مسئلہ ہے شادی کی عمر کا
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کا کہنا ہے کہ اسلام کے مطابق جب لڑکا اور لڑکی بالغ ہوجائیں تو۔۔۔
اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ بچوں کی شادی اس وقت کی جائے جب وہ عاقل و بالغ ہوں، ہم نے بالغ کی بات کو قبول کیا، عاقل کی شرط کو بھول گئے، ذہنی بلوغت ہمیشہ جسمانی بلوغت کے بعد ہوتی ہے، کم سنی کی شادیوں میں لڑکی کی ذہنی اور جسمانی نشوونما پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، کمسنی میں شادیاں کرنے والے والدین کے بچے بہت کمزور پیدا ہوتے ہیں اور ماؤں میں اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سندھ حکومت نے صحت مند معاشرے کے لیے مثبت قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں جبری و کم عمری کی شادیوں سے تحفظ کا بل رواں ماہ میں سندھ اسمبلی میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ سندھ کی وزیر برائے ترقی نسواں محترمہ توقیر فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ اس مسودہ قانون کو حتمی شکل دینے سے قبل ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا، جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندوں، تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور مفتی صاحبان، سیاسی، مذہبی اور اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں، ڈاکٹرز، وکلا، خواتین تنظیموں، این جی اوز سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو شرکت کی دعوت دی جائے گی اور ان تمام افراد کی مشاورت کے بعد مسودہ قانون کو حتمی شکل دی جائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ ہماری تجویز یہ ہے کہ سندھ میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کی عمر کم سے کم 18 برس ہو۔ شادی سے قبل دلہا اور دلہن کے ہیموفیلیا اور تھیلی سیمیا کے ٹیسٹ لازمی کرانے ہوں گے۔ جبری شادیوں کی روک تھام کے لیے بھی اس بل میں سزائیں اور جرمانہ تجویز کی جائیں گی۔ اس قانون سازی کے بعد اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے تشہیری اور آگاہی مہم چلائی جائے گی۔ واضح رہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل ایکٹ 2006 میں ترمیم کرکے 375 کا اضافہ کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ 16 سال سے کم عمر لڑکی سے اس کی مرضی یا زبردستی شادی کرنے والے کے خلاف مذکورہ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور جس کی سزا پانچ سال سے 25 برس قید تک ہے۔
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کا کہنا ہے کہ اسلام کے مطابق جب لڑکا اور لڑکی بالغ ہوجائیں تو ان کی شادی کی جاسکتی ہے، اس حوالے سے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ تاہم بالغ لڑکے اور لڑکی کی شادی کی جائے تو والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی مرضی معلوم کرلیں۔ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شرعی اعتبار سے جب لڑکے یا لڑکی میں بلوغت کی علامت ظاہر ہوجائیں تو وہ بالغ تسلیم کیا جائے گا، عام طور پر لڑکا 15 سال اور لڑکی 12 برس کی عمر میں بالغ ہوجاتے ہیں، بالغ لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرسکتے ہیں، حکومت کا عمر کی حد مقرر کرنے سے متعلق قانون سازی کرنا انتظامی مسئلہ ہے، اگر اس حوالے سے کوئی مشاورت کی تو شرعی احکام سے آگاہ کیا جائے گا۔
''سعودی مملکت کے دیہی علاقوں میں بدو کمیونٹیوں میں آج بھی کمسن بچیوں کو مالدار افراد کے ہاں شادی کے نام پر فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے، خاوند اور بیوی کی عمروں کے درمیان تناسب کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، اگر کسی لڑکی کی عمر 25 سال سے زیادہ ہے تو وہ باشعور سمجھی جاتی ہے اور اسے اپنی پسند کے مرد کے ساتھ شادی کا حق حاصل ہے، اگر لڑکی کی عمر 20 سال سے کم ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے والدین اس کو کسی مالدار بوڑھے سے شادی پر مجبور کرسکتے ہیں، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان عمر کا تفاوت مناسب ہو۔ میں ان علما سے متفق نہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ شادی کی کم سے کم عمر کے تعین کی مذہب میں اجازت نہیں، ایک حکمران شادی کی عمر مقرر کرسکتا ہے اور ایک مخصوص عمر کے افراد کو خاص حالات کے سوا شادی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔'' (سعودی عرب کے سینئر علما پر مشتمل کونسل کے سابق رکن شیخ عبداﷲ ال رکبان کا امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے زیراہتمام 'شادی کی عمر مذہبی اور سماجی تناظر' کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب، حوالہ: روزنامہ ایکسپریس کراچی، 10 نومبر 2012)۔
واضح رہے کہ قبل ازیں سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے قرار دیا تھا کہ اسلام کی رو سے لڑکیوں کی 10 سال کی عمر میں بھی شادیاں کی جاسکتی ہیں، انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ اسلامی قانون کسی بھی طرح خواتین پر جبر نہیں کرتا۔ انھوں نے شریعت کے ناقدین پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔
ادھر امریکی سائنسدانوں کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں پہلے کے مقابلے میں تیزی سے بالغ ہو رہے ہیں۔ امریکا میں بچوں کے علاج کے ادارے امریکن اکیڈمی آف پیڈریاٹرکس کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق بچوں کے کھانے کے طور طریقوں میں تبدیلی، جسمانی کام کاج نہ کرنا اور دیگر ماحولیاتی وجوہات جلد بالغ ہونے کی وجہ ہوسکتی ہیں۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے امریکا کی 41 ریاستوں میں 4 ہزار لڑکوں پر تحقیق کی گئی تھی جن کی عمر 6 سے 16 برس کے درمیان تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں نوجوان کے پہلے جو بالغ ہونے کی صحیح عمر مانی جاتی تھی اب وہ اس سے 6 مہینے یا کبھی کبھی 2 سال پہلے ہی بالغ ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سیاہ فام بچے 9 سال میں جب کہ سفید فام اور ہسپانوی نژاد بچے 10 برس کی عمر کے بعد بالغ ہوتے ہیں۔ قبل ازیں ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ لڑکیاں بھی پہلے کے مقابلے میں جلد بالغ ہورہی ہیں۔
ادھر پاکستان کے سب سے بڑے اور تعلیم یافتہ شہر کراچی میں ایک سروے رپورٹ کے مطابق خواتین میں خلع لینے کے رجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، فیملی عدالتوں سے ماہانہ 500 سے زائد خلع کی ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں، ایک ہزار خواتین خلع کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں جب کہ پانچوں اضلاع کی فیملی عدالتوں میں تقریباً 6 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں، خلع لینے کی وجوہات میں جبراً شادی، جلد بازی میں کی گئی کورٹ میرج اور معاشرے کی دیگر فرسودہ روایات کے ساتھ ساتھ خواتین کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کرنا بھی شامل ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق روزانہ فیملی عدالتوں میںدس سے زائد خواتین خلع کے لیے رجوع کرتی ہیں جن میں زیادہ تعداد کورٹ میرج، جبری شادی کرنے والی خواتین کی ہے، دیگر شوہر کے ظلم سے تنگ آکر رجوع کر رہی ہیں۔
مذکورہ بالا صورت حال کے تناظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک طرف شادی کے وقت لڑکے اور لڑکیوں کی عمریں متعین کرنا ایک مسئلہ ہے تو دوسری طرف جدید ماحول انھیں وقت سے پہلے بالغ کر رہا ہے اور تیسرا یہ کہ والدین کی اجازت کے بغیر پسند کی شادی نے بھی خواتین کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے اور جبری شادی کی بنا پر میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونا بھی گمبھیر مسئلہ ہے۔ ان تمام صورت حال کے مدنظر قانون سازی کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے تاکہ قانون کی رو سے ان مسائل پر قابو پایا جاسکے۔ لیکن بات صرف قانون سازی تک محدود نہ ہو بلکہ اس پر عمل درآمد کرانا بھی ضروری ہے ورنہ یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح معاشرتی روایت کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سندھ حکومت نے صحت مند معاشرے کے لیے مثبت قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں جبری و کم عمری کی شادیوں سے تحفظ کا بل رواں ماہ میں سندھ اسمبلی میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ سندھ کی وزیر برائے ترقی نسواں محترمہ توقیر فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ اس مسودہ قانون کو حتمی شکل دینے سے قبل ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا، جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندوں، تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور مفتی صاحبان، سیاسی، مذہبی اور اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں، ڈاکٹرز، وکلا، خواتین تنظیموں، این جی اوز سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو شرکت کی دعوت دی جائے گی اور ان تمام افراد کی مشاورت کے بعد مسودہ قانون کو حتمی شکل دی جائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ ہماری تجویز یہ ہے کہ سندھ میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کی عمر کم سے کم 18 برس ہو۔ شادی سے قبل دلہا اور دلہن کے ہیموفیلیا اور تھیلی سیمیا کے ٹیسٹ لازمی کرانے ہوں گے۔ جبری شادیوں کی روک تھام کے لیے بھی اس بل میں سزائیں اور جرمانہ تجویز کی جائیں گی۔ اس قانون سازی کے بعد اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے تشہیری اور آگاہی مہم چلائی جائے گی۔ واضح رہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل ایکٹ 2006 میں ترمیم کرکے 375 کا اضافہ کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ 16 سال سے کم عمر لڑکی سے اس کی مرضی یا زبردستی شادی کرنے والے کے خلاف مذکورہ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور جس کی سزا پانچ سال سے 25 برس قید تک ہے۔
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کا کہنا ہے کہ اسلام کے مطابق جب لڑکا اور لڑکی بالغ ہوجائیں تو ان کی شادی کی جاسکتی ہے، اس حوالے سے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ تاہم بالغ لڑکے اور لڑکی کی شادی کی جائے تو والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی مرضی معلوم کرلیں۔ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شرعی اعتبار سے جب لڑکے یا لڑکی میں بلوغت کی علامت ظاہر ہوجائیں تو وہ بالغ تسلیم کیا جائے گا، عام طور پر لڑکا 15 سال اور لڑکی 12 برس کی عمر میں بالغ ہوجاتے ہیں، بالغ لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرسکتے ہیں، حکومت کا عمر کی حد مقرر کرنے سے متعلق قانون سازی کرنا انتظامی مسئلہ ہے، اگر اس حوالے سے کوئی مشاورت کی تو شرعی احکام سے آگاہ کیا جائے گا۔
''سعودی مملکت کے دیہی علاقوں میں بدو کمیونٹیوں میں آج بھی کمسن بچیوں کو مالدار افراد کے ہاں شادی کے نام پر فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے، خاوند اور بیوی کی عمروں کے درمیان تناسب کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، اگر کسی لڑکی کی عمر 25 سال سے زیادہ ہے تو وہ باشعور سمجھی جاتی ہے اور اسے اپنی پسند کے مرد کے ساتھ شادی کا حق حاصل ہے، اگر لڑکی کی عمر 20 سال سے کم ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے والدین اس کو کسی مالدار بوڑھے سے شادی پر مجبور کرسکتے ہیں، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان عمر کا تفاوت مناسب ہو۔ میں ان علما سے متفق نہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ شادی کی کم سے کم عمر کے تعین کی مذہب میں اجازت نہیں، ایک حکمران شادی کی عمر مقرر کرسکتا ہے اور ایک مخصوص عمر کے افراد کو خاص حالات کے سوا شادی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔'' (سعودی عرب کے سینئر علما پر مشتمل کونسل کے سابق رکن شیخ عبداﷲ ال رکبان کا امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے زیراہتمام 'شادی کی عمر مذہبی اور سماجی تناظر' کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب، حوالہ: روزنامہ ایکسپریس کراچی، 10 نومبر 2012)۔
واضح رہے کہ قبل ازیں سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے قرار دیا تھا کہ اسلام کی رو سے لڑکیوں کی 10 سال کی عمر میں بھی شادیاں کی جاسکتی ہیں، انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ اسلامی قانون کسی بھی طرح خواتین پر جبر نہیں کرتا۔ انھوں نے شریعت کے ناقدین پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔
ادھر امریکی سائنسدانوں کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں پہلے کے مقابلے میں تیزی سے بالغ ہو رہے ہیں۔ امریکا میں بچوں کے علاج کے ادارے امریکن اکیڈمی آف پیڈریاٹرکس کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق بچوں کے کھانے کے طور طریقوں میں تبدیلی، جسمانی کام کاج نہ کرنا اور دیگر ماحولیاتی وجوہات جلد بالغ ہونے کی وجہ ہوسکتی ہیں۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے امریکا کی 41 ریاستوں میں 4 ہزار لڑکوں پر تحقیق کی گئی تھی جن کی عمر 6 سے 16 برس کے درمیان تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں نوجوان کے پہلے جو بالغ ہونے کی صحیح عمر مانی جاتی تھی اب وہ اس سے 6 مہینے یا کبھی کبھی 2 سال پہلے ہی بالغ ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سیاہ فام بچے 9 سال میں جب کہ سفید فام اور ہسپانوی نژاد بچے 10 برس کی عمر کے بعد بالغ ہوتے ہیں۔ قبل ازیں ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ لڑکیاں بھی پہلے کے مقابلے میں جلد بالغ ہورہی ہیں۔
ادھر پاکستان کے سب سے بڑے اور تعلیم یافتہ شہر کراچی میں ایک سروے رپورٹ کے مطابق خواتین میں خلع لینے کے رجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، فیملی عدالتوں سے ماہانہ 500 سے زائد خلع کی ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں، ایک ہزار خواتین خلع کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں جب کہ پانچوں اضلاع کی فیملی عدالتوں میں تقریباً 6 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں، خلع لینے کی وجوہات میں جبراً شادی، جلد بازی میں کی گئی کورٹ میرج اور معاشرے کی دیگر فرسودہ روایات کے ساتھ ساتھ خواتین کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کرنا بھی شامل ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق روزانہ فیملی عدالتوں میںدس سے زائد خواتین خلع کے لیے رجوع کرتی ہیں جن میں زیادہ تعداد کورٹ میرج، جبری شادی کرنے والی خواتین کی ہے، دیگر شوہر کے ظلم سے تنگ آکر رجوع کر رہی ہیں۔
مذکورہ بالا صورت حال کے تناظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک طرف شادی کے وقت لڑکے اور لڑکیوں کی عمریں متعین کرنا ایک مسئلہ ہے تو دوسری طرف جدید ماحول انھیں وقت سے پہلے بالغ کر رہا ہے اور تیسرا یہ کہ والدین کی اجازت کے بغیر پسند کی شادی نے بھی خواتین کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے اور جبری شادی کی بنا پر میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونا بھی گمبھیر مسئلہ ہے۔ ان تمام صورت حال کے مدنظر قانون سازی کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے تاکہ قانون کی رو سے ان مسائل پر قابو پایا جاسکے۔ لیکن بات صرف قانون سازی تک محدود نہ ہو بلکہ اس پر عمل درآمد کرانا بھی ضروری ہے ورنہ یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح معاشرتی روایت کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