سکتا ہے کہ جس مذہب نے ''سود'' کو جائز قرار دیا ہوا ہے۔

(جاری ہے۔)
Load Next Story