پاکستان کے وزرائے اعظم جو مدت مکمل نہ کرسکے پہلی قسط
گزشتہ 70 سال میں پاکستان کا کوئی بھی منتخب وزیراعظم پاکستان اپنے عہدے کی معیاد مکمل نہیں کرسکا ہے
پاکستان کی سیاست میں انقلاب لانے اور نیا پاکستان بنانے کے نام پر سڑکوں پر نکل کر تبدیلی لانے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ 2018ء کے عام انتخابات کے پیش نظر نواز شریف اور اُن کا حلقہِ سیاست اب بھی نااہلی کے فیصلے کو ووٹر کے پاس لے کر جانا چاہتا ہے، جس کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ گزشتہ 70 سال میں کسی بھی وزیراعظم پاکستان کو اپنے عہدے کی معیاد مکمل کرنے نہیں دی گئی۔ اسی نکتہ کو زیرِ غور لاتے ہوئے ہم نے اِس بلاگ میں پاکستان کے اُن وزرائے اعظم کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے جو اپنے عہدہ کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی برطرف کردئیے گئے۔
قیامِ پاکستان کے بعد پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہے تھے کہ اِس دوران 23 فروری 1951ء کو میجر جنرل اکبر خان کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس ہوا، جس میں چند فوجی اور ملک کی کچھ اور مشہور شخصیات نے شرکت کی جن میں فیض احمد فیض بھی تھے۔ اِس اجلاس میں موضوعِ بحث کشمیر کا مسئلہ اور پاک بھارت جنگ بندی تھا لیکن 9 مارچ 1951ء کو حکومت کی طرف سے واضح کیا گیا کہ یہ اجتماع حکومت کا تختہ اُلٹنے کیلئے ہوا تھا۔ جس کے بعد اِس اجلاس کے تمام شرکاء کو 'راولپنڈی سازش' کے تحت گرفتار کرلیا گیا اور اُن کا مقدمہ خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا، تاکہ اِس سازش کے شواہد جلد از جلد عوام کے سامنے لائے جاسکیں۔
ابھی یہ مقدمہ خصوصی عدالت میں چل ہی رہا تھا کہ وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو سید اکبر نامی شخص نے 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے دو گولیاں مار کر شہید کردیا۔ لیاقت علی خان گارڈن باغ (اب نیا نام لیاقت باغ) میں اُس وقت تقریر کیلئے کھڑے ہی ہوئے تھے اور منہ سے صرف برادرانِ اسلام کہہ پائے تھے کہ گولیاں اُن کے سینے کے پار ہوگئیں اور گولی لگنے کے بعد اُن کی زبان سے جو آخری لفظ نکلے وہ یہ تھے:
سید اکبر(قاتل) ایک افغانی باشندہ تھا اور ایبٹ آباد میں مقیم تھا۔ جب اُس نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان پر گولی چلائی تو بھگڈر مچ گئی اور ایک پولیس انسپکٹر نے سید اکبر کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ یوں قاتل بھی مارا گیا اور پاکستان کا پہلا وزیرِاعظم اپنے عہدے کی معیاد پوری نہ کرسکا۔
خواجہ ناظم الدین کا تعلق بنگال کے معزز خاندان سے تھا۔ اُن کے ماموں نواب سلیم اللہ خان ڈھاکہ کی رہائش گاہ پر آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا اور پھر یہی جماعت پاکستان کے قیام کا باعث بنی تھی۔ خواجہ ناظم الدین قائداعظم کی وفات کے بعد دوسرے گورنر جنرل بنے تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اُنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا تھا اور اُن کی جگہ گورنر جنرل پاکستان کے عہدے کے لیے پہلے وزیر خزانہ ملک غلام محمد کا نام طے ہوگیا تھا، لیکن جب گورنر جنرل پاکستان ملک غلام محمد نے اپنی آئینی حیثیت پر قناعت نہ کرتے ہوئے حکومت کے اصل اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی اور اُس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کرلی تو اُنہوں نے ایک اندرونی کابینہ بنالی، جن میں سینئر سرکاری افسران بھی شامل تھے۔
خواجہ ناظم الدین ایک شریف النفس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار سیاست دان بھی تھے، لہذا اُنہوں نے بھی اِن حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ محلاتی سازشیں عروج کو پہنچیں اور گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو 17ِ اپریل 1953ء کو اپنی رہائش گاہ پر بُلا کر اُن سے استعفیٰ طلب کرلیا۔ گورنر جنرل نے ملک میں غذائی قلت اور امن و امان قائم نہ رکھنے جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے قلم کی ایک جُنبش سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو اُن کی کابینہ سمیت برخاست کردیا۔
بوگرہ صاحب ایک اہم بنگالی سیاست دان اور ذہین شخص تھے۔ اُنہیں اپریل 1953ء میں امریکہ سے بُلا کر وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا تھا لیکن اگلے ڈیڑھ برس میں اُنہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد کے ارادے نیک نہیں ہیں۔ گورنر جنرل غلام محمد نے 24ِ اکتوبر 1954ء کو دستور ساز اسمبلی اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی کابینہ توڑ کر ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کردیا۔ نئی کابینہ کیلئے وزراء غلام محمد نے خود منتخب کیے۔ وزارت کے قلمدان ڈاکٹر خان صاحب، حسین شہید سہروردی، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کو بھی سونپے گئے اور اِس طرح فوج بھی پہلی دفعہ براہِ راست سیاست میں شامل ہوگئی۔ اِس دوران کچھ تنظیموں نے غلام محمد کو محافظِ ملت کا خطاب بھی دے دیا۔
محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد چوہدری محمد علی کو پاکستان کا پہلا سیکرٹری جنرل مقرر کیا جو کہ سول سروس میں پہلی بار سب سے بڑا عہدہ تھا۔ بعد ازاں خواجہ ناظم الدین کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں چوہدری محمد علی کو وزیرِ خزانہ بنادیا گیا۔ کچھ مُدت بعد چوہدری محمد علی کو دستور ساز اسمبلی کا رُکن منتخب کرکے اقتصادی معاملات کی وزارت کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا۔ اِس وزارت پر اُنہوں نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ کے ادوار میں اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔
اِس دوران ہی محلاتی سازشوں کی بدولت گورنر جنرل غلام محمد کو رُخصتی پر بھیج کر میجر جنرل اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بننے کا موقع مل گیا اور پھر نئی حکومت بنانے کیلئے مسلم لیگ نے متحدہ محاذ پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی اور 11 اگست 1955ء کو چوہدری محمد علی نے پاکستان کے نئے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھالیا۔ جس کے بعد بلاشبہ 1956ء کا آئین منظور کروانا چوہدری محمد علی کی سب سے بڑی کامیابی تھی لیکن دوسری طرف داخلی سیاست میں مات اُن کی ناکامی کا سبب بھی بن گئی اور صرف ایک سال بعد ہی مسلم لیگ پارٹی نے اُن کی حمایت سے دستبرداری کا اشارہ دے دیا۔ جس پر اُنہوں نے ایک مسلم لیگی کی حیثیت سے 8 ستمبر 1956ء کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
مشرقی پاکستان کی جماعت عوامی لیگ کے اہم رہنما حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو ملک کے پانچویں وزیراعظم بنے۔ وزارت بنانے کیلئے اُنہیں اپنی جماعت کے 14 ارکان کے ساتھ صدر اسکندر مرزا کی حمایت یافتہ جماعت ری پبلکن پارٹی اور 7 شیڈولڈ کاسٹ ارکان کی حمایت حاصل کرنا پڑی۔ لیکن جلد ہی اُنہوں نے پنجاب کے دورے کے دوران عوام کو ری پبلکن پارٹی کے عزائم سے آگاہ کر دیا۔ جماعت کے نمائندوں نے صدر اسکندر مرزا سے شکایت کی، جب صدر اسکندر مرزا نے حسین شہید سہروردی سے بات کرنا چاہی تو اُنہوں نے مرکزی اسمبلی کا اجلاس بُلانے کا مطالبہ کردیا۔
سہروردی کے ذہن میں تھا کہ اُن کے پاس ری پبلکن پارٹی کے علاوہ کچھ دوسرے ممبران کی اتنی اکثریت ہے کہ اُنہیں دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے میں مشکل پیش نہیں آئے گی لیکن یہ سوچ اُس وقت غلط ثابت ہوگئی جب صدر اسکندر مرزا نے مرکزی اسمبلی کا اجلاس بُلانے کی تجویز رد کردی کیونکہ وہ اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ لہذا اُنہوں نے اپنی اور ری پبلکن پارٹی کی اہمیت کو قائم رکھنے کیلئے حسین شہید سہروردی کو مستعٰفی ہونے کیلئے پیغام بھیج دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر اُنہوں نے ایسا نہ کیا تو ان کو برطرف کردیا جائے گا۔
وزیراعظم حسین شہید سہروردی فوراً صدر پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا کے پاس پہنچے اور نظرثانی کی درخواست کی لیکن اسکندر مرزا نے انکار کردیا۔ اِس پر انہوں نے 13 ماہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر برسرِ اقتدار رہنے کے بعد برطرفی کی ذِلت سے بچنے کیلئے صدر کی خواہش پر 11 اکتوبر1957ء کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ صدر اسکندر مرزا نے اُن سے استعفیٰ لے لیا جو سراسر غیر آئینی کارروائی تھی۔
23 مارچ 1940ء کو لاہور میں تاریخی قراردادِ لاہور کی منظوری کے وقت جس شخص نے بمبئی کے مسلمانوں کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اِس قرارداد کی تائید کی تھی وہ اُس وقت بمبئی صوبائی مسلم لیگ کے صدر اسماعیل ابراہیم چُندریگر تھے۔ جنہیں بعد ازاں تقریباً دو (2) ماہ پاکستان کا وزیر اعظم رہنے کا موقع بھی ملا۔ اُنہوں نے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا کی طرف سے وزارت بنانے کی دعوت پر 18ِ اکتوبر 1957ء کو ری پبلکن پارٹی، مسلم لیگ اور کرشک سرامک پارٹی کی مخلوط وزارت بنالی اور خود وزیراعظم بن گئے۔
لیکن پھر جب جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ صدر اسکندر مرزا جن کو اپنی صدارت کی کرسی بچانے کیلئے ری پبلکن پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کا اتحاد ایک آنکھ نہ بھارہا تھا اور ایک غیر ممکنہ قسم کی سیاسی چالیں وزارتِ عظمیٰ کے معاملات میں رکاوٹ بن رہی تھیں تو آئی آئی چندریگر نے بہتر سمجھتے ہوئے 11 دسمبر 1957ء کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
ملک فیروز خان نون بھی ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح وزارتِ عظمیٰ پر جمے نہ رہ سکے کیونکہ اُن کے دور میں ری پبلکن پارٹی کے صدر ڈاکٹر خان صاحب کا قتل ہوا تھا جبکہ حسین شہید سہروردی کا آئندہ انتخابات میں ایک دفعہ پھر وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے فی الوقت حکومت کا ساتھ دینے کا بھی کیا تھا۔ نومبر 1958ء میں منعقد ہونے والے انتخابات کو 15 فروری 1959ء میں منعقد کروانے کا فیصلہ کرنا اور جون 1958ء میں جنرل ایوب خان کی معیادِ ملازمت میں 2 سال کی توسیع دینے جیسے معاملات عوام اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں کو پسند نہ آئے۔
صدر اسکندر مرزا نے بگڑتے ہوئے حالات کا جائزہ لے لیا تھا اور اپنی کرسی کو قائم رکھنے کیلئے 7 اکتوبر1958ء کو ملک میں مارشل لاء لگادیا اور ملک کا آئین 1956ء جو پاکستان بننے کے 9 سال بعد بمشکل بنا تھا منسوخ کردیا۔ اِس کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں۔ بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمِنسٹریٹر مقرر کردیا گیا اور فیروز خان نون کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
وزیرِ اعظم لیاقت علی خان
قیامِ پاکستان کے بعد پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہے تھے کہ اِس دوران 23 فروری 1951ء کو میجر جنرل اکبر خان کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس ہوا، جس میں چند فوجی اور ملک کی کچھ اور مشہور شخصیات نے شرکت کی جن میں فیض احمد فیض بھی تھے۔ اِس اجلاس میں موضوعِ بحث کشمیر کا مسئلہ اور پاک بھارت جنگ بندی تھا لیکن 9 مارچ 1951ء کو حکومت کی طرف سے واضح کیا گیا کہ یہ اجتماع حکومت کا تختہ اُلٹنے کیلئے ہوا تھا۔ جس کے بعد اِس اجلاس کے تمام شرکاء کو 'راولپنڈی سازش' کے تحت گرفتار کرلیا گیا اور اُن کا مقدمہ خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا، تاکہ اِس سازش کے شواہد جلد از جلد عوام کے سامنے لائے جاسکیں۔
ابھی یہ مقدمہ خصوصی عدالت میں چل ہی رہا تھا کہ وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو سید اکبر نامی شخص نے 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے دو گولیاں مار کر شہید کردیا۔ لیاقت علی خان گارڈن باغ (اب نیا نام لیاقت باغ) میں اُس وقت تقریر کیلئے کھڑے ہی ہوئے تھے اور منہ سے صرف برادرانِ اسلام کہہ پائے تھے کہ گولیاں اُن کے سینے کے پار ہوگئیں اور گولی لگنے کے بعد اُن کی زبان سے جو آخری لفظ نکلے وہ یہ تھے:
خدا پاکستان کی حفاظت کرے
سید اکبر(قاتل) ایک افغانی باشندہ تھا اور ایبٹ آباد میں مقیم تھا۔ جب اُس نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان پر گولی چلائی تو بھگڈر مچ گئی اور ایک پولیس انسپکٹر نے سید اکبر کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ یوں قاتل بھی مارا گیا اور پاکستان کا پہلا وزیرِاعظم اپنے عہدے کی معیاد پوری نہ کرسکا۔
وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین
خواجہ ناظم الدین کا تعلق بنگال کے معزز خاندان سے تھا۔ اُن کے ماموں نواب سلیم اللہ خان ڈھاکہ کی رہائش گاہ پر آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا اور پھر یہی جماعت پاکستان کے قیام کا باعث بنی تھی۔ خواجہ ناظم الدین قائداعظم کی وفات کے بعد دوسرے گورنر جنرل بنے تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اُنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا تھا اور اُن کی جگہ گورنر جنرل پاکستان کے عہدے کے لیے پہلے وزیر خزانہ ملک غلام محمد کا نام طے ہوگیا تھا، لیکن جب گورنر جنرل پاکستان ملک غلام محمد نے اپنی آئینی حیثیت پر قناعت نہ کرتے ہوئے حکومت کے اصل اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی اور اُس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کرلی تو اُنہوں نے ایک اندرونی کابینہ بنالی، جن میں سینئر سرکاری افسران بھی شامل تھے۔
خواجہ ناظم الدین ایک شریف النفس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار سیاست دان بھی تھے، لہذا اُنہوں نے بھی اِن حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ محلاتی سازشیں عروج کو پہنچیں اور گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو 17ِ اپریل 1953ء کو اپنی رہائش گاہ پر بُلا کر اُن سے استعفیٰ طلب کرلیا۔ گورنر جنرل نے ملک میں غذائی قلت اور امن و امان قائم نہ رکھنے جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے قلم کی ایک جُنبش سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو اُن کی کابینہ سمیت برخاست کردیا۔
وزیراعظم محمد علی بوگرہ
بوگرہ صاحب ایک اہم بنگالی سیاست دان اور ذہین شخص تھے۔ اُنہیں اپریل 1953ء میں امریکہ سے بُلا کر وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا تھا لیکن اگلے ڈیڑھ برس میں اُنہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد کے ارادے نیک نہیں ہیں۔ گورنر جنرل غلام محمد نے 24ِ اکتوبر 1954ء کو دستور ساز اسمبلی اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی کابینہ توڑ کر ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کردیا۔ نئی کابینہ کیلئے وزراء غلام محمد نے خود منتخب کیے۔ وزارت کے قلمدان ڈاکٹر خان صاحب، حسین شہید سہروردی، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کو بھی سونپے گئے اور اِس طرح فوج بھی پہلی دفعہ براہِ راست سیاست میں شامل ہوگئی۔ اِس دوران کچھ تنظیموں نے غلام محمد کو محافظِ ملت کا خطاب بھی دے دیا۔
وزیراعظم چوہدری محمد علی
محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد چوہدری محمد علی کو پاکستان کا پہلا سیکرٹری جنرل مقرر کیا جو کہ سول سروس میں پہلی بار سب سے بڑا عہدہ تھا۔ بعد ازاں خواجہ ناظم الدین کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں چوہدری محمد علی کو وزیرِ خزانہ بنادیا گیا۔ کچھ مُدت بعد چوہدری محمد علی کو دستور ساز اسمبلی کا رُکن منتخب کرکے اقتصادی معاملات کی وزارت کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا۔ اِس وزارت پر اُنہوں نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ کے ادوار میں اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔
اِس دوران ہی محلاتی سازشوں کی بدولت گورنر جنرل غلام محمد کو رُخصتی پر بھیج کر میجر جنرل اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بننے کا موقع مل گیا اور پھر نئی حکومت بنانے کیلئے مسلم لیگ نے متحدہ محاذ پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی اور 11 اگست 1955ء کو چوہدری محمد علی نے پاکستان کے نئے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھالیا۔ جس کے بعد بلاشبہ 1956ء کا آئین منظور کروانا چوہدری محمد علی کی سب سے بڑی کامیابی تھی لیکن دوسری طرف داخلی سیاست میں مات اُن کی ناکامی کا سبب بھی بن گئی اور صرف ایک سال بعد ہی مسلم لیگ پارٹی نے اُن کی حمایت سے دستبرداری کا اشارہ دے دیا۔ جس پر اُنہوں نے ایک مسلم لیگی کی حیثیت سے 8 ستمبر 1956ء کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
وزیراعظم حسین شہید سہروردی
مشرقی پاکستان کی جماعت عوامی لیگ کے اہم رہنما حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو ملک کے پانچویں وزیراعظم بنے۔ وزارت بنانے کیلئے اُنہیں اپنی جماعت کے 14 ارکان کے ساتھ صدر اسکندر مرزا کی حمایت یافتہ جماعت ری پبلکن پارٹی اور 7 شیڈولڈ کاسٹ ارکان کی حمایت حاصل کرنا پڑی۔ لیکن جلد ہی اُنہوں نے پنجاب کے دورے کے دوران عوام کو ری پبلکن پارٹی کے عزائم سے آگاہ کر دیا۔ جماعت کے نمائندوں نے صدر اسکندر مرزا سے شکایت کی، جب صدر اسکندر مرزا نے حسین شہید سہروردی سے بات کرنا چاہی تو اُنہوں نے مرکزی اسمبلی کا اجلاس بُلانے کا مطالبہ کردیا۔
سہروردی کے ذہن میں تھا کہ اُن کے پاس ری پبلکن پارٹی کے علاوہ کچھ دوسرے ممبران کی اتنی اکثریت ہے کہ اُنہیں دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے میں مشکل پیش نہیں آئے گی لیکن یہ سوچ اُس وقت غلط ثابت ہوگئی جب صدر اسکندر مرزا نے مرکزی اسمبلی کا اجلاس بُلانے کی تجویز رد کردی کیونکہ وہ اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ لہذا اُنہوں نے اپنی اور ری پبلکن پارٹی کی اہمیت کو قائم رکھنے کیلئے حسین شہید سہروردی کو مستعٰفی ہونے کیلئے پیغام بھیج دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر اُنہوں نے ایسا نہ کیا تو ان کو برطرف کردیا جائے گا۔
وزیراعظم حسین شہید سہروردی فوراً صدر پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا کے پاس پہنچے اور نظرثانی کی درخواست کی لیکن اسکندر مرزا نے انکار کردیا۔ اِس پر انہوں نے 13 ماہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر برسرِ اقتدار رہنے کے بعد برطرفی کی ذِلت سے بچنے کیلئے صدر کی خواہش پر 11 اکتوبر1957ء کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ صدر اسکندر مرزا نے اُن سے استعفیٰ لے لیا جو سراسر غیر آئینی کارروائی تھی۔
وزیر اعظم آئی آئی چندریگر
23 مارچ 1940ء کو لاہور میں تاریخی قراردادِ لاہور کی منظوری کے وقت جس شخص نے بمبئی کے مسلمانوں کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اِس قرارداد کی تائید کی تھی وہ اُس وقت بمبئی صوبائی مسلم لیگ کے صدر اسماعیل ابراہیم چُندریگر تھے۔ جنہیں بعد ازاں تقریباً دو (2) ماہ پاکستان کا وزیر اعظم رہنے کا موقع بھی ملا۔ اُنہوں نے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا کی طرف سے وزارت بنانے کی دعوت پر 18ِ اکتوبر 1957ء کو ری پبلکن پارٹی، مسلم لیگ اور کرشک سرامک پارٹی کی مخلوط وزارت بنالی اور خود وزیراعظم بن گئے۔
لیکن پھر جب جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ صدر اسکندر مرزا جن کو اپنی صدارت کی کرسی بچانے کیلئے ری پبلکن پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کا اتحاد ایک آنکھ نہ بھارہا تھا اور ایک غیر ممکنہ قسم کی سیاسی چالیں وزارتِ عظمیٰ کے معاملات میں رکاوٹ بن رہی تھیں تو آئی آئی چندریگر نے بہتر سمجھتے ہوئے 11 دسمبر 1957ء کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
وزیراعظم ملک فیروز خان نون
ملک فیروز خان نون بھی ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح وزارتِ عظمیٰ پر جمے نہ رہ سکے کیونکہ اُن کے دور میں ری پبلکن پارٹی کے صدر ڈاکٹر خان صاحب کا قتل ہوا تھا جبکہ حسین شہید سہروردی کا آئندہ انتخابات میں ایک دفعہ پھر وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے فی الوقت حکومت کا ساتھ دینے کا بھی کیا تھا۔ نومبر 1958ء میں منعقد ہونے والے انتخابات کو 15 فروری 1959ء میں منعقد کروانے کا فیصلہ کرنا اور جون 1958ء میں جنرل ایوب خان کی معیادِ ملازمت میں 2 سال کی توسیع دینے جیسے معاملات عوام اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں کو پسند نہ آئے۔
صدر اسکندر مرزا نے بگڑتے ہوئے حالات کا جائزہ لے لیا تھا اور اپنی کرسی کو قائم رکھنے کیلئے 7 اکتوبر1958ء کو ملک میں مارشل لاء لگادیا اور ملک کا آئین 1956ء جو پاکستان بننے کے 9 سال بعد بمشکل بنا تھا منسوخ کردیا۔ اِس کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں۔ بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمِنسٹریٹر مقرر کردیا گیا اور فیروز خان نون کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی