تاریخ کے جھرونکوں سے
اگست کا مہینہ بہادری، جری اور محب وطن نوجوانوں کی یاد کو تازہ کرتا ہے۔
بلوچستان کی براہوی ریاست 3 مارچ 1410 میں قائم ہوئی تھی اور ناگزیر وجوہات کے تحت 1947 میں ختم کردی گئی اور جنگ آزادی کی پہلی اینٹ 27 مئی 1898 کو رکھی گئی۔ اور جب ایک پرتگیزی واسکوڈی گاما وسائل کے حصول کے لیے کالی کٹ پر لنگر انداز ہوا، تو اس کا مقابلہ کیا گیا۔
1857 کی جنگ آزادی سب سے بڑی نو آبادیاتی مخالف جنگ کے نام سے یاد کی جاتی ہے اسی جنگ کے بارے میں کارل مارکس نے کہا تھا کہ یہ فوجی بغاوت نہیں بلکہ سماجی انقلاب تھا، انگریز حاکموں کا ظلم و ستم ڈھکا چھپا ہرگز نہ تھا۔ انھوں نے سماجی اور معاشی ڈھانچے کو تباہ و برباد کردیا، لیکن ان کے تعصب اور دشمنی کی چنگاریاں مسلمانوں میں جذبہ جہاد کو بیدار کرتی رہیں اور اخوت و بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھانے کا باعث بنیں، ایسے ہی حالات میں تحریک شاہ ولی اللہ، ٹیپو سلطان شہید، تحریک فرائض اور تحریک خلاف جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں اور جذبہ ایمانی کو فروغ ملا۔
بلوچستان میں مولوی ممتاز علی نے سیاسی بصیرت کو عام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ 1880 میں کوئٹہ آئے اور انگریزی تسلط سے نجات کے لیے انھوں نے خاطر خواہ کام کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں اجتماعیات کے جذبات ابھرے اور انگریزوں کی ہٹ دھرمی اور زیادتی اور ان سے نجات کا احساس بڑھنے لگا۔ انھی حالات کی پیداوار نور محمد مینگل عرف نورا مینگل ایک آزادی پسند اور راسخ العقیدہ مسلمان تھا جس نے دودکی میں پرورش پائی تھی، اس کے والد امیر خمسو پہلوان زئی نے اس کی ایسی تربیت کی اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا کہ وہ بچپن میں ہی ایک ماہر نشانہ باز اور اسلام کی بنیادی تعلیم سے آشنا ہوچکا تھا۔
اسے اپنے دشمن کی پہچان اس کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے اچھی طرح ہوگئی تھی، وہ جذبہ ایمانی سے سرشار تھا لیکن جدید اسلحے سے محروم، اس کے اور دوسرے مجاہدین کے پاس وہ بندوقیں تھیں جن کی ٹیکنالوجی سو برس پرانی تھی، جب کہ برطانوی فوج کے پاس جدید قسم کی بندوقیں Carbines / Rifls تھیں اور 1850 میں بندوق کی کارکردگی میں مزید ترقی ہوئی۔ نورا مینگل نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور اسے تھانہ وڈھ (کٹی پہاڑی) کا وضعدار مقرر کردیا گیا۔
اس نے انگریزوں کے حربی طریقوں کا مشاہدہ کیا وہ ان انگریز سپاہیوں کی بربریت کو دیکھ رہا تھا جو سلطنت عثمانیہ کی تباہی اور مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے۔ نورا یہ سب کچھ برداشت نہ کرسکا لہٰذا اس نے سرکاری عہدہ چھوڑا اور مسلمان رہنماؤں سے جا ملا اور اس نے انگریز مخالف اور آزادی پسند مجاہدین کو جمع کیا اور خضدار تھانہ پر حملہ کرکے انگریز سپاہیوں کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ نورا نے کئی بار انگریزوں کے گوداموں پر حملے کرکے مجاہدین کے لیے روپیہ اور اناج حاصل کیا۔
اس صورتحال سے پریشان ہوکر انگریزوں نے نورا کی گرفتاری کا حکم حاجی سردار ابراہیم اور بعد میں ان کے بیٹے ولی محمد کو دیا، مگر دونوں ہی سردار صاحب ایمان تھے اور وہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ نورا حق پرست اور اس کا جہاد تمام عالم اسلام کے لیے باعث فخر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی امت مسلمہ کو کفر و حق کی جنگ میں شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا تو یہ حقیقت سیاہ ناگ کے پھن کی مانند سر اٹھائے آگے بڑھتی چلی آئی کہ ان کی ناکامی میں ان کے اپنے دوستوں کا ہاتھ تھا۔
ٹیپو سلطان کی شہادت کے پیچھے بھی میر و جعفر جیسے غدار تھے۔ اسلامی تاریخ میں بھی ایسے ہی شواہد ملتے ہیں، جن کی غداری کو پڑھ کر ذہنی صدمے سے دوچار ہونا پڑتا ہے، واقعہ کربلا ہو یا سقوط پاکستان ہو، یا پھر ایمل کاسی کی قید اور شہادت ہو، یا غازی نورا مینگل کا عزم و حوصلہ جس نے سنگلاخ چٹانوں کو پاش پاش کرنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا تھا، بالآخر اسے بھی اس کے ہم مذہب، ہم زبان، مددگار اور دوست نما دشمن نے گرفتار کروادیا۔ عوام میں وہ ہیرو تھا۔ انگریز افسر ناڈ کے بقول نورا بلوچستان کا رابن ہڈ تھا۔ جھالاوان کے پہاڑ اس کا مسکن تھے۔
نورا نے اپنی بندوق کو اس قدر استعمال کیا کہ اس میں خرابی پیدا ہوگئی، اب نورا کو اپنا واحد ہتھیار بندوق کو درست کروانے یا نئی بندوق کی طلب تھی، اپنے مہربان دوست سردار حبیب اللہ نوشیروانی سے اس نے اپنے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کہا، سردار نے نئی بندوق دلوانے کا وعدہ کیا اور جب وہ دوپہر کے وقت سو رہا تھا، خارانی سپاہیوں نے اسے ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا، دشمن نے غدار کو وعدے کے مطابق مراعات سے نوازا اور اسے نواب بنادیا گیا۔ اس غازی کو کوئٹہ لایا گیا، مقدمہ چلا اور پھر عمر قید کی سزا ہوئی۔
بمشکل ڈھائی سال کی قید کے بعد وہ 20 نومبر 1921 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔آزادی کا ذکر جب بھی آئے گا نورا کی حب الوطنی، جذبہ ایمانی، آہنی حوصلے اور جدوجہد آزادی دلوں کو ضرور گرمائے گی، ملک و قوم کے غدار ننگ وطن و ننگ قوم تاریخ کے سیاہ صفحوں پر بدنامی کے دھبوں کی مانند چسپاں اور تا قیامت ذلت و رسوائی کے پیراہن میں بند رہیں گے۔ جس طرح مرحوم سابق صدر فاروق لغاری اور وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت میں اور ان کی ایما پر وطن کے مخلص، جری اور بہادر، ذہین و فطین مرد مجاہد کو امریکا کے حوالے کردیا گیا تھا۔ یہی کہانی نورا مینگل کے ساتھ بھی دہرائی گئی۔
نورا مینگل کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اگست کا مہینہ آزادی کا مہینہ ہے، اس ماہ کے حوالے سے بہت سی بے مثال ہستیاں یاد آگئی ہیں، اس بات کا بھی ذکر کرتی چلوں کہ 48 صفحات پر مشتمل کتاب غازی نورا مینگل آغا گل کی تصنیف ہے۔ 16 صفحوں پر آزادی کے متوالے کی ہمت و حوصلے کی کہانی درج اور بقیہ صفحات پر جنگ آزادی کے حوالے سے شاعری ہے۔ جو نورا نے مشکل حالات اور آزادی کی جستجو میں تخلیق کی تھی، اس کا ترجمہ آغا گل نے اردو میں کیا ہے، جس کی وجہ سے بلوچی زبان میں کی گئی شاعری کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
اگست کا مہینہ بہادری، جری اور محب وطن نوجوانوں کی یاد کو تازہ کرتا ہے۔ راشد منہاس کے عظیم کارنامے سے پوری دنیا واقف ہے، وہ قوم کا عظیم سپوت تھا، جس نے وطن عزیز پر اپنی جان قربان کردی اور وہ دشمن کے سامنے سر نگوں نہ ہوا بلکہ اس نے دشمن ملک کی سرحد سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر گرادیا، اس طرح راشد منہاس نے انسٹرکٹر مطیع الرحمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا اور خود جام شہادت نوش کرلیا۔
یہ جام وہ ہے جسے پینے کی تمنا بڑی اعلیٰ مرتبت ہستیوں نے کی ہے، لیکن اللہ رب العزت نے یہ عزت و مرتبہ راشد منہاس کی قسمت میں لکھ دیا تھا، اس طرح 20 اگست 1971 ایک اہم اور خاص دن اختیار کرگیا، ملک کو عزت و وقار بخشنے والوں کو حیات جاویداں نصیب ہوئی ہے جب کہ وطن کے دشمن ذلت کے گڑھے میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ شہیدوں کے لیے دین و دنیا دونوں جہانوں میں کامیابی کی مشعلیں روشن کی جاتی ہیں ان کی قربانی و ایثار نغموں اور گیتوں میں کچھ اس طرح ڈھل جاتا ہے:
اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
1857 کی جنگ آزادی سب سے بڑی نو آبادیاتی مخالف جنگ کے نام سے یاد کی جاتی ہے اسی جنگ کے بارے میں کارل مارکس نے کہا تھا کہ یہ فوجی بغاوت نہیں بلکہ سماجی انقلاب تھا، انگریز حاکموں کا ظلم و ستم ڈھکا چھپا ہرگز نہ تھا۔ انھوں نے سماجی اور معاشی ڈھانچے کو تباہ و برباد کردیا، لیکن ان کے تعصب اور دشمنی کی چنگاریاں مسلمانوں میں جذبہ جہاد کو بیدار کرتی رہیں اور اخوت و بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھانے کا باعث بنیں، ایسے ہی حالات میں تحریک شاہ ولی اللہ، ٹیپو سلطان شہید، تحریک فرائض اور تحریک خلاف جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں اور جذبہ ایمانی کو فروغ ملا۔
بلوچستان میں مولوی ممتاز علی نے سیاسی بصیرت کو عام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ 1880 میں کوئٹہ آئے اور انگریزی تسلط سے نجات کے لیے انھوں نے خاطر خواہ کام کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں اجتماعیات کے جذبات ابھرے اور انگریزوں کی ہٹ دھرمی اور زیادتی اور ان سے نجات کا احساس بڑھنے لگا۔ انھی حالات کی پیداوار نور محمد مینگل عرف نورا مینگل ایک آزادی پسند اور راسخ العقیدہ مسلمان تھا جس نے دودکی میں پرورش پائی تھی، اس کے والد امیر خمسو پہلوان زئی نے اس کی ایسی تربیت کی اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا کہ وہ بچپن میں ہی ایک ماہر نشانہ باز اور اسلام کی بنیادی تعلیم سے آشنا ہوچکا تھا۔
اسے اپنے دشمن کی پہچان اس کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے اچھی طرح ہوگئی تھی، وہ جذبہ ایمانی سے سرشار تھا لیکن جدید اسلحے سے محروم، اس کے اور دوسرے مجاہدین کے پاس وہ بندوقیں تھیں جن کی ٹیکنالوجی سو برس پرانی تھی، جب کہ برطانوی فوج کے پاس جدید قسم کی بندوقیں Carbines / Rifls تھیں اور 1850 میں بندوق کی کارکردگی میں مزید ترقی ہوئی۔ نورا مینگل نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور اسے تھانہ وڈھ (کٹی پہاڑی) کا وضعدار مقرر کردیا گیا۔
اس نے انگریزوں کے حربی طریقوں کا مشاہدہ کیا وہ ان انگریز سپاہیوں کی بربریت کو دیکھ رہا تھا جو سلطنت عثمانیہ کی تباہی اور مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے۔ نورا یہ سب کچھ برداشت نہ کرسکا لہٰذا اس نے سرکاری عہدہ چھوڑا اور مسلمان رہنماؤں سے جا ملا اور اس نے انگریز مخالف اور آزادی پسند مجاہدین کو جمع کیا اور خضدار تھانہ پر حملہ کرکے انگریز سپاہیوں کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ نورا نے کئی بار انگریزوں کے گوداموں پر حملے کرکے مجاہدین کے لیے روپیہ اور اناج حاصل کیا۔
اس صورتحال سے پریشان ہوکر انگریزوں نے نورا کی گرفتاری کا حکم حاجی سردار ابراہیم اور بعد میں ان کے بیٹے ولی محمد کو دیا، مگر دونوں ہی سردار صاحب ایمان تھے اور وہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ نورا حق پرست اور اس کا جہاد تمام عالم اسلام کے لیے باعث فخر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی امت مسلمہ کو کفر و حق کی جنگ میں شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا تو یہ حقیقت سیاہ ناگ کے پھن کی مانند سر اٹھائے آگے بڑھتی چلی آئی کہ ان کی ناکامی میں ان کے اپنے دوستوں کا ہاتھ تھا۔
ٹیپو سلطان کی شہادت کے پیچھے بھی میر و جعفر جیسے غدار تھے۔ اسلامی تاریخ میں بھی ایسے ہی شواہد ملتے ہیں، جن کی غداری کو پڑھ کر ذہنی صدمے سے دوچار ہونا پڑتا ہے، واقعہ کربلا ہو یا سقوط پاکستان ہو، یا پھر ایمل کاسی کی قید اور شہادت ہو، یا غازی نورا مینگل کا عزم و حوصلہ جس نے سنگلاخ چٹانوں کو پاش پاش کرنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا تھا، بالآخر اسے بھی اس کے ہم مذہب، ہم زبان، مددگار اور دوست نما دشمن نے گرفتار کروادیا۔ عوام میں وہ ہیرو تھا۔ انگریز افسر ناڈ کے بقول نورا بلوچستان کا رابن ہڈ تھا۔ جھالاوان کے پہاڑ اس کا مسکن تھے۔
نورا نے اپنی بندوق کو اس قدر استعمال کیا کہ اس میں خرابی پیدا ہوگئی، اب نورا کو اپنا واحد ہتھیار بندوق کو درست کروانے یا نئی بندوق کی طلب تھی، اپنے مہربان دوست سردار حبیب اللہ نوشیروانی سے اس نے اپنے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کہا، سردار نے نئی بندوق دلوانے کا وعدہ کیا اور جب وہ دوپہر کے وقت سو رہا تھا، خارانی سپاہیوں نے اسے ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا، دشمن نے غدار کو وعدے کے مطابق مراعات سے نوازا اور اسے نواب بنادیا گیا۔ اس غازی کو کوئٹہ لایا گیا، مقدمہ چلا اور پھر عمر قید کی سزا ہوئی۔
بمشکل ڈھائی سال کی قید کے بعد وہ 20 نومبر 1921 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔آزادی کا ذکر جب بھی آئے گا نورا کی حب الوطنی، جذبہ ایمانی، آہنی حوصلے اور جدوجہد آزادی دلوں کو ضرور گرمائے گی، ملک و قوم کے غدار ننگ وطن و ننگ قوم تاریخ کے سیاہ صفحوں پر بدنامی کے دھبوں کی مانند چسپاں اور تا قیامت ذلت و رسوائی کے پیراہن میں بند رہیں گے۔ جس طرح مرحوم سابق صدر فاروق لغاری اور وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت میں اور ان کی ایما پر وطن کے مخلص، جری اور بہادر، ذہین و فطین مرد مجاہد کو امریکا کے حوالے کردیا گیا تھا۔ یہی کہانی نورا مینگل کے ساتھ بھی دہرائی گئی۔
نورا مینگل کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اگست کا مہینہ آزادی کا مہینہ ہے، اس ماہ کے حوالے سے بہت سی بے مثال ہستیاں یاد آگئی ہیں، اس بات کا بھی ذکر کرتی چلوں کہ 48 صفحات پر مشتمل کتاب غازی نورا مینگل آغا گل کی تصنیف ہے۔ 16 صفحوں پر آزادی کے متوالے کی ہمت و حوصلے کی کہانی درج اور بقیہ صفحات پر جنگ آزادی کے حوالے سے شاعری ہے۔ جو نورا نے مشکل حالات اور آزادی کی جستجو میں تخلیق کی تھی، اس کا ترجمہ آغا گل نے اردو میں کیا ہے، جس کی وجہ سے بلوچی زبان میں کی گئی شاعری کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
اگست کا مہینہ بہادری، جری اور محب وطن نوجوانوں کی یاد کو تازہ کرتا ہے۔ راشد منہاس کے عظیم کارنامے سے پوری دنیا واقف ہے، وہ قوم کا عظیم سپوت تھا، جس نے وطن عزیز پر اپنی جان قربان کردی اور وہ دشمن کے سامنے سر نگوں نہ ہوا بلکہ اس نے دشمن ملک کی سرحد سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر گرادیا، اس طرح راشد منہاس نے انسٹرکٹر مطیع الرحمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا اور خود جام شہادت نوش کرلیا۔
یہ جام وہ ہے جسے پینے کی تمنا بڑی اعلیٰ مرتبت ہستیوں نے کی ہے، لیکن اللہ رب العزت نے یہ عزت و مرتبہ راشد منہاس کی قسمت میں لکھ دیا تھا، اس طرح 20 اگست 1971 ایک اہم اور خاص دن اختیار کرگیا، ملک کو عزت و وقار بخشنے والوں کو حیات جاویداں نصیب ہوئی ہے جب کہ وطن کے دشمن ذلت کے گڑھے میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ شہیدوں کے لیے دین و دنیا دونوں جہانوں میں کامیابی کی مشعلیں روشن کی جاتی ہیں ان کی قربانی و ایثار نغموں اور گیتوں میں کچھ اس طرح ڈھل جاتا ہے:
اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں