افغان صحافی پاک افغان تعلقات اور افواجِ پاکستان
افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ افغان میڈیا میں دانستہ پاکستان کے خلاف، معاندانہ تحریریں شایع ہوتی اور پروگرام نشر ہوتے ہیں۔
رواں سال میں افغانستان کی صحافی برادری کا پاکستان کے لیے یہ تیسرا دَورہ ہے۔ چند ہفتے قبل بھی کئی افغان صحافیوں کا ایک وفد پاکستان آیا تھا۔ یہاں ہر جگہ انھیں عزت و احترام سے نوازا گیا۔ حکومت نے بھی اُن سے نہائیت مناسب اور مستحسن سلوک کیا اور افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے، آئی ایس پی آر، نے بھی ان سب افغان جرنلسٹوں کی ہر ممکن طریقے سے ٹہل سیوا کی۔ اسلام آباد کے چند بڑے اور اہم ترین سرکاری اداروں کے سربراہوں سے اُن کی ملاقاتوں کا خصوصی اہتمام بھی کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ، میجر جنرل عاصم غفور، نے اپنے دفتر میں ان افغان صحافیوں سے ملاقاتیں کیں، اُن سے خصوصی گفتگو کرتے ہُوئے انھیں پاک افغان تعلقات کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا، کھانے سے تواضع کی اور اُن کے ساتھ مسکراتے ہُوئے ایک گروپ فوٹو بھی بنوائی۔یہ پیغام رساں تصویرہمارے قومی اخبارات کی زینت بھی بنی اور سوشل میڈیا پر بھی اپنی بہار دکھاتی رہی۔یقیناً اسلام آباد میں بروئے کار افغان سفارتخانے، افغان سفیر عمر ذخیلوال اور افغان حکومت تک بھی پاکستان اور پاکستان کے اہم ترین اداروں کی اس مہمان نوازی کی خبر پہنچی ہوگی۔
پاکستان کے خلاف افغان حکومت اور افغان خفیہ ادارے (از قسم این ڈی ایس) سازشیں کرنے اور پاکستان کو ہر محاذ پر زک پہنچانے سے مگر باز نہیں آرہے۔ ابھی چند دن پہلے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے پاکستان کے خلاف جس نئی سرکاری امریکی پالیسی کا اعلان کیا ہے، اس پر (بھارت کے ساتھ ساتھ) افغانستان کی باچھیں کھلنا اس امر کا ثبوت ہے کہ افغان حکام پاکستان کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان مخالف اس نئی امریکی پالیسی کی بنیاد پر افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ، امر اللہ صالح، نے بھارتی اخبار ( دی انڈین ایکسپریس) میں پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف جو چھ نکاتی آرٹیکل لکھا ہے، اِس سے بھی ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ افغان حکام کی پاکستان کے بارے میں تازہ سوچ کیا اور کس قسم کی ہے!!
جس روز(23اگست2017ء) پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف امراللہ صالح کا مذکورہ دل آزارمضمون شایع ہُوا، اُس روز بھی افغان صحافیوں کا نیا وفد پاکستان ہی میں موجود تھا۔ مَیں نے عرض کیا: ''ہم دوبار کابل گئے ہیں لیکن افسوس وہاں نہ ہم سے افغان حکومت نے مناسب سلوک کیا اور نہ ہی افغان صحافتی برادری اور کابل پریس کلب کے عہدیداروں نے۔ سابق صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف سے کابل کے صدارتی محل(ارگ) میں بعض افغان صحافیوں کارویہ تو خاصا توہین آمیز رہا تھا۔
اب پاکستان میں آپ سے جو بہترین اور محبت بھرا سلوک کیا جارہا ہے، کیا یہ ممکن ہوگا کہ آپ واپس جا کر اپنے اخبارات اور ٹی ویز میںیہ لکھ اور کہہ سکیں کہ پاکستان، افغانوں کا مخلص اور سچا دوست ہے؟ یہ پیغامِ محبت آپ لوگوں کے توسط سے افغان عوام تک پہنچنا چاہیے۔'' جواب میں اُن میں سے چند ایک نے کہا : ''آپ سے جو نامناسب سلوک ہُوا، اس پر ہم نادم ہیں۔ واپسی پر ہم کابل کے مرکزی پریس کلب میں آپ کی شکائیت ضرور پہنچائیں گے اور کلب کے ذمے داران کی طرف سے معذرت نامہ بھی ارسال کریں گے۔''
ایک افغان صحافی نے جب یہ کہا کہ میری بڑی خواہش ہے کہ مَیں اپنی والدہ صاحبہ کو مری دکھاؤں تو ہم میں سے کئی اخبار نویسوں نے فوری کہا: ''آپ اپنی والدہ صاحبہ کو لائیے، ہمارے گھر آپ کے لیے حاضر ہیں، ہم خود آپ اور آپ کی والدہ صاحبہ کو اپنی ٹرانسپورٹ پر مری کی سیر کروائیں گے۔'' افغان صحافی بھائیوں کے چہرے دمک اٹھے۔ اُسی روز ایک افغان صحافی کی سالگرہ کا دن تھا۔ یہ معلوم ہونے پر فوری طور پر وہیں ہوٹل میں کیک منگوا کر ہیپی برتھ ڈے ٹُو یُوکا گیت مِل کر گایا گیا، لمبی عمر کی دعائیں اورمبارکبادیں دی گئیں اور ایک گروپ فوٹو کی سیلفی بنائی گئی۔
خوشی اور مسرت کے ان لمحات میں افغان صحافی نے نہایت جذباتی اسلوب میں کہا: ''یہ میری زندگی کی سب سے قیمتی اور یادگار سالگرہ ہے۔ مَیں اِسے کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔'' کیا افغان دارالحکومت میں کابلی صحافی برادری کسی پاکستانی صحافی کے ساتھ ایسی محبت کا مظاہرہ کرسکتی ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کے متعلقہ افسران نے بھی افغان صحافیوں کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ افغان میڈیا میں دانستہ پاکستان کے خلاف، معاندانہ تحریریں شایع ہوتی اور پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ ہم نے پاکستانی عوام کا یہ شکوہ اپنے مہمان افغان صحافیوں کے گوش گزار کر دیا۔ یہ بھی عرض کیا گیا کہ پاکستان کے طول وعرض میں یہ تاثر گہرا ہے کہ افغانستان میں بھارتی ''را'' اور افغان ''این ڈی ایس'' ہاتھوں میں ہاتھ دے کر پاکستان کے خلاف بروئے کار ہیں۔
افغان اخبار نویس برادری پر لازم ہے کہ وہ اس تاثر کے خاتمے میں اپنا مقدور بھر حصہ ضرور ڈالیں کہ دنیا بھر میں صحافی اپنی اپنی حکومتوں کی پالیسیوں پر احسن اسلوب میں اثر اندازہو سکتے ہیں۔انھیں بھی اپنا یہ کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا سے اپنے رابطوںکو مسلسل جاری رکھنا چاہیے۔ یوںدلوں کی کدورتیں دُور اور غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوتا رہتا ہے۔اُسی روز پاکستان کے دَورے پر آئے افغان صحافیوں کی ملاقات افواجِ پاکستان کے ترجمان، ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل عاصم غفور، سے بھی تھی۔
عاصم غفور نے بھی افغان صحافیوں سے کہا:''ہمیں منفی کے بجائے،مثبت چیزوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ میڈیا کو دونوں ممالک کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آپ یہاں پاکستان میں موجود ہیں۔ آپ جس چیز کا بھی پاکستان میں مشاہدہ کریں، ہماری درخواست ہے کہ آپ واپس افغانستان جا کر اپنے لوگوں سے ضرور اس کا ذکرکریں۔'' میجر جنرل آصف غفور نے بڑے اعتماد کے ساتھ افغان صحافیوں سے یہ بھی کہا کہ مَیں آپ سب کو دعوت دیتا ہُوں کہ پاکستان میں آپ جہاں بھی جانا چاہتے ہیں، ہم آپ کو وہاں وہاں لے جانے کے لیے تیار ہیں تاکہ آپ خود ہر چیز دیکھ سکیں۔
ایسی کھلی دعوت اُسی ملک کا کوئی فوجی افسر دے سکتا ہے جو اپنے برادر ہمسایہ ملک کے ہر شخص کے ساتھ محبت، تعاون اور دوستی کا خواہشمند ہو۔ تین دن بعد، 25اگست2017ء کو، سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی افغان صحافیوں سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی۔ انھوں نے پاک افغان تعلقات کی بہتری کے لیے افغان جرنلسٹوں سے جو کچھ کہا، وہ ہمارے قومی میڈیا میں نشر اور شایع ہو چکا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ افواجِ پاکستان کے سربراہ نے جس کھلے دل اور کھلے بازوؤں کے ساتھ افغان صحافیوں سے ملاقات کی ہے، آیا افغان فوج کے سربراہ(جنرل شیر محمد کریمی)بھی ایسی ہی وسیع القلبی کامظاہرہ کرنے کی جرأت کر سکتے ہیں؟