ہمارے پیارے پردیسی پاکستانی
ہمارے یہ پاکستانی اربوں ڈالرکی رقم پاکستان میں اپنےعزیزوں کو بھجواتے ہیں جو ہمارا زرمبادلہ کا سب سے بڑا مستقل ذریعہ ہے
ایک ناگہانی آفت سیدھی سپریم کورٹ جا پہنچی اور اس سلسلے میں جب دہری شہریت زیر بحث آ گئی تو اس سلسلے میں کہیں سے کہا گیا کہ جو پاکستانی کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھتے ہیں، ان کی وفاداری مشکوک ہے، پھر اس پر حاشیہ آرائی شروع ہوئی اور یہ تک بھی کہہ دیا گیا کہ وہ غیر محب وطن ہیں۔کسی پاکستانی کے لیے دہری شہریت کے بارے میں بار بار اپنی رائے ظاہر کر چکا ہوں لیکن ملک کے حالات دیکھتا ہوں تو خود ہی لاجواب ہو جاتا ہوں۔ ہر قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے، پاکستانی نچلے بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ موقع ملے تو کچھ بھی کر گزرتے ہیں اور ایٹمی طاقت بھی بن جاتے ہیں جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بھٹو کے دور میں پاکستانیوں پر پاسپورٹ ارزاں ہوا تو پاکستانی مزدوروں نے مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں پر یلغار کر دی اور پھر ان کو اپنے دست محنت سے کیا کا کیا بنا دیا۔
ریگستانوں کو گل و گلزار کر دیا۔ ابوظہبی میں ایک خوشحال ہو جانے والا پاکستانی مجھے بتانے لگا کہ جب میں یہاں آیا تو رمضان کا مہینہ تھا اور ریت پر پاؤں نہیں رکھا جا سکتا تھا ایک چھوٹا سا خیمہ تھا، اس میں ایک چار پائی تھی جس پر ہم دو مزدور ساتھی باری باری سویا کرتے تھے۔ نماز روزہ اور صحرا کی بے پناہ گرمی مگر مزدوری کرتے رہے۔ یہ تو عام مزدور تھے اور تعلیم یافتہ پاکستانی بھی فاقے برداشت کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں روزی تلاش کرتے رہے۔ آج ان ''غیر ملکی'' پاکستانیوں کی تعداد کوئی 64 لاکھ سے زیادہ ہے جو اس دنیا میں مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں۔
رزق کی تلاش میں۔ ان لوگوں کو اگر اپنے ملک میں نصف آمدنی بھی ہوتی تو وہ اپنے وطن سے دور نہ جاتے، ان کے پاؤں اس مٹی میں جمے رہتے اور ان کے ہاتھ اپنی اسی سر زمین میں روزی تلاش کرتے رہتے لیکن ہمارے سیاستدانوں یعنی ہمارے حکمرانوں نے جن میں خاکی وردی والے بھی شامل تھے اور پھر وہ سفید پوش افسر بھی جن کے ہاتھوں سے یہ سب ہو رہا تھا تو وہ کہاں کے اولیاء اللہ تھے جو بچ کر رہتے، اس طرح ہر ایک نے اس ملک کو کھایا اور اس قدر مسلسل کھایا اور کھایا جا رہا ہے کہ اب یہ ملک دیوالیہ ملک ہے، بس جھوٹ موٹ کا ایک چلتا ہوا ملک ہے۔
بیرونی ملکوں میں کام کرنے والے کوئی 66 لاکھ پاکستانیوں میں سے تیس لاکھ کے قریب مشرق وسطیٰ میں ہیں جہاں خواہ کوئی عمر بھر کام کرتا رہے، اسے شہریت نہیں مل سکتی جب کہ برطانیہ جیسے ملک میں آٹھ دس لاکھ پاکستانی نہ صرف دہری شہریت حاصل کرتے ہیں بلکہ یہ پاکستانی الیکشن لڑ کر اس کی اسمبلی میں بھی جاتے ہیں، وزیر بنتے ہیں اور مکمل سیاسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ انگریزوں کی طرح عام کاروباری زندگی بھی بسر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس تمام عرب ملکوں میں دہری شہریت کا کوئی تصور نہیں۔ جب روس نے وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں پر قبضہ کیا تو بخارا کا ایک خاندان کسی طرح سعودی عرب پہنچ گیا۔ بادشاہ نے اس خاندان کی عزت کی، گھر دیا اور مدینہ میں ان کو آباد کر دیا، ساتھ ہی مسجد نبوی کی اذان کا اعزاز بھی اس خاندان کو بخش دیا جو اب تک ان کے پاس ہے لیکن اس خاندان کو شہریت نہیں دی گئی۔ غالباً بھارت میں بھی دہری شہریت نہیں دی جاتی۔
ہمارے یہ پاکستانی اربوں ڈالر کی رقم پاکستان میں اپنے عزیزوں کو بھجواتے ہیں جو ہمارا زرمبادلہ کا سب سے بڑا مستقل ذریعہ ہے۔ یہ سب ان غیر ملکوں میں ہمارے سفیر بھی ہیں اور دن رات اپنے وطن کی یاد میں بسر کرتے ہیں، آنسو بھی بہاتے ہیں، بیرون ملک کے دوروں میں ان پاکستانیوں سے ملاقات ہوتی ہے اور یہ بڑے شوق کے ساتھ تقریبات منعقد کرتے ہیں جن میں یہ اپنے وطن کی اداسی دور کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ غالباً بیرون ملک جا کر حب وطن کچھ زیادہ ہی بیدار ہو جاتی ہے کیونکہ ملاقاتوں اور تقریبات میں ان کی گفتگو میں وطن کا درد بھرا ہوتا ہے۔
بعض اوقات بحث بھی ہو جاتی ہے، جب ہم لوگ ان سے کہتے ہیں کہ وہ تو ایک محفوظ اور پر امن ملک میں روز و شب کر رہے ہیں، ہم سے پوچھیں کہ ہم کن حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں، یہ ہمارا حوصلہ ہے کہ ہم اس گھر میں رہتے ہیں جس کے در و دیوار ہر وقت کسی طوفان کی زد میں رہتے ہیں۔ ہم آپ کی حب الوطنی کی داد دیتے ہیں تو آپ ہمارے صبر کی بھی داد دیں لیکن یہ بحثیں کسی بھی سر زمین پر ہوں جب پاکستانیوں کے درمیان ہوتی ہیں تو گویا یہ پاکستان میں ہوتی ہیں۔ طاہر القادری کے مقدمے کے سلسلے میں اگر اس شخص کے حوالے سے کسی نے دہری شخصیت والوں کو غیر محب وطن کہا بھی ہے تو وہ محدود معنوں اور شاید اس خاص شخص کے حوالے سے ہے کیونکہ کون پاکستانی یہ نہیں جانتا کہ ہمارے پردیسی بھائی ہماری یادوں پر زندہ ہیں اور ان کی وطن سے محبت کی خوشبو ہم تک مسلسل پہنچتی رہتی ہے۔ ایک بھارتی صحافی مجھ سے کہنے لگا کہ پاکستان کو جتنی دولت اور وہ بھی زرمبادلہ پاکستانیوں سے ملتا ہے اگر ہمیں ملا کرتا تو ہم اس کی مدد سے یہاں کتنی ہی نعمتیں پیدا کر لیتے۔
بات درست ہے کہ ہماری حکومتوں نے اپنے پاکستانیوں کو سوائے مکان بنانے کے کوئی دوسری راہ دکھائی ہی نہیں۔ میرے گاؤں میں کینیڈا والے کئی مکانات ہیں، مکانات کیا ہیں محل ہیں جو خالی پڑے رہتے ہیں، اپنے اصل مکینوں کی یاد میں۔ یہ لوگ کینیڈا میں مقیم ہیں اور یہاں بھی ان کے نئے مکان وغیرہ کینیڈا والے کہلاتے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں ان لوگوں کے لیے نہ تو روز گار بنایا نہ ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے اچھے اسکول بنائے اس لیے اگر وہ پاکستانی رہتے ہوئے بھی کہیں کچھ حاصل کر رہے ہیں تو ہمیں خوشی ہونی چاہیے۔ میں نے اگر کوئی ایسی بات نقل کر دی ہے جو ان پاکستانیوں کو ناگوار گزری ہے تو ان کے حساس دلوں سے معذرت۔ وہ ایسے پردیسی ہیں جو پاکستان میں ''رہتے'' ہیں۔ ہمارے دلوں کے قریب۔ طاہر القادری جیسے شاذ و نادر ہیں جو کسی غیر ملکی ایجنڈے اور منصوبے کے تحت یہاں الیکشن ملتوی کرانے آ گئے تا کہ یہ ملک پٹری پر نہ چڑھ سکے۔ ہمارے یہ پاکستانی ایسے بہروپیے پاکستانیوں سے ہوشیار رہیں اور ہمارے لیے دعا کرتے رہیں۔ انشاء اللہ یہ ملک ایسا ملک ہو گا جہاں لوگ روزی روز گار اور تعلیم کے لیے آیا کریں گے اور ایسا ہوتا رہا ہے۔ مجھے اپنے یہ اچھے دن یاد ہیں۔