بزرگ شہری

جب تک دنیا میں مشترکہ خاندانی نظام زندہ رہا (اور جہاں آج بھی ہے) بزرگوں کو کسی لاحقے یا سابقے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی

Amjadislam@gmail.com

وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ کسی طرح نئی اصطلاحات وضع ہوتی ہیں اس کی ایک بہت دلچسپ مثال Senior Citizens ہے جس کا نزدیک ترین اردو ترجمہ بزرگ شہری ہے۔ جب تک دنیا میں مشترکہ خاندانی نظام زندہ رہا (اور جہاں آج بھی ہے) بزرگوں کو کسی لاحقے یا سابقے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی یعنی اس کے لیے صرف ''بزرگ'' ہونا ہی کافی تھا کہ اس بزرگی کا تعلق یوں تو کسی گھر، خاندان یا برادری سے بھی ہوتا تھا مگر عملی طور پر وہ بہ اعتبار عمر اپنے سے تمام چھوٹوں کے ''بزرگ'' ہوا کرتے تھے اور اس نسبت سے ان کی عزت کرنا گویا ایک فرض اور لازمۂ حیات تھا اور ان کے سامنے بولنا ان سے اختلاف کرنا یا ان کی کسی بات کو غلط ثابت کرنا اخلاقی اعتبار سے ایک ناپسندیدہ بات سمجھی جاتی تھی۔

فارسی کا ''خطائے بزرگاں گرفتن خطا است'' اور انگریزی کا Age is to be Respected اسی اصول کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک پنجابی محاورے کے مطابق ان بزرگوں کو گھر کے تالوں سے بھی تشبیہ دی جاتی تھی کہ ان کی موجودگی گویا ایک طرح سے گھر کی حفاظت کی علامت بھی بن جاتی تھی۔ کئی پسماندہ اور ترقی پذیر معاشروں (جن میں جائنٹ فیملی سسٹم اب بھی کسی نہ کسی حد تک موجود اور قائم ہے) میں عمر کے بڑھنے، قویٰ کی ضعیفی اور عملی طور پر محنت کر کے اپنی ضروریات کے لیے رزق کما سکنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہونے کے باوجود اس بزرگ طبقے کی دیکھ بھال ایک محبوب معاشرتی فریضے کے طور پر کی جاتی ہے اور یہ لوگ ان معنوں میں کبھی ''بزرگ شہری'' نہیں بنتے جن کی خبر گیری صرف حکومت یا اولڈ پیپل ہومز کی ذمے داری ہو اور جس کا دائرہ کار ان لوگوں کو ان کے آخری دم تک کم سے کم جسمانی تکلیف کے ساتھ زندہ رکھنے تک محدود ہو۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ہر شہری کی زندگی کو عام طور پر تین حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا جاتا ہے۔

-1 پیدائش سے لے کر 17 برس کی عمر یعنی ہائی اسکول کی تعلیم تک حکومت مختلف طرح سے اس کی تعلیم، صحت اور خوراک وغیرہ کو Subside کرتی ہے اور یوں اس پر Invest کرتی ہے۔

-2 اس کے بعد تقریباً 65 برس کی عمر تک وہ شہری اپنی کمائی میں سے حکومت کو ٹیکس ادا کرتا ہے جن کا بیشتر حصہ اس کو ملنے والی مختلف شہری سہولیات پر خرچ کیا جاتا ہے۔

-3 65 برس کی عمر کے بعد اس حاصل کردہ ٹیکس کا ایک حصہ Royality کے طور پر اس کی ان بنیادی ضروریات پر خرچ کیا جاتا ہے جن کا وہ بوجوہ خود انتظام نہ کر سکتا ہو۔

اب جہاں تک ان بزرگ شہریوں کا تعلق ہے جو معاشی طور پر کم یا زیادہ خود کفیل ہوں تو ان کے لیے ہر سطح پر مراعات کے پیکیج بنائے جاتے ہیں۔ انھیں مختلف طرح کے ڈسکاؤنٹس اور ہر ہر قدم پر ترجیحات (Priorities) دینے کے ساتھ ساتھ ممکنہ حد تک فعال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ان کے لیے پارکنگ، لائبریری، اسپتال، میڈیکل اسٹورز اور عمارات کی تعمیر میں خصوصی انتظام کیے جاتے ہیں مگر ان سب کے باوجود ان کے احساس تنہائی کو دور کرنے کا کوئی نسخہ ابھی تک ان کی سمجھ میں نہیں آ سکا جب کہ دوسری طرف ہمارے جیسے معاشروں میں ان کے لیے شاید احترام، محبت اور توجہ تو عام طور پر وافر مقدار میں موجود ہیں مگر بطور شہری ان کے حقوق اور خصوصی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

امیر طبقہ ان سہولیات کو خود خرید سکنے کی استطاعت اور غریب طبقات اپنے محدود امکانات کے باعث اس مسئلے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ سو اور بہت سے مسئلوں کی طرح یہ بوجھ بھی متوسط طبقے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ برادرم مجید سندھیلہ سے محکمہ تعلیم کی وساطت سے پرانی شناسائی ہے اور اب ہم ڈیفنس میں ہمسائے بھی ہیں۔ چند برس قبل وہ ایک بار گھر تشریف لائے اور بتایا کہ انھوں نے ڈیفنس کے باسیوں کی ایک سینئر سٹیزنز ایسوسی ایشن بنا رکھی ہے جس کے ممبران کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔

ان کا ایک مقصد ڈی ایچ اے کی ایڈمنسٹریشن سے علاقے میں مقیم بزرگ شہریوں کے واسطے سہولیات حاصل کرنا ہے اور یہ کہ میں ان کے سالانہ اجلاس میں آؤں اور حاضرین کو اپنا کلام بھی سناؤں اور یوں اس نیک اور ضروری کام میں ان کا معاون بھی بنوں۔ تب سے اب تک میں اس پروگرام کا مستقل حصہ بنا چلا آ رہا ہوں۔ اس بار یہ اجلاس گزشتہ اتوار کو وقت سے پہلے اس لیے منعقد ہوا کہ ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر ظفر یاسین بابر 31 اگست کو اپنے تین سال پورے کرنے کے بعد ٹرانسفر ہوکر اپنی فوجی ڈیوٹی پر واپس جا رہے تھے۔

سو ان کی موجودگی میں ان کے تعاون کا شکریہ ادا کرنا واجب تھا کہ اس دوران میں یہ صرف انھوں نے ڈیفنس سوسائٹی کو ہر اعتبار سے بہتر بنانے کے لیے بہت عمدہ کام کیا بلکہ بزرگ شہریوں کے لیے بھی بہت سے اچھے سلسلے شروع کیے۔ انھیں دوپہر کو اپنے بھانجے کی شادی میں شریک ہونا تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے نہ صرف شمولیت کا وعدہ نبھایا بلکہ ہر اعتبار سے تقریب میں بھرپور اور تادیر شرکت کی اور جاتے جاتے یہ اعلان بھی کیا کہ ریٹائر ہونے کے بعد وہ خود اس تنظیم میں بطور ممبر شامل ہوں گے۔ ہال میں موجود بزرگ شہریوں کی طرف سے چٹوں کی شکل میں سوالات، تقاضے، شکایتیں اور مشورے درجنوں کی شکل میں آئے۔

انھوں نے نہ صرف تمام چٹیں باآواز بلند پڑھیں بلکہ کئی ایک پر اسی وقت احکامات بھی صادر کر دیے۔ وقت کی کمی کی وجہ سے میں نے صرف دو نظمیں سنائیں اور فرمائش کے باوجود بزرگ شہریوں کے احساسات سے متعلق وہ نظم نہ پڑھ سکا جو چند برس قبل ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے دنوں میں لکھی گئی تھی۔ سو اب اسی کے ساتھ اس کام کو ختم کرتا ہوں کہ عمر کی ڈھلوان پر چڑھنے اور اترنے کا یہ عمل دیکھنے سے زیادہ سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ڈھلوان پر آتے جاتے لوگ۔

ڈھلتی عمر کی صورت بھی ڈھلوان سے ملتی جلتی ہے

کل تک ہم اوپر سے نیچے افتاں خیزاں آتے ہوؤں کو

دیکھتے تھے اور سوچتے تھے!

یہ سب اتنے بیکل کیوں ہیں؟

چہرے ہلدی مائل کیوں ہیں؟


آنکھیں ان کی پرنم پرنم، لہجے گھائل گھائل کیوں ہیں؟

اب جب ہم بھی ان کی طرح سے

عمر رواں کے نیچے جاتی ہر سیڑھی پر

ہم سفروں کو اک اک کرکے رخصت کرتے جاتے ہیں تو

اس کا بھید بھی کھل جاتا ہے

یوں لگتا ہے، جیسے ہر اک جانے والا

اپنے انتم سانس کی بھاری سی گٹھری میں

بن بتلائے، بن دکھلائے

باندھ کے ساتھ لیے جاتا ہے

ہم سب پیچھے رہنے والوں کے جیوان کا اتنا ٹکڑا

جس میں وہ خود رہتا تھا

اور یوں جیون کے اس پتھ میں

ڈھلتی عمر کی ڈھلوانوں پر سب ہی نیچے جانے والے

دیکھنے میں تو پورے پورے لگتے ہیں

قدم قدم پر جانے کیا کچھ کھو جاتے ہیں

لمحہ لمحہ، سیڑھی سیڑھی اور ادھورے ہو جاتے ہیں
Load Next Story