تعلیم برائے فروخت

70 سالہ پاکستانی تاریخ میں سرکاری طور پر تعلیم کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا۔



وہ کون سا کاروبار ہے جو صاف ستھرا، باعزت، باوقار اور یقینی طور پر انتہائی منافع بخش بھی ہو؟

یہ معصوم سوال ہمارے صحافت سے وابستہ ایک دوست نے کیا۔ ہم نے انھیں کئی کاروبار بتائے لیکن یقینی منافع کا ہم بہرحال انھیں یقین نہیں دلا سکتے تھے۔ انھوں نے مسکرا کر کہا، ایک ایسا کاروبار ہے جو شروع کرتے ہی پھلنے پھولنے لگتا ہے اور چند سال میں اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہوجاتی ہیں کہ پھر اس کی ہر شاخ سے صرف دھن برستا ہے۔ اس کاروبار کو حکومتیں بھی بند نہیں کرا سکتیں۔ بڑے بڑے مافیا بھی اس کے سامنے بے بس ہیں، کیونکہ وہ خود ایک مافیا کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ دوست کی باتیں تشویشناک تھیں، کاروبار بھی اور مافیا بھی۔

ہماری پریشانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج کا بہترین کاروبار تعلیم کا فروغ، معاف کرنا غلط کہہ گیا ''تعلیم برائے فروخت'' ہے۔ جی ہاں! آج تعلیم کا فروغ مقصد نہیں رہا، تعلیم کی فروخت ہی مقصد بن چکی ہے۔ ہم 70 سال سے حکمرانوں اور ارباب اختیار سے تعلیم کے فروغ پر صرف باتیں ہی سنتے آرہے ہیں، لیکن کسی بھی حکومت نے تعلیم کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں نہیں رکھا۔ حالانکہ اربوں روپے کا بجٹ تعلیم کے فروغ کے لیے رکھا ضرور جاتا ہے۔

اسی طرح سندھ میں تعلیم کے فروغ کے لیے دوسرے محکموں سے زیادہ فنڈ رکھے جاتے ہیں لیکن وہ فنڈ کہاں اور کیسے خرچ ہوتے ہیں ان سے کوئی واقف نہیں۔ صوبے میں ہزاروں اسکول آج بھی بند ہیں اور جو ہیں وہ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ بعض اسکولوںکی عمارتیں ہی نہیں ہیں اور جن کی عمارتیں ہیں ان میں تدریسی عمل نہیں۔ اگر فائلیں دیکھیں تو اساتذہ کی تعداد ہزاروں میں ملے گی لیکن جن کو گھر بیٹھے تنخواہ ملتی ہو انھیں اسکول جانے کی کیا ضرورت۔ گھوسٹ اساتذہ کی تنخواہیں کہاں جاتی ہیں نامعلوم، اور ان سیکڑوں اسکولوں کے اساتذہ اپنی ڈیوٹی کے بجائے نجی اسکولوں اور ٹیوشن سینٹرز میں تعلیم کی فروخت کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

میڈیا کی جانب سے بار بار نشاندہی اور عوام کی چیخ و پکار سے محکمہ تعلیم نے مجبور ہوکر اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے بائیومیٹرک سسٹم متعارف کرایا۔ اس سسٹم کو لگانے میں بھی کروڑوں کا بجٹ رکھا گیا، اس سے امکان تھا کہ تدریسی عملے کا مکمل ڈیٹا بھی جمع ہوجائے گا اور گھوسٹ اساتذہ کی نشاندہی بھی ہوجائے گی، لیکن پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے، تبادلے شروع ہوگئے اور اس نظام کو لانے والے کو ہٹا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی بائیومیٹرک سسٹم بھی ابتدائی مرحلے پر ہی ساکت ہوگیا، لیکن اس مقصد کے لیے بجٹ میں منظور شدہ اربوں روپے کا خرچ دکھا کر سب نگل لیا گیا۔

ایک مرتبہ پھر شور اٹھا لیکن ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ معیاری تعلیم تو دور کی بات، عام تعلیم بھی عوام کو میسر نہیں۔ لاکھوں بچے تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں۔ وہ بچے جنھیں حکمران اپنی تقاریر میں مستقبل کا معمار کہتے ہیں اور ان کے مستقبل کو بچانے کی نوید دے کر ہر مرتبہ ووٹ حاصل کرکے ایوانوں پر قابض ہوجاتے ہیں اور پھر مستقبل کے معماروں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔

70 سالہ پاکستانی تاریخ میں سرکاری طور پر تعلیم کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا۔ سندھ میں شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں تو تعلیم کی صورتحال انتہائی خراب ہے اور ہمیشہ کاروباری کمپنیاں اپنی انویسٹمنٹ اس شعبے میں کرتی ہیں جہاں ان کا مقابلہ انتہائی پست معیار سے ہو۔ نجی اسکول سسٹم نے ایک وبا کے طور پر جنم لیا اور اس قدر تیزی سے اس نظام نے غریب عوام کو اپنے مضبوط شکنجوں میں جکڑ لیا کہ عوام اپنی آنکھوں میں سپنے سجا لینے کا جرم تو کر بیٹھتے ہیں اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی چادر سے بڑھ کر کوشش کرتے ہوئے پرائیوٹ اسکولوں میں داخلے کی کوششوں میں اس طرح مصروف ہوجاتے ہیں کہ گویا ان کی زندگی کا اولین اور آخری مقصد ہی یہی ہے۔

