جالب بول رہا ہے آؤ ہم بھی بولیں
امریکا کے ایجنٹوں سے ملک بچانا ہے ہم کو، گلی گلی میں آزادی کا دیپ جلانا ہے ہم کو
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ''پاکستان میں جہاں کہیں دہشت گرد ہوں گے، وہاں حملہ کیا جائے گا'' ہمارے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے رد عمل میں کہا ہے ''اگر امریکا پاکستان میں اپنے فوجیوں کا قبرستان بنانا چاہتا ہے تو اس کی مرضی'' ہمارے آرمی چیف نے بھی امریکی سفیر کو بلا کر کہا ہے کہ ''ہمیں کسی قسم کی مالی یا فوجی امداد نہیں چاہیے، البتہ دہشت گردی کے خلاف ہماری قربانیوں کو تسلیم کیا جائے'' روس اور چین نے بھی امریکی صدر کے بیان کو رد کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔
آج مجھے شاعر عوام حبیب جالب شدت سے یاد آرہے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ امریکا کے ظالمانہ اور جابرانہ کردار کو بے نقاب کیا ہے۔ آج کالم میں جالب کے اشعار ہوں گے:
امریکا کے ایجنٹوں سے ملک بچانا ہے ہم کو
گلی گلی میں آزادی کا دیپ جلانا ہے ہم کو
جن کے کارن اپنے وطن میں گھر گھر آج اندھیارا ہے
ان کالی دیواروں کو رستے سے ہٹانا ہے ہم کو
نوکر شاہی اصل میں پیارے انگریزوں کی لعنت ہے
اس انگریزی لعنت کا ہر نقش مٹانا ہے ہم کو
بیڑا غرق جو کردے ساتھی اس امریکی بیڑے کا
بحرِ ہند میں اک ایسا طوفان اٹھانا ہے ہم کو
......
نام چلے ہر نام داس کا، کام چلے امریکا کا
مورکھ اس کوشش میں ہے سورج نہ ڈھلے امریکا کا
نردھن کی آنکھوں میں آنسو آج بھی ہیں اور کل بھی تھے
برلا کے گھر دیوالی ہے، تیل جلے امریکا کا
دنیا بھر کے مظلوموں نے بھید یہ سارا جان لیا
آج ہے ڈیرا زرداروں کے سائے تلے امریکا کا
کام ہے اس کا سودے بازی سارا زمانہ جانے ہے
اسی لیے تو مجھ کو پیارے نام کَھلے امریکا کا
غیر کے بل بوتے پر جینا مردوں والی بات نہیں
بات تو جب ہے اے جالب، احسان نہ لے امریکا کا
......
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
لیکن ان دونوں ملکوں میں امریکا کا ڈیرا ہے
ایڈ کی گندم کھا کر ہم نے کتنے دھوکے کھائے ہیں
پوچھو نہ ہم نے امریکا کے کتنے ناز اٹھائے ہیں
پھر بھی اب تک ''وادی گل'' کو سنگینوں نے گھیرا ہے
......
خان بہادر چھوڑنا ہوگا اب تو ساتھ امریکا کا
تا بہ گریباں آ پہنچا ہے، پھر سے ہاتھ امریکا کا
میک میلن تیرا نہ ہوا تو کینیڈی کب تیرا ہے
......
یہ دھرتی ہے اصل میں پیارے مزدوروں دہقانوں کی
اس دھرتی پر چل نہ سکے گی، مرضی چند گھرانوں کی
ظلم کی رات رہے گی کب تک، اب نزدیک سویرا ہے
......
سفید بنیا
قرض دے کر غریب ملکوں کو
چھین لیتا ہے روحِ آزادی
آج زیرِ عتاب ہے اس کے
ہر بڑا شہر، ہر حسیں وادی
مدتوں سر اٹھا کے چل نہ سکا
اس کے کھاتے میں جس کا نام آیا
صاف دامن بچا گیا ہم سے
جب بھی مشکل کوئی مقام آیا
بحرِ ہند آج تیری سوچیں بھی
اس کی توپوں کے سائے میں ہیں خموش
کوئی طوفان کیوں نہیں اٹھتا
کیا ہوا آج تیرا جوش و خروش
......
امریکا یاترا کے خلاف
طوافِ کوئے ملامت کو پھر نہ جا اے دل
نہ اپنے ساتھ ہماری بھی خاک اڑا اے دل
نہیں ہے کوئی وہاں درد آشنا اے دل
اس ''انجمن'' میں نہ کر عرضِ مدعا اے دل
خیال تجھ سے زیادہ اسے عدو کا ہے
وہ بے وفا ہے اسے اب نہ منہ لگا اے دل
دیے ہیں داغ بہت اس کی دوستی نے تجھے
اب اور دشمن جاں کو نہ آزما اے دل
جو اس سے دور ہیں وہ بھی ہیں آج تک زندہ
سمجھ نہ ''اس'' بتِ کافر کو تو خدا اے دل
اسے رہی ہے سدا اپنی مصلحت درپیش
اسے کسی کے زیاں کا ملال کیا اے دل
ہمارے ساتھ رہے ہیں جو بازوؤں کی طرح
نہ ہوسکیں گے کبھی ان سے ہم جدا اے دل
ہر ایک دور میں ہم ظلم کے خلاف رہے
یہی ہے جرم ہمارا، یہی خطا اے دل
وطن کے چاہنے والے سمجھ رہے ہوں گے
ہے کس خلوص سے جالب غزل سرا اے دل
(65 کی جنگ کے بعد صدر ایوب کی امریکا یاترا کے خلاف)
صدر امریکا نہ جا
ایک ہی نعرہ ہے سب کا ایک ہی سب کی صدا
صدر امریکا نہ جا، اے صدر امریکا نہ جا
سودا بازوں، سود خوروں سے ہماری دوستی
کس قدر توہین ہے یہ لفظ پاکستان کی
موت سے بدتر ہے ہم کو بھیک کی یہ زندگی
پاؤں پر اپنے کھڑا ہو، وقت ہے پیارے یہی
جانسن کی اب نہ سن اے جان اپنا کر بھلا
صدر امریکا نہ جا، اے صدر امریکا نہ جا
......
بے نظیر بھٹو کو مشورہ
نہ جا امریکا نال کڑے
اے گل نہ دیویں ٹال کڑے
اپنے قتل آزادیاں دا کیتا
اپنے ایس دھرتی دا لہو پیتا
اپنے کٹوایا بنگال کڑے
......
سانوں روس دے نال لڑوندا اے
ایویں لوکاں نوں مروندا اے
مینوں تیرا بڑا خیال کڑے
گل ٹھیک ہی کیندا ساقی وی
کتے چلا نہ جاوے باقی وی
کر راکھی ملک سنبھال کڑے
(جام ساقی کے استقبالیہ میں لاہور کے ایک ہوٹل میں پڑھی، صدارت ملک معراج خالد کر رہے تھے)
کالم کا عنوان، مصرعہ شاعر نذیر قیصر کا ہے۔