آرٹیکل 62 63 میں ترمیم کی بالواسطہ کوشش
بل قومی اسمبلی سے منظور، سینیٹ کمیٹی میں جا چکا ہے، پرانے قانون کے کاغذات نامزدگی میں 3 بار حلفیہ اقرارنامہ کا لفظ تھا
عام انتخابات کے قوانین میں ترمیم کے بل میںکاغذات نامزدگی کے فارم سے'' حلفیہ اقرارنامہ'' ختم کردیا گیا تاہم اس اقدام کو آئینی و قانونی ماہرین نے آئین کے آرٹیکل 62 اورعوامی نمائندگی ایکٹ پر حملہ اور ایک فارم میں تبدیلی کر کے آرٹیکل 62، 63 سے بچنے کا راستہ قرار دیا ہے۔
قومی اسمبلی سے22 اگست کو پاس ہونے والے انتخابات ایکٹ2017 میں دیے گئے نئے نامزدگی فارم میں امیدوارکی جانب سے جمع کرائے جانے والے حلفیہ اقرارنامہ میں سے '' حلفOath ''کا لفظ حذف کیا گیا ہے۔ نئے بل میں ''امیدوارکی جانب سے اقرار نامہ ''کے الفاظ ہیں جبکہ سابقہ فارم نامزدگی میں ''امیدوارکی جانب سے حلفیہ اقرار نامہ ''کے الفاظ تھے۔پرانے قانون میں اقرار نامے کے متن میں تین جگہ موجود'' حلف ''کا لفظ تھا جسے تینوں جگہوں سے حذف کیا گیا ہے۔
اقرارنامہ کے آغاز میں ''میں۔۔۔۔ (نامزد ا میدوار) حلفیہ اقرارکرتا ہوں کی جگہ ' میں۔۔۔۔ (نامزد امیدوار) بذریعہ ہذا اقرار کرتا ہوں'' کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد یہ بل سینیٹ کو بھیجا گیاجہاں سے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری نے کہاہے کہ اراکین پارلیمان کے نامزدگی فارم سے ''حلف''کا لفظ نکال کر آئین و قانون کی نفی کی گئی ہے کیونکہ حلفیہ اقرارنامہ کسی بھی بات کی حلف پر تصدیق کرنا ہوتا ہے، اگرآج اس لفظ کو نامزدگی فارم سے نکالاگیا تو کل یہ مطالبہ کریںگے کہ ممبرقومی اسمبلی بنتے وقت جو حلف لیا جاتا ہے اس میں سے بھی ایسے الفاظ حذف کیے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر عوامی عہدہ رکھنے والا حلف پرکوئی بات نہیں کرے گا تو اس اقرارکی کیا حیثیت ہوگی؟ انھوں نے کہاکہ اس بل کے ذریعے نہ صرف حلف کی اہمیت سے انکار کیا گیا ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل62اورالیکشن قوانین پر حملہ کیا گیا ہے۔
سینیئر وکیل شیخ احسن الدین نے کہا کہ نامزدگی فارم سے حلف کا لفظ نکالناایک فارم کی بنیاد پرآئین کے آرٹیکل62،63 کومسترد کرنے کے مترادف ہے کیونکہ حلف کا لفظ نکالنے سے یہ حلفیہ بیان کے بجائے عام اقرار نامہ تصور ہوگا۔ قانونی طور پر ان دونوں بیانات کی الگ الگ حیثیت ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کو دیے گئے اسی بیان کی بنیاد پر تو امیدوارکی اہلیت یا نااہلی کا فیصلہ کیا جاتا ہے، انھوں نے کہاکہ ایک فارم میں تبدیلی کرکے آرٹیکل62،63سے بچنے کا راستہ نکالاگیا ہے۔
حشمت حبیب ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس تبدیلی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور اس کے کوئی قانونی اثرات نہیں ہوسکتے، ان کا کہنا تھاکہ دنیا کے ہر قانون کی رو سے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک کا ہرشہری ایمانداراور سچ بولنے والا ہوتاہے تاوقتیکہ وہ جھوٹا ثابت نہ ہوجائے، اس لیے صرف اقرار نامہ دیا جانا سچ تصور ہوگا تاہم اگرکوئی جھوٹ ثابت ہو جائے تو عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت اقرارنامہ دینے والے شخص کیخلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
قومی اسمبلی سے22 اگست کو پاس ہونے والے انتخابات ایکٹ2017 میں دیے گئے نئے نامزدگی فارم میں امیدوارکی جانب سے جمع کرائے جانے والے حلفیہ اقرارنامہ میں سے '' حلفOath ''کا لفظ حذف کیا گیا ہے۔ نئے بل میں ''امیدوارکی جانب سے اقرار نامہ ''کے الفاظ ہیں جبکہ سابقہ فارم نامزدگی میں ''امیدوارکی جانب سے حلفیہ اقرار نامہ ''کے الفاظ تھے۔پرانے قانون میں اقرار نامے کے متن میں تین جگہ موجود'' حلف ''کا لفظ تھا جسے تینوں جگہوں سے حذف کیا گیا ہے۔
اقرارنامہ کے آغاز میں ''میں۔۔۔۔ (نامزد ا میدوار) حلفیہ اقرارکرتا ہوں کی جگہ ' میں۔۔۔۔ (نامزد امیدوار) بذریعہ ہذا اقرار کرتا ہوں'' کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد یہ بل سینیٹ کو بھیجا گیاجہاں سے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری نے کہاہے کہ اراکین پارلیمان کے نامزدگی فارم سے ''حلف''کا لفظ نکال کر آئین و قانون کی نفی کی گئی ہے کیونکہ حلفیہ اقرارنامہ کسی بھی بات کی حلف پر تصدیق کرنا ہوتا ہے، اگرآج اس لفظ کو نامزدگی فارم سے نکالاگیا تو کل یہ مطالبہ کریںگے کہ ممبرقومی اسمبلی بنتے وقت جو حلف لیا جاتا ہے اس میں سے بھی ایسے الفاظ حذف کیے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر عوامی عہدہ رکھنے والا حلف پرکوئی بات نہیں کرے گا تو اس اقرارکی کیا حیثیت ہوگی؟ انھوں نے کہاکہ اس بل کے ذریعے نہ صرف حلف کی اہمیت سے انکار کیا گیا ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل62اورالیکشن قوانین پر حملہ کیا گیا ہے۔
سینیئر وکیل شیخ احسن الدین نے کہا کہ نامزدگی فارم سے حلف کا لفظ نکالناایک فارم کی بنیاد پرآئین کے آرٹیکل62،63 کومسترد کرنے کے مترادف ہے کیونکہ حلف کا لفظ نکالنے سے یہ حلفیہ بیان کے بجائے عام اقرار نامہ تصور ہوگا۔ قانونی طور پر ان دونوں بیانات کی الگ الگ حیثیت ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کو دیے گئے اسی بیان کی بنیاد پر تو امیدوارکی اہلیت یا نااہلی کا فیصلہ کیا جاتا ہے، انھوں نے کہاکہ ایک فارم میں تبدیلی کرکے آرٹیکل62،63سے بچنے کا راستہ نکالاگیا ہے۔
حشمت حبیب ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس تبدیلی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور اس کے کوئی قانونی اثرات نہیں ہوسکتے، ان کا کہنا تھاکہ دنیا کے ہر قانون کی رو سے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک کا ہرشہری ایمانداراور سچ بولنے والا ہوتاہے تاوقتیکہ وہ جھوٹا ثابت نہ ہوجائے، اس لیے صرف اقرار نامہ دیا جانا سچ تصور ہوگا تاہم اگرکوئی جھوٹ ثابت ہو جائے تو عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت اقرارنامہ دینے والے شخص کیخلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