پرائیوٹ اسکول اچھی تعلیم کا خواب بیچتے ہیں، اور ماں باپ ان خوابوں کو خریدنے کے لیے اپنا تن من دھن لٹانے میں جت جاتے ہیں۔ دنیا میں انھی ممالک نے ترقی کی جنھوں نے تعلیم کو اپنی بنیادی ترجیحات بنایا، لیکن اس کے برعکس ہمارے یہاں حکومتوں نے تعلیم کے فروغ کو نعروں تک ہی محدود رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ نجی اسکول سسٹم نے ایک مافیا کا روپ دھار لیا اور سرکاری طور پر تباہ شدہ تعلیمی نظام کا متبادل نظام دے کر تعلیم کو برائے فروخت کے طور پر اپنی من مانیاں شروع کر دیں، اور سندھ میں خاص طور پر اب یہ مافیا اس قدر مضبوط ہوچکی ہے کہ وزیر تعلیم، سیکریٹری تعلیم سمیت محکمہ کے تمام ارباب اختیار بے بس نظر آتے ہیں۔

کراچی پاکستان کا معاشی ہب ہے، اس لیے گزشتہ برسوں میں پورے پاکستان سے روزگار کی تلاش میں لاکھوں افراد کراچی آئے۔ ساڑھے چار کروڑ کی آبادی کے صوبہ سندھ میں پرائیوٹ اسکول سسٹم نے شہروں کے ساتھ ساتھ اندرون سندھ میں اپنے پاؤں پھیلا لیے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف این جی اوز بھی تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں تو ضرور ہیں لیکن نتیجہ کچھ نہیں۔ چند آئیڈیل اسکول بنا لینے سے اتنی بڑی آبادی کو تعلیم کی سہولیات نہیں دی جاسکتیں۔

پرائیوٹ اسکولوں کے مالکان ہر سال من مانی فیسوں میں اضافہ کرکے والدین کی پریشانیوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ پرائیوٹ اسکولوں میں یونیفارم اور کتابوں تک اسکول سے خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں پوری قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں اور اگر کبھی والدین فیسوں کے اضافے پر احتجاج کریں تو انھیں اپنے بچے اسکول سے نکالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

حکومت سندھ آخر ان معاملات پر کیوں خاموش ہے؟ وہ پرائیوٹ اسکولوں کی ان من مانیوں کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتی۔ سندھ میں تعلیم کے فروغ کے لیے ایمرجنسی تو نافذ کی گئی لیکن وزیراعلیٰ سندھ نے پرائیوٹ اسکول مالکان کی من مانیوں کو روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی بنانے کی زحمت نہیں کی۔ قانون اور رولز موجود ہیں، لیکن پرائیوٹ اسکول مالکان انھیں نہیں مانتے، وہ محکمہ تعلیم کی اجازت کے بغیر ہی فیسوں میں اضافہ کردیتے ہیں اور ڈائریکٹرز اسکولز سے پیشگی اجازت لینا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں، اور اگر نوٹس آگیا تو قائم کردہ تنظیموں کے پلیٹ فارم سے احتجاج شروع کیا جاتا ہے اور پھر مجبور ہو کر سرکار بھی گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن بھی سندھ حکومت کا ادارہ ہے۔ یہ ادارہ حکومت سندھ کی ہی فنڈنگ سے چلایا جاتا ہے اور اس ادارے کے لیے مزید رقم دے دی گئی ہے اور سندھ حکومت نے سرکاری اسکول بھی فاؤنڈیشن کی تحویل میں دینے کا اعلان کر دیا ہے، جس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ لیکن وہ ادارہ بھی کرپشن کی نذر ہوچکا ہے۔ وجہ صرف ادارے کی ناقص پالیسی ہے، ایسی پالیسی جس میں کہا گیا ہے کہ کسی تنظیم کو سیکڑوں اسکول دیے جائیں گے مگر کسی اچھے آپریٹر کو دو اسکول بھی نہیں دیے جائیں گے۔ ایسے عالم میں اہالیان کراچی اس وقت مافیاؤں کے رحم و کرم پر اپنے بچوں کو تعلیم دلانے پر مجبور ہیں اور اس تمام معاملات کی ذمے دار حکومت ہی ہے۔

وہ حکومت جس کا تعلیم عام کرنا اولین فرض ہے لیکن وہ اپنا فرض نبھانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ تعلیمی اداروں میں ایمرجنسی نافذ کرنا ہی مسئلے کا حل نہیں عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے نجی اسکول مالکان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ حکومت کو ایک نظر سندھ میں تعلیم پر کام کرنے والی این جی اوز پر بھی رکھنی چاہیے۔

یہ این جی اوز کو جو ڈونر اداروں سے اربوں روپے کے فنڈز لے کر صرف کاغذی کارروائی کردیتے ہیں، ان این جی اوز بھی نجی اسکول مالکان کی سوچ کو کچلنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن این جی اوز میں کام کرنے والے ان صاحبان کو بھی زنگ لگ گیا ہے، اس لیے ان این جی اوز کے کاموں کی بھی آڈٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ بھر میں بند سرکاری اسکول کھولنے کے لیے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، کراچی میں نجی اسکول مالکان کو قانون کے مطابق فیسوں میں اضافہ کرنے کا پابند بنانے کی ضرورت ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو مستقبل کے ان معماروں کا مستقبل تباہ ہوجائے گا، اور اس کی ذمے داری ریاست پر ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں