اڑان بھرتے ہی پاکستان سپر لیگ کے پر کٹ گئے

کرکٹ بورڈ وقت اور سرمایہ برباد کرنے کے بجائے حقیقی مسائل پر توجہ دے۔


Sayed Abbas Raza February 16, 2013
کرکٹ بورڈ وقت اور سرمایہ برباد کرنے کے بجائے حقیقی مسائل پر توجہ دے۔ فوٹو : فائل

یہ کردیں گے، وہ کردیں گے، کرکے دکھائیں گے، ثابت کر دیں گے، ایسا ہوجائے گا، ویسا ہوجائے کی گردان سے ہمارے اخبارات بھرئے ہوتے ہیں، مگر عملی طور پر پاکستان میں جو ہوتا ہے وہ جاننے کے لیے لوڈشیڈنگ کے سبب تاریکی میں ڈوبے گلی محلے، گیس کو ترستے کارخانے اور گھروں کے چولہے، سی این جی کیلئے لگی لمبی قطاریں، اسپتالوں میں مفلوک الحال عوام کے حسرت زدہ چہرے کافی ہیں۔

سیاسی گورکھ دھندوں میں الجھے اسپورٹس اداروں کے بھی حالات مختلف نہیں، فیڈریشنز کروڑوں کا بجٹ اڑانے اور آئندہ مقابلوں میں بہتر کارکردگی کے خواب دکھانے کا ''فریضہ'' بڑی کامیابی سے ادا کررہی ہیں۔ پی سی بی اس معاملے میں دو چار ہاتھ آگے ہی نظر آتا ہے، سیاسی آشیرباد سے تقرر پانے والے چیئرمین سے لیکر ماتحت عہدیداروں تک سبھی حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے چین کی بانسری بجانے اور مستقبل کے سہانے سپنے دکھانے کی روش پر قائم ہیں۔ زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہر سال ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے دعوئوں کا جو حشر ہوا سب کے سامنے ہے، پاکستان سپر لیگ کے پر اڑان بھرنے سے پہلے ہی کٹ چکے، حسب روایت نئے خوش کن اعلانات کے ساتھ پرانی کہانی دہراتے ہوئے شائقین کو نئی تاریخوں کا انتظار کرنے کو کہا جارہا ہے۔

پی سی بی کے چیئرمین ذکاء اشرف بلا شبہ ایک کامیاب بزنس مین اور بہترین منتظم کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواچکے ہیں، زرعی ترقیاتی بینک کی وجہ سے کرکٹ کے ساتھ وابستگی نے انھیں بورڈ باگ ڈور سنبھالنے پر راغب کیا، ڈپلومیسی اور دیگر ملکوں کے ساتھ بات چیت میں بھی ان کی شخصیت کا اعتماد جھلکتا نظر آتا ہے مگر پاکستان کرکٹ کے دیرینہ مسائل سے ناواقفیت کی وجہ سے انھیں مشیروں کی فوج پر انحصار کرنا پڑتا ہے، بدقسمتی سے زیادہ تر عہدوں پر اب بھی وہی اصحاب براجمان ہیں جو کبھی سابق چیئرمین اعجاز بٹ کے دائیں بائیں رہتے ہوئے آئیں بائیں شائیں کرکے کام چلاتے تھے۔ قومی کرکٹ ٹیم کے طے نئے ٹیلنٹ کی تلاش اور سلیکشن کے معاملات سدھارنے سے زیادہ اپنے رکھ رکھائو پر توجہ دینے والوں سے بہتر مشاورت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ذکاء اشرف کے آنے سے بورڈ میں کوئی تبدیلی اسی صورت میں آسکتی تھی کہ سسٹم کو چلانے والے بھی تبدیل ہوتے، من پسند معلومات کا خزانہ رکھنے والے عہدیداروں سے انقلابی فیصلوں کی توقع ہوسکتی تھی نہ ہونی چاہیے۔

نتیجے میں پی سی بی کے حادثاتی فیصلوں میں بھی استحکام دیکھنے میں نظر نہیں آیا، وقار یونس سے ان بن ہوئی تو عبوری کوچ محسن حسن خان بہتر کارکردگی کے باوجود ناقابل قبول ٹھہرے، ملکی کوچز کو ناموزوں خیال کرتے ہوئے ڈیوڈ واٹمور کو بھاری معاوضے پر رکھ کر انھیں من پسند ٹرینر اور فیلڈنگ کوچ بھی رکھنے کی اجازت دیدی گئی، بولنگ کوچ رکھنے کی ضرورت پڑی تو کوالیفائیڈ ہونے کے ساتھ بھاری شرائط کی فہرست بھی جاری کردی گئی، فیصلہ سیاسی دبائو پر محمد اکرم کے حق میں کردیا گیا۔ جن کی اپنی کرکٹ اور کوچنگ پرفارمنس مثالی نہیں قراردی جاسکتی۔ پہلے کہا گیا کہ ڈیوڈ واٹمور کے ہوتے ہوئے کسی بیٹنگ کوچ کی ضرورت نہیں، پھر اس مقصد کیلئے لمبی چوڑی شرائط پر مشتمل اشتہار جاری کرکے خوب کوریج حاصل کی گئی، دورہ بھارت سے قبل یہ ہوگا، وہ ہوگا کی گردان ختم کرکے انضمام الحق کو بیٹنگ کنسلٹنٹ بناتے ہی، تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملادیئے گئے، بورڈ عہدیدار کپتان مصباح الحق اور محمد حفیظ میڈیا کے سامنے بار بار کہتے پائے گئے کہ سابق کپتان کے مفید مشوروں کا بڑا فائدہ ہوا، ایک چینل کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے ٹیم کے ساتھ نہ جا پانے والے انضمام الحق دورہ جنوبی افریقہ میں ٹیم کے ساتھ ہوں گے۔

بعدازاں معلوم ہوا کہ معاملات طے نہیں پائے اورعظیم کھلاڑی کے مفید مشورے اب ردی کا کاغذ ہو چکے۔اس دوران فرصت کے لمحات میں مصروفیت ڈھونڈھتے ہوئے مشیروں کی فوج پاکستان سپر لیگ کے انعقاد کیلئے بظاہر خاصی سرگرم ہوگئی، ایک سال سے زائد عرصہ تک گول مول بیانات کے بعد پی ایس ایل لوگو کی تقریب رونمائی کا اہتمام کردیا گیا، مخصوص لوگوں کی طرف سے طے شدہ سوالوں کے غیر واضح جوابات سے ہی ثابت ہورہا تھا کہ سکیورٹی صورتحال اور قلیل وقت کے پیش نظر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکے گی۔

آئی سی سی کے سابق چیف ایگزیکٹو ہارون لورگاٹ پاکستان آئے تو خیرسگالی دورہ قرار دیتے ہوئے مصروفیات کے سبب عدم دستیابی کی کہانی سنائی گئی، مگر اس تقریب میں وہ بطور کنسلٹنٹ پی ایس ایل کی ہر صورت کامیابی کے بلند بانگ دعوے کررہے تھے۔ ایونٹ کے انعقاد کیلئے حتمی تاریخوں کا اعلان کرنے تک گریز کیا گیا۔ بعدازاں شیڈول جاری کیا گیا تو وینیو کا کوئی ذکر موجود نہ تھا۔ سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے نام بتائے بغیر نامور انٹرنیشنل کرکٹرز سمیت 80 کھلاڑیوں کے معاہدوں کیلئے رضامند ہونے کے دعوے شروع کردیئے گئے، کئی بڑی کمپنیوں کے سپانسر شپ اور نشریاتی حقوق کیلئے امیدوار ہونے کی باتیں بھی تسلسل کے ساتھ میڈیا میں پھیلائی گئیں، 26 مارچ سے 7 اپریل تک مقابلے کروانے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ شیڈول آئی پی ایل اور دیگر انٹرنیشنل ایونٹس سے متصادم ہونے کی صورت میں کسی ملک کے کھلاڑی پاکستان آئیں گے، بنگلہ دیشی بورڈ کے رویئے سے تنگ آکر قومی کرکٹرز کو بی پی ایل کیلئے ریلیز نہ کرنے کے بعد بنگالی ٹائیگرز کے آنے کی امید پہلے ہی نہیں تھی، بھارت روایتی طور پر اپنے فائدے کے سودوں میں ہی دلچسپی رکھتا ہے، سری لنکن کھلاڑیوں کو اپنی مصروفیات ہیں، انگلش، آسٹریلوی، جنوبی افریقی کرکٹرز ایسوسی ایشنز پاکستان کو ''سکیورٹی رسک'' قرار دیتے ہوئے کرکٹرز کو روکنے کیلئے سرگرم تھیں۔

فیکا نے بھی مہم کا آغاز کردیا تھا ایسی صورت میں کسی لیگ کے کامیاب ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی، بھارت سمیت دیگر ملکوں کے متعصبانہ رویہ سے ملک کا ایک عام شہری بھی واقف ہے۔ پی سی سی کے مشیروں نے اس کے باوجود چند روز بڑے سرگرم گزارے، ہارون لورگاٹ نے حقائق جانتے ہوئے بھی اپنی جیب بھری، دیگر نے بھی خوب موج میلہ کیا، بالآخر بورڈ نے اس معاملے میں بیک فٹ پر آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پی ایس ایل کے منیجنگ ڈائریکٹر سلمان سرور بٹ کو خدا حافظ کہا، حیرت کی بات ہے اس موقع پر بھی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے نئے دعوے شروع کردیئے گئے، نئے پلان، نئی تاریخوں کی باتیں پھر ہونے لگی ہیں۔ قبل ازیں جاوید میانداد کو پراجیکٹ سے الگ تھلگ کردیا گیا، اب مردہ گھوڑے کی باگ ڈور ایک بار پھر ان کے ہاتھوں میں سونپ دی گئی ہے، ان کی دلچسپی کا یہ حال ہے کہ اپنے پہلے ہی بیان میں انھوں نے کسی منصوبہ بندی کی بات کرنے کے بجائے پی ایس ایل ٹیم کے نئے دفاتر میں بیٹھنے کو ہی بڑا خوش آئند کارنامہ قرار دیا۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پی سی بی کا کام دفتروں کی تزئین آرائش نہیں پاکستان کرکٹ اور کرکٹرز کی بہتری ہے، ملک میں انٹرنیشنل مقابلوں کی بحالی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ضرور ہوگی مگر موجودہ سیاسی و سماجی حالات اور امن و امان کی صورتحال میں ایسی کوششوں پر سرمایہ اور وقت ضایع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جن کے مستقبل قریب میں بھی کوئی مثبت نتائج سامنے آتے دکھائی نہیں دیتے۔ ملکی سرمایہ کار بیرون ملک بھاگ رہے ہیں تو باہر سے آکر فرنچائزز پر سرمایہ کاری کون کرے گا۔ پاکستان کرکٹ کی بقا عالمی سطح پر اپنا وجود منوانے میں ہے، کرکٹرز کی کارکردگی اچھی ہوگی تو انھیں نظر انداز کرنا آسان نہیں رہے گا۔ بدقسمتی سے بورڈ کے کرتا دھرتا اس پہلو پر کم توجہ دے رہے ہیں۔

جنوبی افریقہ کی وکٹیں کیسی ہوتی ہیں دنیا جانتی ہے مگر ہم وہاں راحت علی اور تنویر احمد جیسے میڈیم پیسرز کے ساتھ پروٹیز دیواریں گرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جنید خان اور کسی حد تک محمدعرفان بھی عمر گل کا ساتھ دینے کیلئے موجود تھے مگر طویل ٹور میں فٹنس مسائل مہم کمزور کرنے کیلئے کافی ہوں گے۔ وسیم وقار کی جوڑی کو رخصت ہوئے ایک عرصہ گزرا، محمد عامر اور آصف نے کچھ امید جگائی پھر اسپاٹ فکسنگ سیکنڈل کا آسان شکار بن گئے، متعدد تجربات کے بعد جنید خان کی صورت میں روشنی کی کرن نظر آئی مگر ان کی فٹنس بھی مشکوک رہتی ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ کا نازنخروں والے کئی عہدیداروں پر مشتمل سیٹ اپ چند نئے فاسٹ بولر تلاش نہیں کرسکا، جنوبی افریقہ میں نئی گیند کا سامنا کرنے والا کوئی بیٹسمین نظر نہیں آرہا۔

اہم اپنی پسندیدہ ایشیائی کنٹریشنز اور سعید اجمل کے بھروسے پر کتنے میچ جیت سکتے ہیں۔ ان معاملات پر کوئی فکر مندی نظر نہیں آتی، بظاہر ملک میں ڈومیسٹک کرکٹ بھی ہوتی ہے، علاقائی سطح پر بوگس کے ساتھ کئی فعال کلب بھی کرکٹرز کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ نیا ٹیلنٹ کھوج نکالنے کے دعوے بھی کئے جاتے ہیں۔ مگر مضبوط ٹیموں کا سامنا کرتے ہوئے کمزوریاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ ریجنز میں تنظیم سازی کیلئے الیکشن میں خود ساختہ کلبوں کا سہارا لیتے ہوئے مرضی کے افراد کو آگے لایا جائے تو میرٹ پر فیصلے کیسے ہوں گے؟ حقدار کھلاڑیوں کی ابتدا میں ہی حوصلہ شکنی ہوگی تو نیا ٹیلنٹ اپنی موت آپ مرجائے گا۔ پاکستان کرکٹ کے معاملات درست کرنے کیلئے چیئرمین پی سی بی کو کھیل کا درد رکھنے والے افراد کی ٹیم لانا ہوگی۔ دوسری صورت انھیں تیار رہنا چاہیے کہ وقت کا پہیہ گھومتا ہے تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ تنقیدی توپیں خاموش کرنے کیلئے عہدوں کی بندربانٹ سے بہتری کی کوئی صورت نکلنے کا امکان نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں