درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ڈاکٹر فاؤ ہوں یا مدر ٹریسا یا عبدالستار ایدھی۔ نہ جانے کس مٹی سے بنے یہ لوگ ہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ ایک عظیم خاتون جو انسانیت کے بلند ترین درجہ پر فائز تھیں پاکستان انھیں کبھی نہیں بھلا سکے گا۔ اس دنیا میں لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں لیکن صرف کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں دنیا کبھی نہیں بھول پاتی۔ کیونکہ ان کے دل میں انسانیت کا درد ہوتا ہے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کا پاکستان آنا ایک اتفاق ہی تھا ورنہ تو انھیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ دنیا میں کوئی ملک پاکستان نام کا بھی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان ابھی منصہ شہود پر ہی آیا تھا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنی فلاحی تنظیم کے لیے اس وقت بھارت جانا چاہتی تھیں لیکن ان کو ویزہ نہ مل سکا چنانچہ انھیں پاکستان کراچی آنا پڑا۔ کراچی میں اپنے قیام کے دوران وہ ایک ایسی بستی میں گئیں جہاں جذام یا کوڑھ کے مریض رہتے تھے۔
کوڑھ ایک ایسا مرض ہے جس کا نام سنتے ہی انسان پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ مرض ایک سے دوسرے کو لگتا ہے۔ چنانچہ مریض کے قریبی رشتہ دار لواحقین بھی اس سے دور بھاگتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس خوفناک مرض کی وجہ سے آبادی سے مریض کو دور ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے کیونکہ کوڑھ کی وجہ سے مریض کے جسم سے گوشت گلنے سڑنے لگ جاتا ہے اور اس کے زخموں پر کیڑے رینگنے لگتے ہیں۔ اور مریض کے جسم سے شدید ناقابل برداشت بو نکلتی ہے۔
اس خوفناک صورت حال کی وجہ سے مریض کو نہ اس کے قریبی رشتہ دار قبول کرتے ہیں نہ اہل محلہ علاقہ۔ کچھ درد دل رکھنے والے لوگوں نے ان کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر کوڑھی خانے تعمیر کرا دیے تھے جہاں لوگ منہ اور سر لپیٹ کر خوراک دیواروں کے اوپر سے اندر پھینک دیتے۔ اس طرح مٹی اور کیچڑ ملی خوراک ان کو بہ مشکل میسر آتی۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ پاکستان بننے کے بعد جب کراچی میں کوڑھیوں کی بستی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ گئیں جو وہاں مریضوں کا علاج کرتی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ پہلے روز ڈسپنسری میں جو جھونپڑی اور گتوں سے بنی ہوئی تھی جو پہلا مریض آیا وہ چوپایوں کی طرح چل رہا تھا۔ مجھے اس میں اور جانور میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیا اس کے جسم سے اٹھنے والی بدبو ناقابل برداشت تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس سے اگلے دن ایک ایسا مریض آیا جس کی ہتھیلی میں ایک بڑا سا زخم تھا۔ میں نے حیرت اور صدمے سے اس سے پوچھا کہ یہ زخم کیسے آیا تو اس نے جواب دیا۔ چوہا۔ پہلے تو مجھے سمجھ نہ آیا۔ پھر جب میری سہیلی نے سمجھایا تو میں اپنا سر پکڑ کر رہ گئی۔
انھوں نے بتایا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس دنیا میں کوئی ایسی مخلوق بھی بستی ہے کہ جس کی حالت اس قدر قابل رحم ہو کہ وہ چوہوں کی خوراک بن رہی ہو۔ مجھے شدید رنج پہنچا اور میرے دل میں خیال آیا کہ ان سے زیادہ بھی کسی اور کو میری ضرورت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ میں نے بھارت جانے کا فیصلہ ترک کر کے پاکستان میں رہ کر جذام کے مریضوں کے علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ مشرقی جرمنی سے تعلق رکھتی تھیں جو اب متحدہ جرمنی کا حصہ ہے۔ انھوں نے ایک ایسے ملک میں مذہب رنگ نسل زبان سے بالاتر ہو کر 56 سال کوڑھ کے مریضوں کی خدمت میں گزار دیے جس سے اس کا انسانیت کے سوا کوئی رشتہ نہ تھا چنانچہ 1996ء میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان سے کوڑھ کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا۔ اس طرح پاکستان کو ایشیا کے پہلے ملک کا اعزاز حاصل ہو گیا لیکن ڈاکٹر فاؤ کا کہنا تھا کہ اس وقت تو پاکستان میں جذام کا مرض نہ ہونے کے برابر ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوا اور نہ ہی ختم ہو گا لیکن بظاہر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ مرض ختم ہو گیا ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوا میں یہ کہتی ہوں کہ یہ مرض دوبارہ پھیلے گا۔
پاکستان کو وہ اپنے دل کا ملک کہتی تھیں اور جرمنی کو آبائی وطن۔ جرمنی اور پاکستان میں ان کواعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کی وفات پر صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، وزیراعلیٰ نے شرکت کی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا کی گئیں۔ پاکستان کے تمام مسلح افواج کے سربراہوں نے ان کے جنازے کو سیلوٹ کر کے ان کی لافانی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مسلح افواج کی جانب سے اس عظیم مسیحا کو انیس توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔
ڈاکٹر فاؤ ہوں یا مدر ٹریسا یا عبدالستار ایدھی۔ نہ جانے کس مٹی سے بنے یہ لوگ ہیں۔ ان سب میں ایک ہی بات مشترک کہ ان کا مذہب انسانیت ہے۔ کیونکہ تمام مذاہب کی حقیقی روح انسانیت ہی ہے۔ میر دردؔ نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں۔ یعنی انسان کی تخلیق کا اصل مقصد یہ ہے کہ دوسرے انسانوں کے درد تکلیف کو بانٹے۔ اس کے ہاتھ و زبان سے دوسرے انسان محفوظ رہیں۔ وہ دوسرے انسانوں پر ظلم نہ کرے۔ نہ ان کا حق مارے۔ اس طرح دنیا میں امن و انسانیت پھیلے پھولے۔ تمام الہامی مذاہب انبیا رسولوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی عظیم مقصد کے لیے بھیجا۔
کرنل (ر) حبیب جو کٹھمنڈو نیپال سے لاپتہ ہیں ان کی بازیابی کے حوالے سے ستمبر اور دسمبر اہم مہینے ہیں۔
سیل فون:۔ 0346-4527997
ڈاکٹر روتھ فاؤ کا پاکستان آنا ایک اتفاق ہی تھا ورنہ تو انھیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ دنیا میں کوئی ملک پاکستان نام کا بھی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان ابھی منصہ شہود پر ہی آیا تھا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنی فلاحی تنظیم کے لیے اس وقت بھارت جانا چاہتی تھیں لیکن ان کو ویزہ نہ مل سکا چنانچہ انھیں پاکستان کراچی آنا پڑا۔ کراچی میں اپنے قیام کے دوران وہ ایک ایسی بستی میں گئیں جہاں جذام یا کوڑھ کے مریض رہتے تھے۔
کوڑھ ایک ایسا مرض ہے جس کا نام سنتے ہی انسان پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ مرض ایک سے دوسرے کو لگتا ہے۔ چنانچہ مریض کے قریبی رشتہ دار لواحقین بھی اس سے دور بھاگتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس خوفناک مرض کی وجہ سے آبادی سے مریض کو دور ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے کیونکہ کوڑھ کی وجہ سے مریض کے جسم سے گوشت گلنے سڑنے لگ جاتا ہے اور اس کے زخموں پر کیڑے رینگنے لگتے ہیں۔ اور مریض کے جسم سے شدید ناقابل برداشت بو نکلتی ہے۔
اس خوفناک صورت حال کی وجہ سے مریض کو نہ اس کے قریبی رشتہ دار قبول کرتے ہیں نہ اہل محلہ علاقہ۔ کچھ درد دل رکھنے والے لوگوں نے ان کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر کوڑھی خانے تعمیر کرا دیے تھے جہاں لوگ منہ اور سر لپیٹ کر خوراک دیواروں کے اوپر سے اندر پھینک دیتے۔ اس طرح مٹی اور کیچڑ ملی خوراک ان کو بہ مشکل میسر آتی۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ پاکستان بننے کے بعد جب کراچی میں کوڑھیوں کی بستی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ گئیں جو وہاں مریضوں کا علاج کرتی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ پہلے روز ڈسپنسری میں جو جھونپڑی اور گتوں سے بنی ہوئی تھی جو پہلا مریض آیا وہ چوپایوں کی طرح چل رہا تھا۔ مجھے اس میں اور جانور میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیا اس کے جسم سے اٹھنے والی بدبو ناقابل برداشت تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس سے اگلے دن ایک ایسا مریض آیا جس کی ہتھیلی میں ایک بڑا سا زخم تھا۔ میں نے حیرت اور صدمے سے اس سے پوچھا کہ یہ زخم کیسے آیا تو اس نے جواب دیا۔ چوہا۔ پہلے تو مجھے سمجھ نہ آیا۔ پھر جب میری سہیلی نے سمجھایا تو میں اپنا سر پکڑ کر رہ گئی۔
انھوں نے بتایا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس دنیا میں کوئی ایسی مخلوق بھی بستی ہے کہ جس کی حالت اس قدر قابل رحم ہو کہ وہ چوہوں کی خوراک بن رہی ہو۔ مجھے شدید رنج پہنچا اور میرے دل میں خیال آیا کہ ان سے زیادہ بھی کسی اور کو میری ضرورت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ میں نے بھارت جانے کا فیصلہ ترک کر کے پاکستان میں رہ کر جذام کے مریضوں کے علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ مشرقی جرمنی سے تعلق رکھتی تھیں جو اب متحدہ جرمنی کا حصہ ہے۔ انھوں نے ایک ایسے ملک میں مذہب رنگ نسل زبان سے بالاتر ہو کر 56 سال کوڑھ کے مریضوں کی خدمت میں گزار دیے جس سے اس کا انسانیت کے سوا کوئی رشتہ نہ تھا چنانچہ 1996ء میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان سے کوڑھ کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا۔ اس طرح پاکستان کو ایشیا کے پہلے ملک کا اعزاز حاصل ہو گیا لیکن ڈاکٹر فاؤ کا کہنا تھا کہ اس وقت تو پاکستان میں جذام کا مرض نہ ہونے کے برابر ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوا اور نہ ہی ختم ہو گا لیکن بظاہر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ یہ مرض ختم ہو گیا ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوا میں یہ کہتی ہوں کہ یہ مرض دوبارہ پھیلے گا۔
پاکستان کو وہ اپنے دل کا ملک کہتی تھیں اور جرمنی کو آبائی وطن۔ جرمنی اور پاکستان میں ان کواعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کی وفات پر صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، وزیراعلیٰ نے شرکت کی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا کی گئیں۔ پاکستان کے تمام مسلح افواج کے سربراہوں نے ان کے جنازے کو سیلوٹ کر کے ان کی لافانی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مسلح افواج کی جانب سے اس عظیم مسیحا کو انیس توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔
ڈاکٹر فاؤ ہوں یا مدر ٹریسا یا عبدالستار ایدھی۔ نہ جانے کس مٹی سے بنے یہ لوگ ہیں۔ ان سب میں ایک ہی بات مشترک کہ ان کا مذہب انسانیت ہے۔ کیونکہ تمام مذاہب کی حقیقی روح انسانیت ہی ہے۔ میر دردؔ نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں۔ یعنی انسان کی تخلیق کا اصل مقصد یہ ہے کہ دوسرے انسانوں کے درد تکلیف کو بانٹے۔ اس کے ہاتھ و زبان سے دوسرے انسان محفوظ رہیں۔ وہ دوسرے انسانوں پر ظلم نہ کرے۔ نہ ان کا حق مارے۔ اس طرح دنیا میں امن و انسانیت پھیلے پھولے۔ تمام الہامی مذاہب انبیا رسولوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی عظیم مقصد کے لیے بھیجا۔
کرنل (ر) حبیب جو کٹھمنڈو نیپال سے لاپتہ ہیں ان کی بازیابی کے حوالے سے ستمبر اور دسمبر اہم مہینے ہیں۔
سیل فون:۔ 0346-4527997