سیاسی ومذہبی قیادت کا رویہ اور طالبان
اگر اے این پی نے ایک اچھے عمل کا بیڑہ اٹھا لیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لیے پہلے ہوم ورک کر لیا جاتا۔
ISLAMABAD:
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کے قافلے پر جمعہ کو ہونے والے خودکش حملے میں وہ اور قافلے کے تمام افراد خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ تفصیلات کے مطابق خودکش بمبار نے پہلے وزیراعلیٰ کے قافلے کو ہینڈ گرنیڈ سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جس پر پولیس نے اسے گولی مار دی اور وہ گر کر تڑپنے لگا اور پھر اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پر اس دن حملہ ہوا جس روز اخبارات میں اے این پی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے حوالے سے شہ سرخیاں جمی تھیں۔
یہ کانفرنس جمعرات کو منعقد ہوئی تھی' عین اسی دن جب اسلام آباد میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے مسئلے پر غور ہو رہا تھا اور کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذاکرات کے عمل کی حمایت کی جا رہی تھی، دہشت گردوں نے بنوں میں تھانہ میریان پر حملہ کیا (جوابی کارروائی میں پانچ خودکش بمبار مارے گئے) قبائلی ایجنسی اورکزئی میں دو مسافر گاڑیوں کو یکے بعد دیگر ریموٹ کنٹرول بموں سے نشانہ بنایا گیا اور ہنگو میں ٹل کے مقام پر سکیورٹی چیک پوسٹ کو حملے کا نشانہ بنایا گیا اور یوں دو درجن کے قریب قیمتی جانیں دہشت گردوں کے جنون کی نذر ہو گئیں۔ ان حملوں کی کالعدم تحریک طالبان نے ذمے داری اس جواز کے ساتھ قبول کر لی کہ ابھی تو مذاکرات شروع ہی نہیں ہوئے، صرف کل جماعتی کانفرنس میں مذاکرات کی بات کی گئی ہے اور یہ بھی کہ ابھی تو جنگ بندی نہیں ہوئی، فورسز نے بھی جنگ بند نہیں کی اور ہماری جنگ بھی بند نہیں ہوئی۔
وطن عزیز کو ایک عجیب قسم کے کنفیوژن کا سامنا ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت طالبان سے مذاکرات کی باتیں کر رہی ہے لیکن طالبان مذاکرات کی باتوں کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں' اس کا جواب وہ اپنی کارروائیاں کر کے دے رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں میں طالبان سے مذاکرات کرنے کے نکتے پر اتفاق پایا جاتا ہے مگر دوسری جانب سے ان ساری مثبت کوششوں کا جو جواب مل رہا ہے وہ قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر اے این پی نے ایک اچھے عمل کا بیڑہ اٹھا لیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لیے پہلے ہوم ورک کر لیا جاتا۔ ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادت استدلال پیش کرتی ہے کہ امریکا افغان طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے تو پاکستان کو ''اپنوں'' سے مذاکرات کرنے میں کیا حرج ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا افغان پالیسی اور دہشت گردی کے حوالے سے موقف ابہام سے پاک ہے۔ حکمران ڈیمو کریٹک پارٹی ہو یا ری پبلکن پارٹی' انھوں نے امریکی عوام کو ابہام میں نہیں رکھا اور نہ ہی امریکا کی سرکاری مشینری اور خفیہ ایجنسیاں اس حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ جو مذاکرات ہو رہے ہیں' وہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت جاری ہیں' امریکی ریاست براہ راست ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کر رہی اور نہ ہی امریکا کی ری پبلکن پارٹی صدر اوباما پر دبائو ڈال رہی ہے کہ امریکی ریاست مذاکرات کرے' ایسا پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ مخالف فریق ہتھیار چلاتا رہے' خود کش حملے کرتا رہے، اس کے باوجود مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ریاست اس کے ساتھ مذاکرات کرے۔
اے این پی اور کانفرنس میں شریک جماعتوں کو چاہیے کہ اگر وہ پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے لیے اتنی ہی بے تاب ہیں تو پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے کالعدم تحریک طالبان میں ایسے لوگ تلاش کریں جو ملک کے آئین کی بالادستی ماننے پر تیار ہوں' پر امن شہری بننے کے خواہاں ہوں' اس طریقے سے طالبان سے وہ عنصر الگ ہو جائے گا جو القاعدہ سے جڑا ہوا ہے اور جو ملک کے آئین و قانون کو تسلیم نہیں کرتا' امریکا اور افغان حکومت بھی ایسا ہی کر رہی ہے' اس وقت کئی سابق افغان طالبان افغانستان میں پر امن زندگی گزار رہے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے ذریعے طالبان سے امریکا بیک ڈور معاملات طے کرا رہا ہے۔ دہشت گردی کسی ایک شخص، سیاسی جماعت یا کسی مخصوص علاقے کا مسئلہ نہیں ہے، یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور اسے بغیر کسی سیاسی تعصب یا عجلت کے سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں تو بات بن سکتی ہے، ضرورت صرف ترجیحات متعین کرنے اور اپنے قول و فعل میں موجود تضاد کو ختم کرنے کی ہے۔
ملک کی سیاسی قیادت خواہ وہ خود کو لبرل کہلائے یا قدامت پسند' وہ دو عملی کا شکار ہے' وہ ڈرائنگ رومز میں کچھ کہتے ہیں اور میڈیا کے سامنے کچھ اور۔ اس صورتحال سے عوام میں ابہام پیدا ہو رہا ہے' انھیں یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ کون غلط ہے اور کون صحیح۔ عوام کبھی امریکا پر غصہ نکالتے ہیں اور کبھی طالبان کو برا بھلا کہنا شروع ہو جاتے ہیں' اس قسم کی صورتحال کا فائدہ سیاستدانوں کو ہو رہا ہے نہ ملک اور قوم کو۔ دنیا میں ہر جگہ علیحدگی پسند اور جنگجو تنظیموں سے بات چیت ہوتی رہتی ہے' لیکن اس کے لیے کوئی اصول و ضابطہ طے ہوتا ہے' سری لنکا کی مثال کو دیکھیں تو وہاں کی حکومت نے تامل ٹائیگرز کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ریاست اگر کسی ہتھیار بند گروہ کے سامنے کمزوری ظاہر کرے گی تو پھر وہاں امن نہیں بلکہ انارکی ہو گی۔ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات ضرور کریں لیکن پہلے انھیں یہ بتائیں کہ ریاست ان سے زیادہ طاقتور ہے' جس دن ریاست نے انھیں یہ احساس دلا دیا' اس روز طالبان خود بخود مذاکرات کے لیے تیار ہو جائیں گے اور یہ کامیابی سے ہمکنار بھی ہو جائیں گے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کے قافلے پر جمعہ کو ہونے والے خودکش حملے میں وہ اور قافلے کے تمام افراد خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ تفصیلات کے مطابق خودکش بمبار نے پہلے وزیراعلیٰ کے قافلے کو ہینڈ گرنیڈ سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جس پر پولیس نے اسے گولی مار دی اور وہ گر کر تڑپنے لگا اور پھر اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پر اس دن حملہ ہوا جس روز اخبارات میں اے این پی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے حوالے سے شہ سرخیاں جمی تھیں۔
یہ کانفرنس جمعرات کو منعقد ہوئی تھی' عین اسی دن جب اسلام آباد میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے مسئلے پر غور ہو رہا تھا اور کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذاکرات کے عمل کی حمایت کی جا رہی تھی، دہشت گردوں نے بنوں میں تھانہ میریان پر حملہ کیا (جوابی کارروائی میں پانچ خودکش بمبار مارے گئے) قبائلی ایجنسی اورکزئی میں دو مسافر گاڑیوں کو یکے بعد دیگر ریموٹ کنٹرول بموں سے نشانہ بنایا گیا اور ہنگو میں ٹل کے مقام پر سکیورٹی چیک پوسٹ کو حملے کا نشانہ بنایا گیا اور یوں دو درجن کے قریب قیمتی جانیں دہشت گردوں کے جنون کی نذر ہو گئیں۔ ان حملوں کی کالعدم تحریک طالبان نے ذمے داری اس جواز کے ساتھ قبول کر لی کہ ابھی تو مذاکرات شروع ہی نہیں ہوئے، صرف کل جماعتی کانفرنس میں مذاکرات کی بات کی گئی ہے اور یہ بھی کہ ابھی تو جنگ بندی نہیں ہوئی، فورسز نے بھی جنگ بند نہیں کی اور ہماری جنگ بھی بند نہیں ہوئی۔
