پاکستان اتنا بھی برا ملک نہیں ہے

ان تمام ڈراموں کو اتنی مہارت سے ان نیوز چینلز کی ٹیم نے تیار کیا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔


S Nayyer February 16, 2013
[email protected]

سین نمبر 1: نیوز چینل پر ایک سنسنی خیز ڈرامہ آن ائیر ہے۔ ڈرامے کا سیٹ بڑی عرق ریزی سے تیار کیا گیا ہے۔ شہر کی مرکزی شاہراہ پر کئی گاڑیاں تباہ شدہ حالت میں آڑھی ترچھی پڑی ہوئی ہیں، زخمی بری طرح کراہ رہے ہیں، بیک گرائونڈ میں ایک آرٹسٹ، جذبات سے عاری لہجے میں واقعے کی کمنٹری نشر کرتے ہوئے بتا رہا ہے کہ آدھا گھنٹہ قبل اس مقام پر ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے ایک زور دار دھماکا کیا گیا ہے، جس میں چار پولیس والے اور 6 شہری موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے ہیں، مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

ایک وقفے کے بعد بیک گرائونڈ سے المناک موسیقی کے پس منظر میں ایمبولینسوں کے ہوٹرز کی تیز آوازیں سنائی دیتی ہیں، ایمبولینسیں دوڑتی بھاگتی قریبی اسپتال کی جانب رواں دواں ہیں، اسپتال میں قیامت صغریٰ کا منظر ہے، ایک بوڑھی عورت جس کا جوان بچہ دھماکے کے وقت جائے وقوعہ کے قریب سے گزر رہا تھا، اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے، اس کی بوڑھی ماں غضب کی پرفارمنس پیش کر رہی ہے، وہ پچھاڑیں کھا کھا کر بین کر رہی ہے اور وقت کے حکمرانوں کو کوس رہی ہے۔ سین کے نیچے ایک ٹِکر چل رہی ہے، جس پر حکمرانوں اور ان کے مخالفین کی جانب سے جاری کیے گئے مذمتی بیانات تسلسل سے چل رہے ہیں، مذمت کرنے والوں کے درمیان ایک مقابلہ جاری ہے، ایک سیاسی رہنما نے یہ انکشاف کرکے پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا ہے کہ ''یہ دہشت گرد مسلمان ہو ہی نہیں سکتے۔'' دوسرے نے اس دھماکے کو ''کھلی دہشت گردی'' کا نام دے کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروادیا ہے، وزیرِ داخلہ ایک دن قبل ہی لندن کے نجی دورے پر تشریف لے جا چکے ہیں۔

سین نمبر 2: ایک خودمختار اور مالدار سرکاری ادارے کے سربراہ جن کی تعلیمی قابلیت ایک لوئر ڈویژن کلرک کے برابر تھی، اس ادارے میں بحیثیت سربراہ کافی عرصے سے تعینات تھے، انھوں نے قوم کو 70 ارب روپے کا ٹیکہ لگایا اور ای سی ایل میں نام ہونے کے باوجود، ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے ہیں، وہ عجمان میں ایک بیکری اور تندور پر روٹیاں گن گن کر گاہکوں سے کیش کائونٹر پر پیسے وصول کر رہے ہیں، ان کے اکائونٹ میں اب بھی اربوں کی رقم موجود ہے، لیکن ٹیکنیکل وجوہات کے باعث فی الحال ان کی گرفتاری ممکن نہیں ہوسکی ہے اور ہوتی ہوئی دکھائی بھی نہیں دے رہی ہے۔

سین نمبر 3: تیسرے چینل پر ایک بڑا مہنگا سیٹ لگایا گیا ہے۔ ایک ریل کی پٹری پر دوڑتی ہوئی ٹرین میں سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں، ٹرین پر ایک ہجوم بری طرح پتھراؤ کررہا ہے، بیک گرائونڈ میں بتایا جارہا ہے کہ بجلی کی عدم دستیابی کے باعث بپھرے ہوئے ہجوم نے اس ٹرین کو نذرِ آتش کردیا ہے، لڑائی، مار کٹائی اور ڈنڈے برسانے والے ہجوم کی پرفارمنس حقیقت سے اس قدر قریب ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی شوٹنگ چل رہی ہے۔

سین نمبر 4: ایک سابق وزیراعظم اور موجودہ اپوزیشن لیڈر ایک چھوٹے سے شہر میں چھوٹے سے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے پچھلے دورِ اقتدار کے رونما نہ ہونے والے قصے ایسی ''سچی لگن'' سے بیان کر رہے ہیں کہ بجائے ان کے، حاضرین جلسہ پر رحم آرہا ہے، لوگ ان کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے بے چینی سے آنکھیں گھما گھما کر بریانی کی دیگوں کو تلاش کر رہے ہیں۔

سین نمبر 5: اگلے چینل پر صنعتی مزدور اپنی بند فیکٹری کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں، سامنے ایک سرکاری اسکول کے احاطے میں کئی کتوں کے درمیان گھمسان کا معرکہ برپا ہے، دیوار کے سائے میں دو گدھے بڑی سوگوار نظروں سے کتوں کی اس بدتمیزی کا جائزہ لے رہے ہیں، لیکن نیچے جو ٹِکر چل رہی ہے اس پر تحریر ہے ''انصاف، تعلیم اور روزگار سب کے لیے''۔

سین نمبر 6: اس چینل پر ایک نیم مزاحیہ ڈراما چل رہا ہے۔ ایک انتہائی نیک اور ایماندار وزیر کی دیانت کا اس کے کسی بدخواہ نے ایسا امتحان لیا کہ اس کے اکائونٹ میں چار کروڑ روپے اتنی خاموشی سے جمع کروا دیے کہ ایماندار وزیر کو کانوں کان خبر بھی نہ ہونے دی۔ وہ تو بھلا ہو تفتیش کاروں کا اور عدلیہ کا کہ جیسے ہی انھوں نے وزیر صاحب کو ان کے ساتھ ہونے والے اس فراڈ کے بارے میں بتایا، ان وزیر صاحب نے بغیر کسی حیل و حجت کے وہ ناجائز رقم واپس کردی۔ ''ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنے خاکستر میں تھی۔''

سین نمبر 7: یہاں تو غضب کا سین چل رہا ہے۔ مذہبی امور کے حاضر سروس وزیر پر حاجیوں سے رشوت لینے کا جھوٹا الزام لگا کر انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، لیکن خدا خدا کرکے دشمنوں کی سازش ناکام ہوئی اور اب خیر سے وزیر صاحب باہر آچکے ہیں، لیکن وزارت شاید جیل میں ہی رہ گئی ہے۔

سین نمبر 8: اس چینل نے تو حد ہی کردی۔ سابق وزیراعظم کے ایک سپوت کے بارے میں یہ فلم چلا دی کہ کسی عقل کے اندھے نے ایک بااثر شخصیت کے نوجوان صاحبزادے کو خوامخواہ ایک انتہائی قیمتی اسپورٹس کار زبردستی تحفے میں دے دی ہے، لیکن اس غبارے سے اب یوں ہوا نکل گئی ہے کہ ایک بڑے صاحب ثروت شخص نے اس ملک کے اعلیٰ ترین عہدے دار کو پانچ ارب روپے مالیت کا محل تحفے میں دے کر کار کے تحفے کو انتہائی حقیر درجے کے تحفے میں تبدیل کردیا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ۔

ان تمام ڈراموں کو اتنی مہارت سے ان نیوز چینلز کی ٹیم نے تیار کیا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ عوام اسے حقیقت ہی سمجھ رہے ہوتے اگر پچھلے ہفتے وزیراعظم صاحب نے لندن میں یہ انکشاف کرکے پردہ نہ اٹھایا ہوتا کہ پاکستان میں ٹی وی پر دکھایا جانے والا ملک اتنا بھی برا نہیں ہے، جتنا بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو یہ چینلز دکھا رہے ہیں۔ واقعی راجا صاحب! پاکستان اتنا بھی برا ملک نہیں ہے، جتنا ان نیوز چینلز والوں نے اس قسم کے مناظر دکھا دکھا کر اسے بدنام کر رکھا ہے۔یقیناً یہ نہایت اچھا ملک ہے، مگر حکمرانوں کے لیے۔ رہے عوام، تو وہ یہ ڈرامے تو اس وقت دیکھیں گے، جب عوام کے پاس ٹی وی چلانے کے لیے بجلی موجود ہوگی، یہاں پر پی ایم صاحب کو اس امر کی داد نہ دینا یقیناً زیادتی ہوگی کہ اس کے باوجود انھوں نے میڈیا پر پابندی لگا نے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ (تالیاں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں