چھٹی
بات چھٹی کے لیے جواز تراشنے کی ہے، چھٹیاں دنیا کے سارے ملکوں میں مختلف سلسلوں کے لیے منائی جاتی ہیں۔
میرا دوست ایک ایسے ادارے میں کام کرتا ہے جس کے اندر مزدوروں کی نمائندہ یونین بھی ہے وہاں پر ایک سے زائد یونینز ہیں جو مختلف اسٹیشنوں پر کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہیڈآفس کی اپنی یونین ہے۔ مروجہ طریقہ کار کے تحت ایک مقررہ مدت کے بعد ان یونینز کے انتخابات ہوتے ہیں اور نمائندہ حضرات منتخب ہو کر آئندہ مقررہ مدت تک منتخب کرلیے جاتے ہیں۔
میرے دوست نے مجھے بتایا کہ حال ہی میں ایک یونین منتخب ہوکر سامنے آئی جس کے منتخب نمائندوں نے اس سے ملاقات کی کیونکہ وہ ادارے کا سربراہ بھی ہے۔ گفتگو بڑے اچھے ماحول میں ہوئی اور آئند ہ کے لائحہ عمل کے سلسلے میں چند باتیں ہوئیں، مبارک سلامت بھی ہوئی اور وعدے وعید بھی ہوئے ۔ یونین کے سارے نو منتخب حضرات اچھی شہرت اور اخلاق کے حامل افراد ہیں اور ادارے کی بہتری کے لیے انتظامیہ کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کے خواہش مند بھی ۔ ادارے کے سربراہ نے بھی انھیں اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔
میرے دوست کے مطابق اجلاس برخاست ہوتے وقت یونین کے نومنتخب حضرات نے ادارے کے سربراہ سے درخواست کی کہ ان کے جیتنے کی خوشی میں باقی ماندہ دن کے لیے چھٹی کا اعلان کرنے کی اجازت دی جائے ۔ میرے دوست کے لیے یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ جیتنے کی خوشی اپنی جگہ بجا لیکن اس سے ادارے کے ایک مخصوص محکمے میں جس کی نمائندہ یونین کے طور پر وہ حضرات منتخب ہو کر آئے تھے چھٹی کا کیا جواز تھا؟ جب میرے دوست نے ان کے ساتھ بحث کی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ روایت ہے ا ور ہر مرتبہ ایسا ہی ہوتاہے۔
یہ بات سننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ہم لوگ کیوں مسلسل پستی کی طرف جارہے ہیں کیوں ہم اس قابل ہی نہیں رہے کہ ترقی کرسکیں ۔ کیوں دنیا کے لوگ ہمارے ملک کو اور ہم لوگوں کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے ؟ کیوں ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی کی طرف لڑھکتے رہتے ہیں؟ کیوں ہمارے بزرگ شرمندہ اور ہماری نوجوان نسلیں مایوسی اور غیر یقینی کا شکار ہیں؟ میں نے محسوس کیا کہ ان ساری باتوں کی اور بے شمار وجوہات کے علاوہ ایک وجہ ہمارے اندر بات بات پر چھٹی کرنے کا شوق بھی ہے۔ ہم چھٹی کو ایک بہت بڑے اعزاز یا کارنامے کے طور پر مناتے ہیں بات چھٹی کی نہیں ہے۔ بات چھٹی کے لیے جواز تراشنے کی ہے، چھٹیاں دنیا کے سارے ملکوں میں مختلف سلسلوں کے لیے منائی جاتی ہیں۔ ہفتہ وار چھٹیاں دو دو دنوں کے لیے بھی دی جاتی ہیں۔ بعض ملکوں میں صرف ایک ہفتہ وار چھٹی دی جاتی ہے۔
رمضان المبارک کے دنوں میں دفتروں میں ایک گھنٹہ پہلے چھٹی کردی جاتی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ بعض اسلامی ملکوں میں پورے ماہِ رمضان کی چھٹی بھی دی جاتی ہے لیکن میں کسی ذریعے سے اس کی تصدیق نہیں کرسکا مختلف تہواروں پر چھٹیاں ہونا سبھی جانتے ہیں۔ قومی اور ملکی سطح پر غم اور خوشی کے ایام پر چھٹیاں دینا بھی ہر ملک میں ایک حقیقی امرہے جب بھی کہیں چھٹی ہوتی ہے اس علاقے اور ملک وقوم کے لوگ تقریباً سبھی اس وجہ کے بارے میں مطمئن ہوتے ہیں جس کی بنا پر چھٹی کی گئی ہے اور وہ وجہ یا جواز قابل فہم بھی ہوتا ہے۔
ہم بفضل تعالیٰ مسلمان ہیں چھٹی کا نظریہ اسلام کے نزدیک کیا ہے؟ کیا نماز میں چھٹی ہے؟ کیا روزہ میں چھٹی ہے ؟ کیا حرام کھانے میںچھٹی ہے کیا ظلم کرنے میں چھٹی ہے؟ نماز تو عید کے دن بھی عام دنوں سے ایک نماز جسے نماز عید کہتے ہیں زیادہ پڑھی جاتی ہے۔ سہولتیں البتہ ضرور عطا کی گئی ہیں جیسے سفر میں کسر نماز اور روزے کی چھوٹ وغیرہ لیکن ہمارے شوق کے مطابق یا خواہش پر کوئی چھٹی نہیں ہوتی اور ناہی کوئی اپنی طرف سے دے سکتا ہے۔
ہماری بد بختی کی انتہاہے کہ ہم چھٹی کا فخریہ مطالبہ کرتے ہیں بات بات پر چھٹی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور بالکل بھول جاتے ہیں کہ اس قسم کے مضحکہ خیز مطالبوں کا نقصان نہ صرف پوری قوم پورے ملک اور پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے بلکہ پہلے ہی بھگتنا پڑ چکا ہے ہمیں شوقیہ چھٹی کرنے کی عادت پڑچکی ہے جیسے غصّے میں بسوں کو آگ لگانا دکانوں اور گاڑیوں کے شیشے توڑنا وغیرہ کی عادت پڑچکی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے ہڑتالوں کا دور دورہ ہے دکانیں بند ہیں، بازار ویران ہیں کارخانوں پر تالے پڑچکے ہیں اور ایک قیامت کا سما برپا ہے جسکی 80% سے زیادہ ذمے داری ہماری اپنی ہے ہر بات میں حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا اور اپنی طرف نظریں نہ کرنا بھی ہماری انھی عادتوں کا شاخسانہ ہے۔
ہمارے قائد نے پاکستان حاصل کیا تھا کام کام اور بس کام کا سبق دیکر، اگر ہم نے اس سبق کو یاد رکھا ہوتا تو آج اس طرح شرمندگی کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے جس طرح اب گزار رہے ہیں، نہ جانے ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔ میر ا خیال ہے کہ ہم بچوں کو صرف یہ سکھا رہے ہیں کہ کام نہ کرو بس چھٹی کرو۔ اس لیے ہمارے بچے بھی اب ہماری عزت نہیں کرتے کیونکہ انھیں معلوم ہوچکا ہے کہ ابا کو چھٹی کرنے کا شوق ہے ابا کو کام کرنا آتا تو آج ہمارے حالات ایسے نہ ہوتے جیسے اب ہیں۔ خدا وہ وقت نہ لائے جب ابا کام کے لیے تڑپ رہا ہو اور لوگ اسے بتا رہے ہوں کہ چھٹی کرو چھٹی۔
خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین۔