وطن عزیز کو ایک عجیب قسم کے کنفیوژن کا سامنا ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت طالبان سے مذاکرات کی باتیں کر رہی ہے لیکن طالبان مذاکرات کی باتوں کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں' اس کا جواب وہ اپنی کارروائیاں کر کے دے رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ سیاسی جماعتوں میں طالبان سے مذاکرات کرنے کے نکتے پر اتفاق پایا جاتا ہے مگر دوسری جانب سے ان ساری مثبت کوششوں کا جو جواب مل رہا ہے وہ قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر اے این پی نے ایک اچھے عمل کا بیڑہ اٹھا لیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لیے پہلے ہوم ورک کر لیا جاتا۔ ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادت استدلال پیش کرتی ہے کہ امریکا افغان طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے تو پاکستان کو ''اپنوں'' سے مذاکرات کرنے میں کیا حرج ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا افغان پالیسی اور دہشت گردی کے حوالے سے موقف ابہام سے پاک ہے۔ حکمران ڈیمو کریٹک پارٹی ہو یا ری پبلکن پارٹی' انھوں نے امریکی عوام کو ابہام میں نہیں رکھا اور نہ ہی امریکا کی سرکاری مشینری اور خفیہ ایجنسیاں اس حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ جو مذاکرات ہو رہے ہیں' وہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت جاری ہیں' امریکی ریاست براہ راست ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کر رہی اور نہ ہی امریکا کی ری پبلکن پارٹی صدر اوباما پر دبائو ڈال رہی ہے کہ امریکی ریاست مذاکرات کرے' ایسا پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ مخالف فریق ہتھیار چلاتا رہے' خود کش حملے کرتا رہے، اس کے باوجود مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ریاست اس کے ساتھ مذاکرات کرے۔
اے این پی اور کانفرنس میں شریک جماعتوں کو چاہیے کہ اگر وہ پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے لیے اتنی ہی بے تاب ہیں تو پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے کالعدم تحریک طالبان میں ایسے لوگ تلاش کریں جو ملک کے آئین کی بالادستی ماننے پر تیار ہوں' پر امن شہری بننے کے خواہاں ہوں' اس طریقے سے طالبان سے وہ عنصر الگ ہو جائے گا جو القاعدہ سے جڑا ہوا ہے اور جو ملک کے آئین و قانون کو تسلیم نہیں کرتا' امریکا اور افغان حکومت بھی ایسا ہی کر رہی ہے' اس وقت کئی سابق افغان طالبان افغانستان میں پر امن زندگی گزار رہے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے ذریعے طالبان سے امریکا بیک ڈور معاملات طے کرا رہا ہے۔ دہشت گردی کسی ایک شخص، سیاسی جماعت یا کسی مخصوص علاقے کا مسئلہ نہیں ہے، یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور اسے بغیر کسی سیاسی تعصب یا عجلت کے سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں تو بات بن سکتی ہے، ضرورت صرف ترجیحات متعین کرنے اور اپنے قول و فعل میں موجود تضاد کو ختم کرنے کی ہے۔
ملک کی سیاسی قیادت خواہ وہ خود کو لبرل کہلائے یا قدامت پسند' وہ دو عملی کا شکار ہے' وہ ڈرائنگ رومز میں کچھ کہتے ہیں اور میڈیا کے سامنے کچھ اور۔ اس صورتحال سے عوام میں ابہام پیدا ہو رہا ہے' انھیں یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ کون غلط ہے اور کون صحیح۔ عوام کبھی امریکا پر غصہ نکالتے ہیں اور کبھی طالبان کو برا بھلا کہنا شروع ہو جاتے ہیں' اس قسم کی صورتحال کا فائدہ سیاستدانوں کو ہو رہا ہے نہ ملک اور قوم کو۔ دنیا میں ہر جگہ علیحدگی پسند اور جنگجو تنظیموں سے بات چیت ہوتی رہتی ہے' لیکن اس کے لیے کوئی اصول و ضابطہ طے ہوتا ہے' سری لنکا کی مثال کو دیکھیں تو وہاں کی حکومت نے تامل ٹائیگرز کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ریاست اگر کسی ہتھیار بند گروہ کے سامنے کمزوری ظاہر کرے گی تو پھر وہاں امن نہیں بلکہ انارکی ہو گی۔ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات ضرور کریں لیکن پہلے انھیں یہ بتائیں کہ ریاست ان سے زیادہ طاقتور ہے' جس دن ریاست نے انھیں یہ احساس دلا دیا' اس روز طالبان خود بخود مذاکرات کے لیے تیار ہو جائیں گے اور یہ کامیابی سے ہمکنار بھی ہو جائیں گے۔