افغانستان کا مستقبل
2001 سے قبل پاکستان میں صرف ایک خودکش دھماکا ہوا تھا لیکن 2001 کے بعد پاکستان میں کتنے خودکش دھماکے ہوئے ہیں وہ۔۔۔
افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا سے پیدا ہونے والاخلا کس طرح پر ہوگا؟ خطے اور دنیا کی صورت حال پر اس انخلا کے کیا اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں؟ افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ افغانستان کے بارے میں یہ سوالات اہمیت کے حامل معلوم دیتے ہیں۔ امریکی اثرات کی حامل قوتیں امریکی افواج کی خطے سے واپسی پر خوش نظر نہیں آتیں۔ ممکن ہے وہ خود کو زیادہ غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہوں۔ اس تناظر میں پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی اس تقریر کو بھی خاص رخ سے دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے جو انھوں نے گزشتہ ماہ نیویارک میں کی تھی۔
آپ نے ''کاؤنسل آن فارن ریلیشنز'' میں نیٹو اور امریکی افواج کی اس تیز رفتار واپسی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ''افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ وہاں موجود متشددانہ فکری خلا کو کم کیا جائے، کیا امریکا نے یہ ہدف حاصل کرلیا؟ میرا خیال ہے کہ اگر آپ پچھلے دس برس پر نظر ڈالیں تو آپ کو اس فکر میں کمی کے بجائے اضافہ نظر آئے گا۔ 2001 سے قبل پاکستان میں صرف ایک خودکش دھماکا ہوا تھا لیکن 2001 کے بعد پاکستان میں کتنے خودکش دھماکے ہوئے ہیں وہ تعداد یاد رکھنا بھی آسان نہیں۔ گزشتہ محض دو تین برسوں میں 300 خودکش حملے ہوئے ہیں، تقریباً 30 ہزار شہری ان دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں، اس میں چھ ہزار فوجی یا عسکری اداروں کے جوان بھی شامل ہیں۔ افغانستان سے ملحق سرحد کی صورت حال دو برس قبل کی نسبت زیادہ ابتر ہو گئی ہے۔
سرحد پار سے پاکستانی علاقوں پر ہونے والے حملے بہت اعتماد بحال کرنے والے نہیں کہے جا سکتے۔'' جناب حنا بی بی کی تمام تلخ باتوں کو بعض حلقوں نے امریکی واپسی کے اثرات سے تعبیر کیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ اور گزشتہ حکومتوں نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، پاکستان کی موجودہ بدامنی کو اس کے ساتھ نتھی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی حدود میں ڈرون حملے، بن لادن کا قتل صریحاً کسی بھی ملک کی خود مختاری کا دھیان نہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس تمام تر صورت حال کو ہمارے حکمراں جِس طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
ان حالات میں امریکی جنرل جان ایلن کا بیان خاص اہمیت اور توجہ کا حامل ثابت ہوا۔ آپ نے 19 ماہ ایساف کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ امریکی میرین کور کے جنرل جوزف ڈنفورڈ کو ایساف فورسز کی سربراہی سونپنے کے بعد بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے آپ نے کہا ''کسی بھی جگہ بغاوتوں کی سرکوبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، اس لیے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا امکان بہت کم ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ 2014ء میں ناٹو افواج کی روانگی کے بعد کتنی امریکی فوج یہاں موجود رہے گی۔''
یقینی طور پر امریکی افواج کے طویل قیام کے خواہش مندوں کے لیے یہ ایک تسلی بخش بیان ہے۔ لیکن افغان حکومت جو امریکی بیساکھیوں پر ایک محدود عمل داری پر قناعت کیے ہوئے ہے، اس کے سوچنے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے۔ آج امریکا کی معاشی حالت وہ نہیں جو نائن الیون سے قبل تھی۔ پچھلے چند برسوں میں ہی بڑی گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ مثلاً 2009 میں امریکا پر قرضوں کا حجم 10.6 ٹریلین ڈالر تھا جو بڑھ کر گزشتہ برس 16 ٹریلین ڈالر تک ہوگیا۔ بے روزگاری کے سبب سیکڑوں، ہزاروں نہیں لاکھوں امریکیوں کو اپنی ملازمتوں اور رہائش گاہوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ آج ایک عام امریکی شہری کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس کا قصور کیا ہے؟ کیوں وہ معاشی بدحالی کا شکار ہے؟ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بجٹ خسارے کی بنا پر مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن سب دیکھ رہے ہیں کہ اربوں ڈالر بینکاروں کے خزانے میں جا رہے ہیں۔ اربوں ڈالر جنگ کے نام پر اور دفاع کے نام پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ امریکی عوام کے یہ اربوں ڈالر ایک اور مسلمان ملک پر حملے کے لیے ہیں یا امریکی عوام کی فلاح کے لیے؟
دوسری جانب افغانستان کے حالات بہتری کے بجائے ابتری کی جانب مائل ہیں۔ حنا ربانی کھر نے بجا طور پر کہا کہ آج شدت پسندی گزشتہ دہائی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے۔ اگرچہ انھوں نے شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن واقعہ یہ ہے کہ اگر کسی کو خونِ مسلم کی ارزانی دیکھنی ہو تو افغانستان اور پاکستان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 2011 میں اٹھارہ سو بچے ہلاک یا زخمی ہوئے، گویا پانچ بچے روزانہ۔ طالبان دورِ حکومت میں کسی بھی قسم کی امداد لینے سے انکار کردیا گیا تھا۔ آج وہاں گزشتہ دہائی سے 22 امداد دینے والے ممالک مسلسل امداد دے رہے ہیں لیکن افغانیوں کے مصائب و مسائل کم ہونے میں نہیں آرہے۔ ہائی کمشنر آف ہیومن رائٹس کے مطابق نوے لاکھ افغان یعنی 36 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ مزید 37 فیصد افغان خط غربت سے بس ذرا ہی بلند ہیں۔ 40 فیصد افغانیوں کو فاقوں کا سامنا ہے۔ 2002-2009 کے درمیان 35 ارب ڈالر تک امداد دی گئی۔ یہ سب کیا ہوئی؟ کوئی نہیں جانتا؟
امریکی مداخلت کے بعد سے افغانستان نے بعض شعبوں میں مثالی ترقی کی ہے۔ مثال کے طور پر منشیات۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کے مطابق عالمی منڈی کی 92 فیصد تک غیر ادویاتی افیون افغانستان سے آتی ہے، تقریباً 8200 میٹرک ٹن۔ صرف یہ ہی نہیں افغانستان دنیا بھر میں حشیش کا بھی سب سے بڑا پیداواری ہے۔ اقوام متحدہ کی 11 جنوری کی رپورٹ کے مطابق 2011 میں افغانستان کی پوست کی کاشت میں 133 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹس کے مطابق طالبان دور میں صرف ایک حکم پر پوست کی کاشت تقریباً ختم ہوگئی تھی۔
منشیات کے علاوہ دوسرا شعبہ جس میں افغانستان نے بہت ترقی کی، وہ اسلحہ ہے۔ دنیا بھر کا کون سا اسلحہ ہے جو آج افغانستان میں نہیں بِکتا۔ خنجر، چاقو سے لے کر مشین گن اور راکٹ لانچر تک۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ آپ وہاں سے ٹینک بھی خرید سکتے ہیں۔ واﷲ اعلم۔ ہزار سے پندرہ سو ڈالر میں ایک عمدہ اے کے 47 المعروف کلاشنکوف خریدی جا سکتی ہے، چائنا، مصری، بلغارین اور روسی ساختہ۔ آج افغانستان اسلحے کی اتنی بڑی منڈی ہے کہ عام افراد اس کا تصور نہیں کرسکتے۔
اس مارکیٹ کے مباحث کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا مثلاً نئی روسی ساختہ کلاشنکوف کی تعریف کرتے ہوئے ایک اسلحہ فروش نے انکشاف کیا کہ امریکا کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے کلاشنکوف کی نال پگھل جاتی ہے۔ لیکن ایسا صرف چائنا، مصری اور بلغارین کلاشنکوف کے ساتھ ہی ہے۔ نئی روسی ساختہ کلاشنکوف اس سے محفوظ رہتی ہے، وغیرہ۔ ناٹو افواج کا اسلحہ بھی آسانی سے دستیاب ہے، مثلاً M-16 رائفل وغیرہ۔ اس تمام تر صورت حال کا بھگتان پاکستان کے حصے میں آیا ہے۔ آج پاکستان میں اسلحہ، منشیات، لاقانونیت، بدامنی اور دہشت گردی کا بڑا سبب سرحد پار پایا جاتا ہے۔ افغانستان سے اسلحہ لنڈی کوتل کی مارکیٹ تک آنا کون سی بڑی بات ہے۔
افغانستان کے مستقبل کے بارے میں اٹھایا جانے والا ہر سوال مایوسی اور تاریکی کی دلدل تک لے جاتا ہے۔ افغانستان کی آزادی اور ترقی کے لیے حملہ کرنے والے افغانستان کو قتلِ عام، منشیات اور اسلحے کی تاریک وادی میں جھونک کر جارہے ہیں۔ اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب یہ اندھیارے بڑھ کر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے لگیں گے۔
آپ نے ''کاؤنسل آن فارن ریلیشنز'' میں نیٹو اور امریکی افواج کی اس تیز رفتار واپسی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ''افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ وہاں موجود متشددانہ فکری خلا کو کم کیا جائے، کیا امریکا نے یہ ہدف حاصل کرلیا؟ میرا خیال ہے کہ اگر آپ پچھلے دس برس پر نظر ڈالیں تو آپ کو اس فکر میں کمی کے بجائے اضافہ نظر آئے گا۔ 2001 سے قبل پاکستان میں صرف ایک خودکش دھماکا ہوا تھا لیکن 2001 کے بعد پاکستان میں کتنے خودکش دھماکے ہوئے ہیں وہ تعداد یاد رکھنا بھی آسان نہیں۔ گزشتہ محض دو تین برسوں میں 300 خودکش حملے ہوئے ہیں، تقریباً 30 ہزار شہری ان دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں، اس میں چھ ہزار فوجی یا عسکری اداروں کے جوان بھی شامل ہیں۔ افغانستان سے ملحق سرحد کی صورت حال دو برس قبل کی نسبت زیادہ ابتر ہو گئی ہے۔
سرحد پار سے پاکستانی علاقوں پر ہونے والے حملے بہت اعتماد بحال کرنے والے نہیں کہے جا سکتے۔'' جناب حنا بی بی کی تمام تلخ باتوں کو بعض حلقوں نے امریکی واپسی کے اثرات سے تعبیر کیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ اور گزشتہ حکومتوں نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، پاکستان کی موجودہ بدامنی کو اس کے ساتھ نتھی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی حدود میں ڈرون حملے، بن لادن کا قتل صریحاً کسی بھی ملک کی خود مختاری کا دھیان نہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس تمام تر صورت حال کو ہمارے حکمراں جِس طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
ان حالات میں امریکی جنرل جان ایلن کا بیان خاص اہمیت اور توجہ کا حامل ثابت ہوا۔ آپ نے 19 ماہ ایساف کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ امریکی میرین کور کے جنرل جوزف ڈنفورڈ کو ایساف فورسز کی سربراہی سونپنے کے بعد بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے آپ نے کہا ''کسی بھی جگہ بغاوتوں کی سرکوبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، اس لیے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا امکان بہت کم ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ 2014ء میں ناٹو افواج کی روانگی کے بعد کتنی امریکی فوج یہاں موجود رہے گی۔''
یقینی طور پر امریکی افواج کے طویل قیام کے خواہش مندوں کے لیے یہ ایک تسلی بخش بیان ہے۔ لیکن افغان حکومت جو امریکی بیساکھیوں پر ایک محدود عمل داری پر قناعت کیے ہوئے ہے، اس کے سوچنے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے۔ آج امریکا کی معاشی حالت وہ نہیں جو نائن الیون سے قبل تھی۔ پچھلے چند برسوں میں ہی بڑی گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ مثلاً 2009 میں امریکا پر قرضوں کا حجم 10.6 ٹریلین ڈالر تھا جو بڑھ کر گزشتہ برس 16 ٹریلین ڈالر تک ہوگیا۔ بے روزگاری کے سبب سیکڑوں، ہزاروں نہیں لاکھوں امریکیوں کو اپنی ملازمتوں اور رہائش گاہوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ آج ایک عام امریکی شہری کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس کا قصور کیا ہے؟ کیوں وہ معاشی بدحالی کا شکار ہے؟ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بجٹ خسارے کی بنا پر مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن سب دیکھ رہے ہیں کہ اربوں ڈالر بینکاروں کے خزانے میں جا رہے ہیں۔ اربوں ڈالر جنگ کے نام پر اور دفاع کے نام پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ امریکی عوام کے یہ اربوں ڈالر ایک اور مسلمان ملک پر حملے کے لیے ہیں یا امریکی عوام کی فلاح کے لیے؟
دوسری جانب افغانستان کے حالات بہتری کے بجائے ابتری کی جانب مائل ہیں۔ حنا ربانی کھر نے بجا طور پر کہا کہ آج شدت پسندی گزشتہ دہائی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے۔ اگرچہ انھوں نے شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن واقعہ یہ ہے کہ اگر کسی کو خونِ مسلم کی ارزانی دیکھنی ہو تو افغانستان اور پاکستان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 2011 میں اٹھارہ سو بچے ہلاک یا زخمی ہوئے، گویا پانچ بچے روزانہ۔ طالبان دورِ حکومت میں کسی بھی قسم کی امداد لینے سے انکار کردیا گیا تھا۔ آج وہاں گزشتہ دہائی سے 22 امداد دینے والے ممالک مسلسل امداد دے رہے ہیں لیکن افغانیوں کے مصائب و مسائل کم ہونے میں نہیں آرہے۔ ہائی کمشنر آف ہیومن رائٹس کے مطابق نوے لاکھ افغان یعنی 36 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ مزید 37 فیصد افغان خط غربت سے بس ذرا ہی بلند ہیں۔ 40 فیصد افغانیوں کو فاقوں کا سامنا ہے۔ 2002-2009 کے درمیان 35 ارب ڈالر تک امداد دی گئی۔ یہ سب کیا ہوئی؟ کوئی نہیں جانتا؟
امریکی مداخلت کے بعد سے افغانستان نے بعض شعبوں میں مثالی ترقی کی ہے۔ مثال کے طور پر منشیات۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کے مطابق عالمی منڈی کی 92 فیصد تک غیر ادویاتی افیون افغانستان سے آتی ہے، تقریباً 8200 میٹرک ٹن۔ صرف یہ ہی نہیں افغانستان دنیا بھر میں حشیش کا بھی سب سے بڑا پیداواری ہے۔ اقوام متحدہ کی 11 جنوری کی رپورٹ کے مطابق 2011 میں افغانستان کی پوست کی کاشت میں 133 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹس کے مطابق طالبان دور میں صرف ایک حکم پر پوست کی کاشت تقریباً ختم ہوگئی تھی۔
منشیات کے علاوہ دوسرا شعبہ جس میں افغانستان نے بہت ترقی کی، وہ اسلحہ ہے۔ دنیا بھر کا کون سا اسلحہ ہے جو آج افغانستان میں نہیں بِکتا۔ خنجر، چاقو سے لے کر مشین گن اور راکٹ لانچر تک۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ آپ وہاں سے ٹینک بھی خرید سکتے ہیں۔ واﷲ اعلم۔ ہزار سے پندرہ سو ڈالر میں ایک عمدہ اے کے 47 المعروف کلاشنکوف خریدی جا سکتی ہے، چائنا، مصری، بلغارین اور روسی ساختہ۔ آج افغانستان اسلحے کی اتنی بڑی منڈی ہے کہ عام افراد اس کا تصور نہیں کرسکتے۔
اس مارکیٹ کے مباحث کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا مثلاً نئی روسی ساختہ کلاشنکوف کی تعریف کرتے ہوئے ایک اسلحہ فروش نے انکشاف کیا کہ امریکا کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے کلاشنکوف کی نال پگھل جاتی ہے۔ لیکن ایسا صرف چائنا، مصری اور بلغارین کلاشنکوف کے ساتھ ہی ہے۔ نئی روسی ساختہ کلاشنکوف اس سے محفوظ رہتی ہے، وغیرہ۔ ناٹو افواج کا اسلحہ بھی آسانی سے دستیاب ہے، مثلاً M-16 رائفل وغیرہ۔ اس تمام تر صورت حال کا بھگتان پاکستان کے حصے میں آیا ہے۔ آج پاکستان میں اسلحہ، منشیات، لاقانونیت، بدامنی اور دہشت گردی کا بڑا سبب سرحد پار پایا جاتا ہے۔ افغانستان سے اسلحہ لنڈی کوتل کی مارکیٹ تک آنا کون سی بڑی بات ہے۔
افغانستان کے مستقبل کے بارے میں اٹھایا جانے والا ہر سوال مایوسی اور تاریکی کی دلدل تک لے جاتا ہے۔ افغانستان کی آزادی اور ترقی کے لیے حملہ کرنے والے افغانستان کو قتلِ عام، منشیات اور اسلحے کی تاریک وادی میں جھونک کر جارہے ہیں۔ اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب یہ اندھیارے بڑھ کر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے لگیں گے۔