نگران وزیر اعظم اور معراج محمد خان

معراج محمد خان کی پوری زندگی عوامی حقوق اور استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

انتخابات ہوں گے یا نہیں ہوں گے، ان شکوک و شبہات کی دھند میں انتخابات کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں، سیاستدان ایک طرف وقت پر اور شیڈول کے مطابق انتخابات کے انعقاد پر تو متفق ہیں، لیکن الیکشن کے لیے تشکیل دیے جانے والے سیٹ اپ پر ابھی تک کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے میں ناکام ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے فخرالدین جی ابراہیم پر سیاسی رہنماؤں اور مذہبی قیادت نے مکمل اتفاق کا مظاہرہ تو کیا ، لیکن آہستہ آہستہ فخروبھائی پر تنقید اورعدم اعتماد کے رجحان میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس حوالے سے فخرو بھائی پر جو تنقید کی جارہی ہے اس میں ضمنی انتخابات میں مبینہ دھاندلی،کراچی میں ووٹروں کی تصدیق کے عمل پر عدم اعتماد اور حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کے موقف سے اختلاف کے علاوہ چاروں صوبوں کے گورنرز کو برقرار رکھنے یا بدلنے کے مسئلے پر بھی شدید اختلافات سامنے آرہے ہیں حتیٰ کہ موجودہ بیوروکریسی پر بھی شدید بے اعتمادی کا اظہار کیا جارہا ہے۔

نگران حکومت کا موجودہ عدم اعتمادی کی فضاء میں کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اب تک نگران وزیر اعظم کے حوالے سے میڈیا میں جو نام آرہے ہیں ان میں عاصمہ جہانگیر، محمود خان اچکزئی، ناصر اسلم زاہد اور معراج محمد خان شامل ہیں۔ نگراں وزیر اعظم کی شخصیت کا غیرجانبدار ہونا، الیکشن کے پراسس کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھنا اور سب سے اہم یہ کہ نگراں وزیراعظم کا سیاسی اور اقتداری خواہشوں سے بالاتر ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر اس حوالے سے ہم درج بالا چار شخصیتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کے خلوص، ان کی صلاحیتوں پر تو کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوسکتا، لیکن ان ممکنہ امیدواروں کی غیر جانبداری اور امنگوں، آرزوؤں کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر اور محمود خان اچکزئی اپنی جماعتی اور ادارتی وابستگیوں کے پس منظر میں اس معیار پر پورے اترتے دکھائی نہیں دیتے جو ملک کی موجودہ گمبھیر صورت حال میں درکار ہے۔ محمود خان اچکزئی ایک ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں جو انتخابی سیاست میں شامل رہی ہے۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ پر ساری جماعتوں کا اتفاق نظر نہیں آتا، مختلف سیاسی رہنما ان کی کارکردگی کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔

ان دو شخصیتوں کے متنازعہ ہونے کے بعد ہمارے سامنے دو شخصیتیں نگراں وزیر اعظم کے طور پر سامنے رہ جاتی ہیں، ایک جناب ناصر اسلم زاہد، دوسرے معراج محمد خان۔ ناصر اسلم زاہد ایک غیر متنازعہ، مخلص اور ایماندار شخص کی حیثیت سے ملک کے تمام حلقوں میں قابل قبول رہے ہیں اور ان کی ان خوبیوں سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا، لیکن ہماری تیز طرار موقع پرست اور بددیانت سیاست کا کیا ناصر اسلم زاہد جیسی مرنجان مرنج خاموش طبع شریف النفس شخصیت مقابلہ کرسکے گی جو ہماری سیاست کے داؤ پیچ سے واقف ہے نہ انھیں اس ''دانے دار'' سیاست کا کوئی تجربہ ہے۔ اس سوال کا جواب الجھا ہوا نظر آتا ہے اور ذہن میں یہی بات آتی ہے کہ ناصر اسلم زاہد جیسی شریف النفس شخصیت شاید ہماری منہ زور اور قدم قدم پر سینگیں مارتی اور دولتیاں جھاڑتی سیاست کو قابو نہ کرسکیں۔ یہ کسی بڑے انسان کی کمزوری نہیں بلکہ بڑے سیاست دانوں کی ''ناقابل یقین خوبیاں ہیں'' جو کسی شریف، مخلص اور ایماندار شخص کو پچھاڑنے کا ریکارڈ رکھتی ہیں۔


اس منظر نامے میں ایک ایسی شخصیت کی نگراں وزیر اعظم کی حیثیت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے جو مخلص بھی ہو، غیر جانبدار بھی، ایماندار بھی، اقتدار کی خواہش سے آزاد بھی اور ساتھ ہی ساتھ پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز اس کی منہ زوری سے واقف بھی ہو۔ جب ان خوبیوں، ان صلاحیتوں کے تناظر میں ہم معراج محمد خان کی شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو ان چاروں شخصیتوں میں معراج محمد خان ہی سب سے زیادہ مناسب اور موزوں شخصیت نظر آتے ہیں، نگراں وزیر اعظم کی حیثیت سے معراج محمد خان کی شخصیت پر یہ اعتراض ممکن ہے کہ معراج محمد خان پیرانہ سالی کے دور سے گزر رہے ہیں، لیکن یہ اعتراض اس لیے غیر منطقی نظر آتا ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں میں معراج محمد خان سے زیادہ عمر کے لوگ صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں پر رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔

معراج محمد خان کی پوری زندگی عوامی حقوق اور استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے۔ معراج محمد خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز طلباء کی فعال تنظیم اور سیاسی جمہوری تحریکوں کے ہر اول دستے این ایس ایف سے کیا۔ این ایس ایف ترقی پسند نظریات رکھنے والی ایسی طلباء تنظیم تھی جو ہمیشہ ریاستی جبر، ریاستی تشدد کا شکار رہی۔ معراج محمد خان لگ بھگ دس سال تک این ایس ایف کی قیادت میں شامل رہے اور اپنی طالب علمی اور سیاسی زندگی میں تیرہ سال جیلوں میں بند رہے۔1967 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوبی آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور عوام کو ان کے حقوق کے لیے بیدار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو پیپلز پارٹی کی تشکیل اور اس کے منشور کی تدوین میں جن ترقی پسند رہنماؤں اور دانشوروں نے حصہ لیا ان میں معراج محمد خان بھی شامل تھے۔ بھٹو صاحب معراج محمد خان پر اس حد تک اعتماد کرتے تھے کہ انھوں نے معراج محمد خان کو اپنا سیاسی وارث ڈکلیئر کیا۔ معراج محمد خان اقتدار کی کسی خواہش کے ساتھ پیپلز پارٹی کا حصہ نہیں بنے بلکہ پیپلز پارٹی کے منشور پر عملدرآمد کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو لیے، لیکن جب بھٹو صاحب وڈیروں اور جاگیرداروں کے نرغے میں آکر پارٹی کے منشور سے ہٹنے لگے تو معراج محمد خان وزارت کو لات مار کر باہر آگئے۔

معراج محمد خان اگرچہ ساری زندگی ترقی پسند سیاست کے ساتھ رہے لیکن ان کی ایماندارانہ سیاست ان کے خلوص، ان کی قربانیوں اور ان کی منکسرانہ طبیعت کی وجہ سے سیاست کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے میں ان کا احترام کیا جاتا ہے اور وہ ان خوبیوں کی وجہ سے ایک قبول عام شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں، چونکہ میں بھی اسی نظریاتی قبیلے کا ایک رکن رہا ہوں اور اب تک ہوں اس لیے مجھے معراج کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ معراج محمد خان انسان ہیں، فرشتہ نہیں اور انسان کی حیثیت سے ان سے غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں، لیکن ان کی نظریاتی دیانت عوام سے ان کے کمٹمنٹ پر کوئی تنقید ممکن نہیں، یہی ان کی اصل خوبی ہے۔

پاکستان 65 سال سے جس بدترین اشرافیائی کینگرو سیاست میں گھرا ہوا ہے اس سے نکلنے کا بہ ظاہر کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے نہ آنے والے انتخابات سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اہل سیاست اشرافیائی موروثوی سیاست سے ملک کی نجات دلائیں گے، لیکن اس مکروہ سیاست اور اس سیاست کی چھترچھایہ میں پروان چڑھنے والی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی نے پاکستان کو اقوام عالم میں جس طرح رسوا اور ذلیل کرکے رکھ دیا ہے اور دنیا ہمیں انسان ماننے کے لیے تیار نہیں ایسے عالمی اور قومی منظرنامے میں اگر نگراں حکومت کا سربراہ معراج محمد خان جیسے روشن خیال شخص کو بنایا جائے تو جہاں اقوام عالم میں ایک اچھا اور مثبت تاثر پیدا ہوگا وہیں اس بات کا بھی امکان پیدا ہوگا کہ مئی میں ہونے والے ممکن انتخابات کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ بنانے میں معراج محمد خان کی غیر جانبدارانہ، ایماندارانہ اور سیاسی ہتھکنڈوں سے واقف شخصیت ایک مثبت کردار ادا کرے گی۔
Load Next Story